اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے سنی اتحاد کونسل( ایس آئی سی)کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف دائر درخواست خارج کردی۔جبکہ بنچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست بھی خارج کر دی۔جبکہ بینچ نے اعلی عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست بھی خارج کر دی۔جبکہ بینچ نے کام نہ کرنے والے سرکاری عہدیداران کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست خارج کردی۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس سید حسن اظہررضوی ، جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 7 رکنی آئینی بنچ نے بدھ کے روز کل 15کیسز پر سماعت کی۔ بینچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کیخلاف مولوی اقبال حیدر کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار مولوی اقبال حیدر نے مئوقف اپنایا کہ میری جانب سے درخواست بروقت دائر کی گئی تھی، اب اس مقدمہ کا نظر ثانی کیس زیر التوا ہے، چاہتا ہوں کہ کسی مقدمے میں اس معاملے کو دیکھا جائے۔
دوران سماعت جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہم سے غیر آئینی کام کیوں کروانا چاہتے ہیں؟ امیدواران کی مرضی ہے سیاسی جماعت میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔جسٹس امین الدین خان نے مزید کہا کہ مولوی اقبال صاحب آپ پھر اسی طرف جا رہے ہیں جس وجہ سے پابندی لگی تھی۔بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت قرار دینے کے خلاف دائر درخواست رجسڑار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے خارج کر دی۔جبکہ آئینی بنچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست بھی خارج کر دی۔
دوران سماعت وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 90 فیصد سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی ہی نہیں ملتی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کو براہ راست سن رہے ہیں اس سے زیادہ کیا رسائی چاہیے؟ آپ تو اپنے ہی ادارے کو برباد کر رہے ہیں، کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 120 ہے اور کوئی کہتا ہے ہماری عدلیہ کا نمبر 150 ہے، پتہ نہیں یہ نمبر کہاں سے آتے ہیں۔بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے سائلین کو سپریم کورٹ تک رسائی نہ ملنے سے متعلق درخواست بھی خارج کر دی۔اعلی عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست پر بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ فوجداری قانون سمیت کئی قوانین میں ٹائم لائن موجود ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ٹائم لائن کے لیے پارلیمنٹ سے جا کر قانون سازی کروا لیں۔درخواست گزار حسن رضا نے کہا کہ ٹرائل مکمل ہوتے ہوتے 20 سے 40 سال لگ جاتے ہیں۔جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایسی عمومی باتیں نہ کریں اور الزام نہ لگائیں، سسٹم پرفیکٹ نہیں ہے لیکن پیش رفت ہو رہی ہے، آپ کی درخواست نیشنل جوڈیشل پالیسی سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست پر کسی کو ہدایت نہیں جاری کریں گے، جہاں اصلاحات ہو رہی ہیں وہاں جاکر شمولیت اختیار کریں، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے تابع ہیں۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر ہماری طرف سے بھی سخت ردعمل آیا تو مایوسی پھیلے گی۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی ریفارمز کے لیے لا اینڈ جسٹس کمیشن موجود ہے، وہاں رجوع کریں۔بعدازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد اعلی عدالتی فورمز پر ٹرائل مکمل کرنے کے لیے ٹائم فریم طے کرنے کی درخواست بھی خارج کر دی۔جبکہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کام نہ کرنے والے سرکاری عہدیداران کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست خارج کردی۔ آئینی بینچ فارغ رہنے اور کام نہ کرنے والے سرکاری عہدیداران کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست پرسماعت کی۔سماعت کے دوران جسٹس عائشہ اے ملک نے درخواست گزار سے کہا کہ آپ کی درخواست میں استدعا ہے تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے فارغ کیا جائے، آپ ان سرکاری افسران کی نشاندہی کریں اور متعلقہ اداروں سے رجوع کریں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کسی سرکاری افسر کا ذکر نہیں کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ آپ کا کون سا کام نہیں ہوا؟عدالت کو آگاہ تو کریں، کیامطلب ہے؟ ہم صدر، وزیراعظم، اسپیکر اور اسمبلی ممبران سب کو نکال دیں؟بعد ازاں آئینی بینچ نے درخواست ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔