سڑکوں سے پارلیمان کی جانب واپسی… مزمل سہروردی


ایک ا چھی خبر تو یہ ہے کہ بانی تحریک انصاف نے اپنی پارٹی کو اب پارلیمان میں احتجاج کرنے کی اجازت دے دی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ فی الوقت سڑکوں پر احتجاجی تحریک ملتوی کر دی گئی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ بانی تحریک انصاف اور پارٹی نے احتجاجی تحریک سے توبہ کر لی ہے اور نہ ہی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ دوبارہ احتجاجی تحریک نہیں چلائیں گے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ فی الحال احتجاج کی کوئی نئی کال نہیں ہے، تحریک انصا ف کو واپس پارلیمان میںجانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

فائنل کال کے وقت جب تحریک انصاف کی قیادت سے سوال کیا جاتا تھا کہ آپ پارلیمان میں کوئی کردار کیوں نہیں ادا کرتے؟ سڑکوں پر احتجاج کیوں کر رہے ہیں ؟تو وہ ہمیں سو دلائل دیتے تھے کہ پارلیمان میں کوئی کردار کیسے ادا کیا جا سکتا ہیِ ، پارلیمان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، ہم پارلیمان اور حکومت کو مانتے نہیں ہیں۔ لیکن دیکھیں آج تحریک انصاف واپس پارلیمان کی طرف ہی جا رہی ہے۔

یہی پارلیمان کی طاقت ہے۔ یہ پارلیمنٹری پارٹیوں کو بار بار اپنی طرف بلاتی ہے اور بتاتی ہے کہ راستہ اس طرف ہے۔ اس سے پہلے تحریک انصاف نے بار بار اسمبلیوں سے استعفیٰ دیے۔ حکومتیں ختم کیں۔ لیکن وقت نے انھیں سکھایا ہے کہ پارلیمان سے استعفوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہی ہوتا ہے۔

آج جس پارلیمان کو وہ بے وقعت اور جعلی کہتے ہیں ۔ لیکن اس سے استعفیٰ نہیں دیتے کیونکہ وقت نے انھیں سکھایا ہے کہ پارلیمان سے استعفوں کا فائدہ نہیں نقصان ہوتا ہے۔آج کے پی حکومت اپنے صوبے کے عوام کو وفاق کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کے پی حکومت چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وقت نے انھیں سکھایا ہے کہ منتخب حکومت کیسی بھی ہو، چھوڑنی نہیں چاہیے۔ آپ کے پاس جس بھی اسمبلی کا کنٹرول ہو، اسے توڑنا نہیں چاہیے۔

اسی طرح میں سمجھتا ہوں اب تحریک انصاف کو یہ سبق بھی مل رہا ہے کہ ہر وقت سڑکوں پر رہنا کوئی سیاست نہیں۔ احتجاج کا حق سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ اس حق کا غلط استعمال آپ کا کافی نقصان کر دیتا ہے۔ عوامی احتجاج کی طاقت بار بار استعمال سے بڑھتی نہیں کم ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے آپ کمزور ہو جاتے ہیں۔ احتجاج کی طاقت اکیلے استعمال کرنے کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ پھر آپ بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں۔ جیسے اس وقت تحریک انصاف ایک بند گلی میں نظر آرہی ہے۔ بلاشبہ کامیاب احتجاج کے بہت سے فوائد ہوتے ہیں لیکن ناکام احتجاج کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ تحریک انصاف آجکل ایسے ہی نقصانات کو برداشت کر رہی ہے۔

ویسے تو کوٹ لکھپت جیل سے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی ایک کھلا خط لکھا ہے۔ اس خط پر شاہ محمود قریشی ، سنیٹر اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید، عمر سرفراز چیمہ اور ڈاکٹر یاسمین راشد کے دستخط موجود ہیں، اس کھلے خط میں بھی احتجاجی تحریک کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ان رہنماؤں کا موقف ہے کہ کیونکہ تحریک انصا ف کی قیادت میں سے کوئی ان سے نہ تو ملنے آتا ہے اور نہ ہی پارٹی کے معاملات میں ان سے کوئی مشاورت کی جاتی ہے، اس لے وہ کھلا خط لکھنے پر مجبور ہیں۔بہر حال ان کی تجویز لگتا ہے کہ وہ قبول کر لی گئی ہے اور احتجاجی تحریک وقتی طو رپر ملتوی کر دی گئی ہے۔

میں سمجھتا ہوں ساری تحریک انصاف چاہتی تھی کہ احتجاجی تحریک ختم کا سلسلہ ہی ختم کر دیا جائے۔ اکثریت پہلے بھی سڑکوں پر احتجاج کے حق میں نہیں تھی۔لیکن اڈیالہ کے فیصلوں کے آگے مجبور تھے۔ اکثریت پہلے بھی سسٹم سے لڑنے کے حق میں نہیں تھی۔ لیکن مزاحمتی گروپ نے پارٹی کو اور اس کے فیصلوں کو یر غمال بنایا ہوا تھا۔بیرسٹر گوہر ، عمر ایوب شبلی فراز ، سلمان اکرم راجہ، اسد قیصر ، علی محمد خان سمیت سب مفاہمت کے حامی تھے۔ سڑکوں کے بجائے پارلیمان میں کردار کے حامی ہیں۔

لیکن ان کی سنی نہیں جا رہی تھی۔ علی امین گنڈا پور کے بارے میں بھی یہی رائے تھی کہ وہ بھی بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کے حق میں نہیں تھے، ان کی بھی رائے تھی کہ کے پی حکومت مفاہمت سے بہتر بار گین کر سکتی ہے۔ آپ کے پی حکومت کو سڑکون پر لا کر کے پی حکومت کی بار گین کی طاقت کو کمزور کر رہے ہیں۔ لیکن اب ان سب کی بات سنی گئی ہے۔ لیکن اس بات کو ماننے میں تحریک انصاف کا کافی نقصان ہو گیا ہے۔ جس کا بہر حال سب کو اندازہ ہے۔

بیرسٹر گوہر کی جانب سے پارلیمان میں کردار ادا کرنے کے اعلان سے پہلے دوبارہ کال دینے کی بھی اطلاعات مل رہی تھیں۔ کے پی کی پارلیمانی پارٹی نے دوبارہ کال دینے کی بات کی تھی۔ ایسی اطلاعات بھی مل رہی تھیں کہ بشریٰ بی بی دوبارہ کال دینے کے حق میں ہیں۔

وہ فوراً دوبارہ ڈی چوک کی کال دینا چاہتی ہیں۔ اس حوالے سے ایک تجزیہ تو یہ ہے کہ حالیہ فائنل کال کی ناکامی ایک طرف لیکن اس ناکامی نے بشریٰ بی بی کو سیاسی طور پربھی بہت نقصان پہنچا دیا ہے۔ وہاں سے فرار نے ان کی سیاسی شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ اب انھیں اندازہ ہو گیا ہے کہ اگر وہ وہاں کھڑی ہو کر گرفتاری دے دیتیں یا کارکنوں کے ساتھ زخمی ہو جاتیں تو ان کے سیاسی قد میں بہت اضافہ ہو جاتا۔ وہ ایک سیاسی ہیرو بن جاتیں۔ لیکن اب وہ سیاسی زیر و ہو گئی ہیں۔

اس لیے وہ اپنے سیاسی نقصان کو پور ا کرنے کے لیے دوبارہ کال دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم ساری تحریک انصاف کی قیادت اس کے خلاف تھی اور ہے۔بشریٰ بی بی جن کو ’ بزدل اور بے حمیت‘‘ کہہ رہی تھیں، ان سب نے مل کر بشریٰ بی بی کو سیاسی طور پر زیرو کر دیا ہے۔پارٹی کے اندر یہ اعلانات کے ڈی چوک جانے کا کوئی فیصلہ ہی نہیں تھا، بانی تحریک انصاف نے تو کبھی ڈی چوک جانے کا کہا ہی نہیںتھا۔ دراصل بشریٰ بی بی کے خلاف سیاسی چارج شیٹ ہے کیونکہ ڈی چوک جانے کا لوگوں سے حلف تو بشریٰ بی بی لے رہی تھیں۔ویسے بھی اس وقت پارٹی میں اوور سیز گروپ بھی بشریٰ بی بی کے خلاف ہے۔

امریکا میں مقیم تحریک انصاف کے ایک پاپ گلوکار رہنما نے گزشتہ دنوں ایک ٹوئٹر سپیس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی بشریٰ بی اسٹبلشمنٹ کی ایجنٹ ہے اور وہ اسٹبلشمنٹ کی گیم کھیل رہی ہیں۔ وہ جو بھی کر رہی تھیں، اسے بانی تحریک انصاف کی حمایت حا صل نہیں تھی۔

بانی تحریک انصاف کی بہنوں کے حوالے سے بھی ایسی ہی باتیں سامنے آئی ہیں۔ لیکن بشریٰ بی بی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی بات کرنے کے لیے اڈیالا جا نہیں سکتیں۔ وہ آج بھی گرفتاری کے خوف سے کے پی میں بیٹھی ہیں۔ ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ نکل چکے ہیں۔ لیکن انھوں نے گرفتاری دینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ اگر وہ بانی تحریک انصاف کو نہیں مل سکیں گی تو ان کی سیاست کو مزید نقصان ہو گا۔ لیکن ملنا ممکن بھی نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس