لاہور(صباح نیوز)نائب امیر جماعتِ اسلامی، سیکرٹری جنرل مِلی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا تنازعہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو مستقل بنیادوں پر متنازع اور بے وقار کرنے کا باعث بنارہے گا، سِول نافرمانی کی کال پر خود پی ٹی آئی میں کامل اتفاق نہیں تو عمل کیونکر ممکن ہوگا ۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کا تنازعہ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو مستقل بنیادوں پر متنازع اور بیوقار کرنے کا باعث بنارہے گا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے تنازعہ کے خاتمہ کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ سماعت کرے اور آئینی ترمیم تنازعہ سے نجات دلائے، وگرنہ طویل مدت تک سنسنی خیز اثرات سماجی دائروں کو متاثر کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بیرونی مداخلت بڑھارہا ہے، پاکستان دشمن قوتوں کے لیے سیاسی تنازعات اور مختلف علاقوں میں گروہی تصادم سہولت کار بنادیئے گئے ہیں۔ عوام کی جان مال عزت کا تحفظ وفاقی، صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ وزرا عدلیہ کے خلاف توہین آمیز بیانات بند کریں۔
لیاقت بلوچ نے سوالات کے جواب میں کہا کہ سِول نافرمانی کی کال پر خود پی ٹی آئی میں کامل اتفاق نہیں تو عمل کیونکر ممکن ہوگا۔ حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے عوام سے جینے کا حق چھین رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور عوام کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ حکومت اور ریاست کی سخت گیری احتجاج کو خوفناک بنادے گی۔ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ عوام ظلم، جبر اور آمرانہ فیصلوں کو کبھی قبول نہیں کرتے۔
لیاقت بلوچ نے کرم خیبرپختونخوا میں گرینڈ جرگہ کی غیرمعینہ مدت کے لیے جنگ بندی کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ کرم ضلع کے عوام امن چاہتے ہیں، سنی شیعہ عوام باہم قربت رکھتے ہیں۔ مخصوص مفادات اور بیرونی عناصر کالعدم گروہوں کی سرپرستی حالات کو بگاڑنے کا باعث ہیں۔ کرم ضلع کے سنی شیعہ مشران کو ازخود مسائل حل کرنا ہونگے۔ مستقل امن کے قیام کے لیے سنی شیعہ عوام اور مشران ‘جیو اور جینے دو’، ‘دردِ مشترک قدرِ مشترک’ کے اصولوں پر متحدہ اقدامات کریں۔
لیاقت بلوچ نے علما کرام اور دینی مدارس کے اساتذہ کے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مدارس رجسٹریشن مسئلہ کا حل تمام دینی مدارس اور اتحاد مدارسِ دینیہ کا مشترکہ مطالبہ ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے دبا، حکومتی سیکولر طبقہ کی شرارتوں اور قومی ایکشن پلان کے غلط استعمال نے مساجد، مدارس، امام بارگاہوں کے لیے مسائل پیدا کیے۔ مدارس رجسٹریشن قانون سازی کے معاملہ میں ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم اور مقتدر طبقوں نے مولانا فضل الرحمن کو دھوکہ دیا ہے۔ ملک بھر کے مدارس تحفظ اور رجسٹریشن کے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔