صبح کی چمکیلی دھوپ میں صوبائی ہوم سیکرٹری اور آئی جی پولیس شاندار گاڑیوں کے قافلے میں، بڑی سڑک سے چھوٹی گلی کی طرف مڑے۔ سامنے رکاوٹ دیکھ کر تیز رفتار گاڑیاں جھٹکے سے رُک گئیں۔ جدید ہتھیاروں سے لیس محافظ، برق رفتاری سے نیچے اترے۔ انہوں نے رکاوٹ کے قریب کھڑے پھر تیلے نو جوانوں کو بیریئر اُٹھانے کا حکم دیا۔ اُنکا انچارج، باوردی پولیس کے ہتھیار بند سپاہیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ نپے تلے انداز میں خود اعتمادی سے قدم اُٹھاتے ہوئے، وہ اعلیٰ افسران کی گاڑی کے پاس آیا اور انہیں ہاتھ کے اشارے سے نیچے اُترنے کیلئے کہا۔ گاڑی کا شیشہ نیچے ہوا اور پولیس کے سربراہ نے راستہ کھولنے پر اصرار کیا مگر نوجوان ٹس سے مس نہ ہوا۔ ہوم سیکرٹری اور آئی جی، دونوں سمجھ گئے کہ گاڑیاں آگے لیجانے کی اجازت نہیں ملے گی۔ محافظ بھی ہمراہ نہیں ہوں گے۔ یہاں تک تو قابل برداشت تھا، مگر ابھی اور مر حلے باقی تھے۔ دونوں افسران کو حکم ہوا کہ وہ ذاتی تلاشی دیئے بغیر آگے نہیں جاسکتے۔ اپنے ماتحتوں کے سامنے سبکی اُٹھانے کا تجربہ اعلیٰ افسران کو گھائل کر گیا۔ دل چاہا کہ وہ سیاسی شخصیت سے ملاقات کا پروگرام منسوخ کرکے واپس چلے جائیں، مگر خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہے۔ گلی میں کافی دور تک پیدل چلنے کے بعد وہ اس مکان پر پہنچے جسکا ایڈریس نائن زیرو (90) تھا۔ سیاسی رہنما سے ملاقات میں اُنکا بھاشن سُنا ۔ خلاصہ کچھ یوں تھا۔ ہم اور آپ ایک ہیں۔ ایک قبیلے کے فرد ۔ مظلوم لوگ۔ ماضی میں ہمارے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں اور اب تک ہو رہی ہیں۔ آپ بااختیار افسر ہیں۔ اپنے لوگوں کی مدد کریں۔ اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائیں۔ اپنے سینئر سے یہ کہانی سنتے ہوئے، راقم نے شرارتی انداز میں پوچھا، ’’سر! تو کیا آپ کا ضمیر جاگ اُٹھا؟ کیا آپ نے قبیلے کو فائدہ پہنچایا ؟ جواب میں اُنکے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ چھا گئی۔ انہوں نے جلے کٹے انداز میں کہا، ”سیاست دان لسانی وابستگی کی بنا پر غلط کام کرنیکی طرف مائل کر رہا تھا، مگر ہمیں احساس تھا کہ بیوروکریٹ کا ضمیر جاگتا رہے تو اپنے عمل میں غیرسیاسی، آزاد اور غیر جانبدار رہتا ہے۔‘‘ آج یہ پرانا واقعہ اسلئے یاد آیا کہ ایک نوجوان افسر نے 26نومبر کو اسلام آباد میں پیش آئے واقعات پر کھلے خط کے ذریعے حکومتی پالیسیوں کو حرف تنقید بنایا اور نوکری سے استعفیٰ دیدیا۔ یہ ایک غیر معمولی عمل تھا۔ بیوروکریٹ، حکومت وقت سے اپنے خیالات کا اظہار کھلے خط سے نہیں کرتا۔ 1970ء میں مشہور وکیل اور سیاستدان چوہدری اعتزاز احسن نے سول سروس کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود سرکاری نوکری کو رد کر دیا۔ اُنہوں نے طویل کھلے خط کے ذریعے اپنے فیصلے کا جواز پیش کیا۔ کھلے خط کے حوالے سے مجھے ہندوستان کے ایک مشہور بیوروکریٹ جگ موہن سے جڑے واقعات یاد آ رہے ہیں۔ 25ستمبر 1927ء کو حافظ آباد میں پیدا ہونیوالے اس افسر نے اپنے کیریئر کا آغاز ہندوستانی پنجاب میں ایک وزیر کے مددگار کی حیثیت سے کیا۔ وہ پہلے صوبائی سروس کے رکن بنے اور پھر آئی اے ایس میں شامل کئے گئے۔ سات سال دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے منسلک رہنے کے دوران اُنہوں نے اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے، سنجے گاندھی کی قربت حاصل کی۔ کانگریس پارٹی نے اُنہیں 1971ء میں پرما شری اور 1977ء میں پدما بھوشن کے ایوارڈ سے نوازا۔ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی سربراہی کے دوران اُنہوں نے پرانی دہلی میں ترقیاتی کاموں کے نام پر مسلمانوں کی بستیاں مسمار کیں۔ فسادات ہوئے ، ہلاکتیں ہوئیں مگر انہیں کشمیر کا گورنر بنادیا گیا۔کشمیری مسلمانوں میں غیر مقبولیت پر بے نظیر بھٹو نے اُنکا نام لیکر کہا کہ ہم جگ موہن کو بھاگ موہن بنا دینگے۔ راجیو گاندھی سے تعلق خراب ہونے پر اس بیوروکریٹ نے پینترا بدلا اور ایک کھلے خط میں کانگریس پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تقریباً بیس صفحات پر مشتمل یہ خط اُنکی کتاب My Frozen Turbalance جس کا ترجمہ ’’برفیلے شعلے“ کے عنوان سے چھپا، میں شامل ہے۔ وہ موقع دیکھ کر 1995ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن بنے۔ تین دفعہ دہلی کے حلقہ انتخاب سے کامیاب الیکشن لڑا اور وزیر کی حیثیت سے بی جے پی کابینہ کے رکن بنے۔ ایک بیورو کریٹ کی سیاسی میدان میں کامیابی کا یہ انوکھا واقعہ ہے۔ برطانوی حکومت نے انتظامیہ کا ڈھانچہ میکس ویبر (Max Weber) کے نظریے پر اُستوار کیا تھا۔ اس بندوبست میں بیوروکریٹ کی ذمہ داری صرف مقنّنہ کے بنائے ہوئے قوانین اور ضابطوں پر عملدرآمد سے متعلق تھی۔ آزادی کے بعد، آزاد اور غیر جانبدارانتظامیہ کا تصور دھندلا ہوتا گیا۔ وقت کیساتھ بیوروکریسی کے رویے میں تبدیلی آئی۔ آج کل بیورو کریٹ کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی کو بُرا نہیں سمجھتے۔ یہ تعلق اُن کیلئے ترقی کے نئے دروازے کھول دیتا ہے۔26نومبر کے واقعات پر پیر سلیمان شاہ راشدی ( انفارمیشن سروس) نے انگریزی زبان میں تحریر کردہ ، کھلے خط میں اپنے استعفے کو ضمیر کی آواز سے جوڑ دیا۔ لکھا کہ اب یہ ضمیر کا معاملہ ہے۔ کیا میں اس نظام کا حصہ رہوں جو اپنے لوگوں پر جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے؟ انہوں نے سرکاری انتظام اور سماج میں بدعنوان اشرافیہ کے غلبے کا جذباتی انداز میں ذکر کیا اور اپنی دانست میں تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہونے کو ترجیح دی۔
استعفیٰ دینے کے فوراًبعد، وہ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلز پر نظر آنے لگے۔ مجھے علم نہیں کہ اُن کا ضمیر کب جا گا۔ کچھ بھی ہو یہ عمل اُن سرکاری ملازمین کے طریقہ کار سے بہتر ہے جو ریاست کی ملازمت کے دوران ، سیاست دانوں کی نوکری کرتے ہیں۔