اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کرلیا۔ جبکہ بینچ کے سینئر رکن جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ہے کہ بالآخر سپریم کورٹ کے فیصلہ کاکیا ہوگا جو فیلڈ میں ہے۔ قانون کے مطابق حکومت جو چاہے قانون سازی کر لے، عدالتی فیصلہ پر عمل ہوا نہیں اور آپ توسیع پر توسیع لے رہے ہیں، حکومت لکھ کر دے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کیا پریکٹیکل مسائل ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وقت لیتے ہیں، تکنیکی معا ملات بتادیں، کیا فیصلہ پر عملدرآمدنہیں ہوگا؟جبکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے بینچ کوبتایا کہ ہماری بین الاقوامی کمٹمنٹس ہیں اور خارجہ پالیسی ہے جو کہ آڑے آرہی ہے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 6رکنی آئینی بینچ نے وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری وزارت امور کشمیر وگلگت بلتستان کے توسط سے رجسٹرار سپریم ایپلٹ کورٹ، گلگت بلتستان اوردیگر کے خلاف گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت سے متعلق دائر 4درخواستوں پر سماعت کی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان نے پیش ہوکربتایا کہ یہ چارآئینی درخواستیں ہیں جو گلگت بلتستان سپریم ایپلٹ کورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف دائر کی گئی ہیں، جن کاانہیں اختیارنہیں تھا۔مدعاعلیہیان کے وکیل سینیٹر حامد خان کاکہنا تھا کہ انہیں جواب جمع کروانے کے لئے وقت دیا جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈیشن اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 2018کے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کیا کہ نہیں۔
چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ اگرحکم کالعدم نہیں ہوتا توہمارے اوپر کلیم برقراررہے گا۔چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ ہماری بین الاقوامی کمٹمنٹس ہیں اور خارجہ پالیسی ہے جو کہ آڑے آرہی ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو چیزیں آپ کے دائرہ اختیارمیں آتی ہیں وہ توکریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اعتراض کیا کہ عدالتی فیصلہ قانون اور اختیار کے خلاف ہے، سپریم کورٹ کے آرڈر پر گلگت بلتستان کے عوام میں اضطراب پایا جاتا ہے، گلگت بلتستان کے عوام کا مطالبہ ہے انھیں پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے، یہ مشکل پیش آرہی ہے، لوگ کہتے ہیں ہمیں صوبہ قراردیا جائے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام برابری کے حقوق چاہتے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق حکومت جو چاہے قانون سازی کر لے، عدالتی فیصلہ پر عمل ہوا نہیں اور آپ توسیع پر توسیع لے رہے ہیں، حکومت لکھ کر دے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کیا پریکٹیکل مسائل ہیں۔
ایڈووکیٹ حامد خان کاکہنا تھا کہ حکومت جواب جمع کروائے ہم اس کاجواب دیں گے تاکہ ہمیں پتا چلے کہ ان کی پوزیشن کیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی جواب جمع کروانا ہے یا دلائل دینا ہیں وہ آئندہ سماعت پر کردیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ بالآخر سپریم کورٹ کے فیصلہ کاکیا ہوگا جو فیلڈ میں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وقت لیتے ہیں، تکنیکی معا ملات بتادیں، کیا فیصلہ پر عملدرآمدنہیں ہوگا؟عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کوتحریری جواب جمع کروانے کاحکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ ZS