سیاسی تحریکوں کی کامیابی کے تقاضے ۔۔۔ تحریر: نعیم قاسم

اگر ہم تاریخ میں کامیاب سماجی اور سیاسی تحریکوں کا جائزہ لیں تو ان میں جو مشترکہ اور نمایاں خصوصیات نظر آتی ہیں، وہ کچھ یوں ہیں اول_ سیاسی اورسماجی تحریک وہی کامیابی سے سماج کا رخ موڑنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر تی ہے جس کی بنیاد انسانی بھلا ئی کے کسی نظریے پر ہو اس تحریک کے موہدین مکمل طور پر اپنے نظریے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں اور اپنے مقصد کی کامیابی کے لیے ہر طرح کے جان و مال کی قربانی دینے میں کسی تامل کا مظاہرہ نہ کریں _تاریخ گواہ ہے کہ وہی عوامی انقلابات سماجی تبدیلی لانے میں کامیاب رہے ہیں جن کی بنیاد اانسانوں پر جبر اور ظلم کے خاتمے کے لیے تھی _مثلاً کفر کے خلافا اسلام کی تحریک، آمریت کے خلاف جمہوریت کی تحریک، سرمایہ داری کے خلاف سوشلزم کی تحریکیں ______اکثر خطوں میں اس لیے کامیاب ہوئیں کیونکہ ان میں دکھی انسانیت کے لیے نجات کا پیغام تھا _اگر چہ استبدادی قوتوں نے ان تحریکوں کو تن آور درخت بننے سے روکنے کے لیے بے حد کوششیں کیں مگر بے سود رہیں
نبی کریم محمد صل اللہ علیہ والہ سلام کی ذات بابرکت کے صدقے اسلام نے صدیوں سے قائم ظلمت کے اندھیروں کو ختم کیا اور عام انسانوں کو بہتر زندگی گزارنے کے لیے عادلانہ معاشرہ نصیب ہوا بادشاہت کے خلاف بالآخر دنیا کے اکثریتی ممالک میں جینوئن جمہوریت کا نظام قائم ہوا ستر سال سے زائد عرصہ تک روس، چین سمیت مشرقی یورپ کے تمام ممالک میں سوشلزم کے انقلاب نے اپنے پنجے گاڑے__جو تمام انسانوں کو ایک ہی طبقہ قرار دے کر مساوی معاشی حقوق فراہم کرنے کا دعوے دار تھا اسی لیے وسائل پر نجی ملکیت پر پابندی تھی مگر وہ الگ بات ہے کہ اتنا آئیڈیل ریاستی بندوبست اپنے اندرونی تضادات، بیوروکریٹک کنٹرول اور انسانوں میں مسابقتی جذبات کو مفقود ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ ختم ہو گیا اور سرمایہ دارانہ معیشت کے تحت لبرل ازم کو فتح حاصل ہو گئ دوم_کسی بھی سماج میں پائے جانے والے تضادات اور معاشرتی ناہمواریوں اور معاشی نا انصافیاں ہر جان دار تحریک کے اندر ایک ایسی قوت نمو پیدا کر دیتے ہیں جو مزاحمت کے باوجود جبرواستبداد کی سلوں کو چیر کر اپنی نشوونما کا اہتمام کر لیتی ہے اسکی واضح مثال آج کے نوجوانوں کی اکثریت کا تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جعلی مینڈیٹ والے حکمرانوں کے خلاف مسلسل مزاحمت ہے پوری ریاستی مشینری کے جبر و استبداد کے باوجود تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کی 8 فروری کے انتخابات میں کامیاب ہونا ____جسے نادیدہ ہاتھ نے اقلیت میں بدل دیا اور 27 نومبر کو ڈی چوک میں بارہ بے گناہ سیاسی کارکنوں کی شہادتوں، سینکڑوں کا زخمی ہونا اور ہزاروں کارکنوں کے جیلوں میں چلے جانے کے باوجود نوجوانوں کے عزم و ہمت میں کمی نہیں آئی ہے وہ جعلی اور کنڑولڈ جمہوریت کے خلاف مزاحمت سے پیچھے ہٹنے کو تیار نظر نہیں آرہے ہیں یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان ایک کثیر ا لقومی نسلی امتیاز اور ثقافتی مظہر کا حامل ملک ہے جہاں عوام کی شرکت اقتدار کے بغیر طویل عرصہ حکومت کرنا ممکن نہیں ہے پاکستان کے تمام فوجی آمر بھی مشر ق وسطی کے بادشاہوں کی طرح تیس چالیس سال تک حکمران بنے کے آرزو مند رہے مگر دس بارہ سال سے زیادہ اقتدار میں نہ رہے نواز شریف بھی امیرالمومنین بننے کی خواہش میں راندہ درگاہ ہوئے
سوم _کسی بھی جینوئن سیاسی تحریک کا سچا نظریہ عوام کے دل و دماغ کا احاطہ کر لیتا ہے تو یہ ایک ناقابل تسخیر مادی اور اخلاقی قوت میں بدل جاتا ہے جب فرانس میں شہنشاہ کے خدائی حقوق کے خلاف لوگوں نے احتجاج شروع کیا تو شاہی جبر کے باوجود عوام کی تحریک کامیاب ہوئی اور بادشاہ کو اہل خانہ سمیت تخت دار پر لٹکنا پڑا اور آج مغرب میں جمہوریت ایک مستحکم قوت بن کر عوام کے حقوق کا تحفظ کر رہی ہے
چہارم _کسی بھی تحریک کی کامیابی میں بنیادی انسانی فلاح وبہہود کا نظریہ استحصالی حکمرانوں کو خوف اور ہیجان میں مبتلا رکھتا ہے اور اکثر ایسے حکمران ااپنے بوجھ تلے دب کر نیست و نابود ہو جاتے ہیں ایران میں شہنشاہ کو عوام نے بھاگنے پر مجبور کر دیا بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی سولہ سال سے قائم آمریت یکدم زمین بوس ہو گئی جنوبی کوریا کے صدر نے مارشل لاء لگا یا تو چند گھنٹوں میں عوام نے ااسے ناکام بنا دیا چند سال بیشترترکییہ میں فوج نے طیب ااردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششیں عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنا دی ___لہذا پاکستان کے حکمرانوں کو طاقت کے نشے میں ہر ادارے، ہر فرد اور مخالف سیاسی جماعتوں کو کچلنے کے متعلق تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہو گا ___کیونکہ جب عوام کے ذہنوں میں بغاوت کا لاوا انتہا پر پہنچ جائے تو ایک نہ ایک دن اسے اتش فشاں بن کر پھٹنا ہی ہوتا ہے یہی سماجی ارتقاء اور جدلیات کا تقاضا ہے
پنجم تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جو بھی عہد ساز تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں انہیں فوجی کی منظم فوجی مزاحمت کا سامنا رہا ہے لیکن ان تحریکوں کے سامنے فوج ناکام رہی ہے افغانیوں اور اس سے پہلے ویتنامیوں نے امریکہ کی بے پایاں عسکری قوت کو بے توپ و تفنگ جنگ لڑ کر ثابت کیا کہ نظریاتی طور پر مسلح بے تیغ سپاہی ہر قسم کی طاقت اور اسلحے پر بھاری ہوتا ہے
ششم _عہد ساز تحریکوں کے متعلق یہ بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ تحریکوں کو لیڈر کامیاب بناتے ہیں تاریخی اور منطقی لحاظ سے یہ بات کچھ یوں ہےکہ ہر تحریک اچھی تنظیم سے کامیاب ہو تی ہے اچھی تنظیم کا انحصار بہادر اور وژنری لیڈر پر ہوتا ہے اور یہ لیڈر بھی نظریے کی پیروی میں عزت اور منزلت پر فائز ہوتا ہے نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا مگر بعد میں اس سے منحرف ہو کر اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کرکے اقتدار میں شراکت داری حاصل کی اور تاریخ میں اپنا مقام گہنا لیا جبکہ تحریک انصاف میں تنظیم نہ ہونے سے احتجاج بار بار ناکام ہوتے ہیں یہ بجھوؤں کی طرح ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہتے ہیں عمران خان جو پہلے اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے اقتدار میں آیا اب ایک حریت فکر کا مزاحمتی کردار بن کر عوام کے دلوں میں لافانی کردار بن گیا ہے
ہفتم اگر کوئی تحریک سازگار حالات اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتے کے بل بوتے پر کامیاب ہو جائے تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ انقلاب کے بطن سے فاشزم جنم لے لے ہٹلر اور مسولینی کی مثالیں سامنے ہیں اور بعض اوقات چرچل جیسے رہنما کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی برطانیہ کو سکڑنے سے نہ بچا سکے اور بالآخر دنیا میں فوجی سامراجیت کی جگہ مالیاتی سامراج نے لے لی
انسانیت کی بھلائی کے لیے بھرپا تحریکیں لیڈر کے مرنے کے بعد بھی کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہیں ویت نام کا عظیم انقلابی لیڈر ہوچی منہ دوران جدوجہد فوت ہو گیا مگر اسکی تحریک نے کئ ہوچی منہ پیدا کیے جہنوں نے امریکی سامراج کو ناکوں چنے چبوا دیے اور ویت نام کو آزاد کرا لیا
تحریک پاکستان کی کامیابی میں ہندو کے معاشی جبر کے خوف نے اہم کردار کیا مگر آزادی کے بعد عوام ایلیٹ کی غلامی میں آگئے بھٹو نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور فوجی آمروں سے ٹکرا گیا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا آج عمران خان بھی بھٹو کی طرح استحصالی احساس کے خلاف عوام کی دبی خواہشات کو بھڑکا رہا ہے اللہ نہ کرے کہ وہ بھٹو کی طرح ٹریجڈک ہیرو بنے آج طاقتور طبقے کمزور طبقات کو انگریزوں کی طرح اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں مگر اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ خلق خدا ریاستی جبر کے خلاف دریا بن کر جھوم اٹھنے کے خواب آگیں سحر میں گرفتار دکھائی دے رہی ہے جیلیں مقدمات، ہلاکتیں، جان آبرو سب کچھ لٹنے کے باوجود بھی چند سرپھرے “تبدیلی کے ہیولے” کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ٹھوکریں کھا رہے ہیں کتنی نسلوں کو جرم الفت پر سزاوار ہونا ہے کچھ پتہ نہیں!
جرم الفت پہ ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں
کیسے ناداں ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں