اسلام آباد(صباح نیوز) پاکستان میں غیرمعیاری کاسمیٹکس کے بے دریغ استعمال نے صحت اور ماحولیات کو سنگین خطرات میں مبتلا کر دیا ہے جس کی بنیادی وجہ مناسب قانون سازی، آگاہی اور معیار کی کمی ہے۔ یہ باتیں پاکستان میں ماہرین امراض جلد اور ریگولیٹری اتھارٹیز کا کردارکے موضوع پر مقررین نے ایس ڈی پی آئی کے زیرِ اہتمام موضوعاتی اجلاس میں کہیں۔ماہرین نے کہا کہ پاکستان برآمد ہونے والی متعدد جلد کو سفید کرنے والی مصنوعات میں مرکری کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، جس سے انسانی صحت اور ماحول کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مرکری کے زہریلے اثرات کے باعث پٹھوں کی کمزوری، اعضاکی بے حسی، جلد پر خارش، بے چینی، یادداشت کی کمزوری اور دیگر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ماہرین ماحولیات، صنعتکاروں اور پالیسی سازوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مرکری کے اخراج کو قابو میں رکھنا اور عوام کو اس کے نقصانات سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ انسانی صحت اور ماحول پر مرکری کے مضر اثرات کو کم کیا جاسکے۔اجلاس کی نظامت ڈاکٹر رضیہ صفدر نے کی، جبکہ مقررین میں پیپا کے ڈاکٹر ضیغم عباس، وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی ڈاکٹر فرزانہ الطاف، پی ایس کیو سی اے کے خواجہ محی الدین، پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولوجسٹس کے بریگیڈیئر ڈاکٹر نعیم رضا، اے آئی ایم سی لاہور کی پروفیسر ڈاکٹر نادیہ علی ظفر،
کایا ویلی نس ریٹریٹ اسلام آباد کی ڈاکٹر طاہرہ شاہد اور اے کے یو ایچ کراچی کی ڈاکٹر سعدیہ تبسم شامل تھیں۔ڈاکٹر رضیہ صفدر نے کہا کہ پاکستان مارچ 2021 سے مناماتا کنونشن 2020 کا حصہ ہے، جس کے تحت مرکری کی مقدار 1 پی پی ایم سے زیادہ والے کاسمیٹکس کی تیاری، درآمد اور برآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کاسمیٹکس انڈسٹری میں 55 فیصد مرکری کا اخراج ہوتا ہے جو کہ ماحول کیلئے نقصان دہ ہے۔ڈاکٹر ضیغم عباس نے کہا کہ پاکستان نے چار صنعتوں سے مرکری کے استعمال کا خاتمہ کردیا ہے لیکن اب صحت کے شعبے میں بھی مرکری کا استعمال ختم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جلد سفید کرنے والی 59 کریموں کے نمونوں میں سے صرف تین کو قابل قبول پایا گیا، جن میں مرکری 1 پی پی ایم سے کم تھا۔پی ایس کیو سی اے کے خواجہ محی الدین نے کہا کہ پاکستان میں آلودہ کاسمیٹکس کی جانچ کیلئے معیاری لیبز موجود نہیں ہیں اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے فروخت ہونے والی ایسی مصنوعات کی روک تھام کیلئے کوئی قانو ن بھی نہیں ہے۔
پاکستان ایسوسی ایشن آف ڈرماٹولوجسٹس کے بریگیڈیئر ڈاکٹر نعیم رضا نے کہا کہ قانون پر عملدرآمد نہ ہو نے کی وجہ سے زیادہ مرکری والے کاسمیٹکس کا استعمال عام ہے۔پروفیسر ڈاکٹر نادیہ علی ظفر نے آن لائن پلیٹ فارمز پر بھی قابو پانے کے لئے میکانزم تجویز کیا۔ ڈاکٹر طاہرہ شاہد نے کہا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے رویوں میں تبدیلی ضروری ہے۔ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فرزانہ الطاف نے کہا کہ مرکری کے استعمال کو کنٹرول کرنے کیلئے مضبوط قانون سازی ضروری ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں دماغی نشوونما میں کمی اور صحت کے دیگر مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ انہوں نے سفارش کی کہ اس حوالے سے سائنسی تحقیق اور پالیسی فیصلوں اور اداروں کے درمیان رابطوں کو بہتر بنایا جائے۔