کشتیوں کا پل اور 25 کروڑ مسافر…وجاہت مسعود


یہ 19ویں صدی کی باتیں ہیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1843ء میں سندھ اور 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ ابھی یہاں بنیادی بندوبست کے معاملات چل رہے تھے کہ 1857ء کا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ایک برس بعد 1858ء میں برطانوی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر کے ہندوستان پر براہ راست حکومت شروع کر دی۔ 1881ء میں پہلی بار ہندوستان میں مردم شماری کی گئی تو پنجاب کی آبادی دو کروڑ جبکہ سندھ کی آبادی پچیس لاکھ شمار ہوئی۔ 1861 ء میں کراچی سے کوٹری تک ریلو ے لائن بچھائی گئی۔ دریائے سندھ پر پل نہ ہونے کے باعث سندھ اور پنجاب کے درمیان ملتان تک کا سفر دخانی کشتیوں کے ذریعے ہوتا تھا۔ اس مقصد کیلئے سکھر، مٹھن کوٹ اور ڈیرہ غازی خان کے مقام پر تین بڑی کشتیاں تیار کی گئیں۔ 1889 ء میں دریائے سندھ پر سکھر پل تعمیر کر دیا گیا تھاتاہم دیگر مقامات پر کشتیوں کے ذریعے ہی دریا پار کیا جاتا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد دریائے ستلج خشک ہو گیا تو یہ کشتیاں دریائے سندھ میں ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان کے گھاٹ پر پہنچا دی گئیں۔ ان دخانی کشتیوں میں ایک وقت میں پانچ سو مسافر سفر کر سکتے تھے۔ کچھ مقامات پر چھوٹی کشتیوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر ہلکے پل بھی زیر استعمال لائے جاتے تھے۔ لاہور کے پاس دریائے راوی پر1876 ء میں تعمیر ہونیوالا پل زیادہ خستہ ہو گیا تو عارضی طور پر ساٹھ کی دہائی میں چھوٹی کشتیوں کا ایک متوازی پل بھی بنایا گیا تھا۔ کشتیوں سے بنائے گئے پلوں پر سفر کرنیوالی مغربی پاکستان کی آبادی 1961ء کی مردم شماری کے مطابق چار کروڑ تیس لاکھ تھی۔ یہ بات تو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ25کروڑ کی موجودہ آبادی کیلئے کشتیوں کے پل قابل عمل نہیں ہیں۔ کبھی ہم نے اس پر بھی غور کیا کہ اگر دریا کے پل مرورِایام اور بڑھتی ہوئی آبادی کا ساتھ نہیں دے پاتے تو عام شہریوں کی روز مرہ کی ضروریات مثال کے طور پر ہسپتال اور اسکول بھی تو اسی تناسب سے توجہ اور وسائل کا تقاضا کرتے ہیں۔

پاکستان میں ہر روز 19ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں اور تقریباً پانچ ہزار اموات واقع ہوتی ہیں۔ گویا ہر چوبیس گھنٹے میں چودہ ہزار نئے شہری اسکول، ہسپتال اور دوسری شہری ضروریات کا تقاضا لئے آبادی میں شامل ہوتے ہیں۔ ہر برس بیس لاکھ نوجوان روزگار کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیا زراعت میں افرادی قوت کی کم ہوتی ضرورت اور صنعتی ترقی میں جمود بلکہ انحطاط کے پیش نظر ان بیس لاکھ نوجوانوں کے روزگار کی کوئی صورت ہم نے سوچی۔ اسٹاک ایکسچینج تیزی سے ترقی کر رہی ہے لیکن ملکی آبادی کا کتنا حصہ اس معاشی امکان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں یقیناً کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ کوئی جادو کا کھیل نہیں۔ آئی ایم ایف سے ساڑھے سات ارب ڈالر کے قرض سے متصل دیگر بیرونی امداد بھی ملکی معیشت کا حصہ بنی ہے۔ یہ ادھار کی معیشت ہے۔ قرض کا غازہ ہے۔ اس کا صنعتی ترقی، خدمات کے شعبے میں پھیلائو اور پیداواری سرگرمی سے تعلق نہیں ہے۔ معیشت کے ماہر ہر چند برس بعد ہمیں معاشی ترقی کی نوید سناتے ہیں اور خوشگوار اعلانات کی یہ ہری گھاس وقفے وقفے سے زرد ہو جاتی ہے۔ حقیقی معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ ہماری اجتماعی زندگی کی کچھ حقیقتیں توجہ طلب ہیں۔ موجودہ سیاسی نظام معمول کی دستوری حکومت نہیں بلکہ ایک عبوری بندوبست ہے۔ ہم نے جمہوریت کے دودھ میں اس قدر پانی ملا دیا ہے کہ منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی کسی کو معلوم نہیں کہ آئندہ دو سے تین برس میں موجودہ سیاسی بندوبست کی کیا صورت ہو گی۔ ہم نے کہیں قانون کی اڑواڑ لگا کر اور کہیں ریاستی طاقت کے بل پر ایک عارضی بندباندھا ہے جو تاریخ کی آزمائش پر پورا نہیںاتر سکے گا۔ ہماری سلامتی کی صورتحال اطمینان بخش نہیں۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بہت سے حصوں میں ریاستی عمل داری مخدوش ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ بیرونی دنیا میں ہماری قومی ساکھ پر گہرے نشانات ہیں اور ہم خواہش کے باوجود ان غلطیوں کے نتائج سے محفوظ نہیں رہ سکتے جو عشرہ در عشرہ اپنوں اور پرایوں کے سمجھانے کے باوجود ہم سے سرزد ہوئی ہیں۔ محترم بھائی محمد مہدی خارجہ امور میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں ۔ وہ محب وطن ہونے کے ناتے ہر تحریر میں امید بندھاتے ہیں۔ تاہم انہیں ٹھیک سے معلوم ہے کہ خارجہ محاذ پر سب اچھا نہیں۔ اگر ہم 2013ء میں چین سے طے پانے والے سی پیک معاہدے کے بارے میں داخلی طور پر یکسو نہیں ہیں تو ہمیں جان لینا چاہئے کہ ہم مشرق اور شمال میں دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان اس طرح دبائو میں ہیں گویا چکی کے دو پاٹوں میں اناج کا دانہ۔ اس پر سیاسی حلقوں میں خبر گرم ہے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی روایتی سیاست تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ چنانچہ ایک نئی سیاسی قوت کے ظہور کی سوچ جنم لے رہی ہے۔ ’جنگ‘ کے اسی ادارتی صفحے پر جولائی 2011ء میں ایک صاحب خبر نے ہمیں بتایا تھا کہ ’صاف ستھرے‘ سیاسی رہنمائوں پر مبنی ایک سیاسی قوت میدان میں اتاری جائیگی۔ یہ تحریک انصاف کے اکتوبر 2011 ء والے جلسے کی خفی خبر تھی۔ ڈیڑھ عشرہ گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ خود کاشتہ سیاسی پودے بالآخر جھاڑ کا کانٹا بن جاتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم گزشتہ غلطیوں کے علاج کیلئے بھی پرانا نسخہ ہی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر مخصوص چہروں کی مسلسل رونمائی دیکھتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی مشکل نہیں۔ آج کے ’صاف ستھرے‘ چہروں کو سیاسی قوت بخشنے کیلئے جو کمک فراہم کی جائیگی وہ ماضی ہی کی طرح کشتیوں کا ایک عارضی پل ہو گا۔ کشتیوں کے پل پچیس کروڑ کی آبادی کی سیاسی، معاشی اور تمدنی ضروریات کیلئے کارآمد نہیں ہوا کرتے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ