سپریم کورٹ ، بلوچستان اسمبلی کے چار حلقوں میں الیکشن ٹربیونلز اوربلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف 2 اپیلیں خارج ،ایک منظور


اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلوچستان اسمبلی کے چار حلقوںپی بی 21حب،پی بی 28کیچ، پی بی 44کوئٹہ اور پی بی 45کوئٹہ میں الیکشن ٹربیونلز اوربلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 2اپیلیں خارج اورایک منظور کرلی جبکہ عدالت نے ایک کیس دوبارہ فیصلے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوادیا۔ جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ا لیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس دوبارہ گنتی کاحکم دینے کا اختیارتوموجود ہے تاہم نظرثانی کااختیار حاصل نہیں، الیکشن کمیشن نے نظرثانی کااختیار کہاں سے حاصل کیا ہے۔اگر بیان حلفی قانونی طور درست نہیں توپھر درخواست ہی نہیں بنتی۔ بیان حلفی کی تصدیق نہ ہونے کی بنیاد پر 2018کے انتخابات کے الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سے بعد لاتعداداپیلیں خارج ہو گئی تھیں۔

جبکہ جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کہ دوبارہ گنتی کروانے کے لئے الیکشن کمیشن نے مخالف فریق کونوٹس دینا ہے اوردوبارہ گنتی کرانے کے حوالہ سے مواد بھی ہونا چاہیئے۔ فارم 45اورفارم47پر جوتماشا ہے وہ بھی دیکھ لیں اگر چاہتے ہیں توہم اس پر بھی حکم جاری کردیں گے۔ فارم 45اور47میں تضادات کا معاملہ دوسرے درخواست گزاروں نے بھی اٹھایا ہے۔ دوبارہ گنتی کا حکم برقراررکھتے ہیں، ایک حلقہ میں توشفافیت آجائے۔ الیکشن کمیشن زبردست ریکارڈ رکھتاہے۔ بغیر حلف کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، حلف پرتصدیق ضروری ہے، جھوٹا بیان حلفی دیں تو جھوٹی گواہی بن جاتی ہے۔ یہ دودھاری تلواروالا معاملہ ہے کہیں بہت ساری چیزوں کو قبول کرکے درخواستوں کو منظور کیا گیا اور کہیں نظرانداز کرکے خارج کردیا گیا۔اگر ایک نقص بھی ہوگاتودرخواست خارج ہوجائے گی۔

جسٹس شاہد وحید کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پرمشمتل 3رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 6 میں کیسز کی سماعت کی۔ دوران سماعت فریقین کی جانب سے سینئر وکلاء سینیٹر فاروق حمید نائیک، خواجہ حارث احمد، سینیٹر کامران مرتضیٰ، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شہزادشوکت، امان اللہ کنرانی اورمحمد مسعود خان پیش ہوئے۔ جبکہ ڈی جی الیکشن کمیشن آ ف پاکستان محمد ارشد بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ کیسز کی سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربرہ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ ٹیکس کے معاملات بھی ہیں اورالیکشن کے معاملات بھی سماعت کے لئے مقررہیں ہم پہلے دیگر معاملات کوسنتے ہیں اوربریک کے بعد ٹیکس معاملات سنیں گے۔ بینچ نے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 21حب میں دوبارہ گنتی کے معاملہ پر علی حسن زہری اور محمد صالح بھوتانی کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ علی حسن زہری کی جانب سے فاروق ایچ نائیک جبکہ محمد صالح بھوتانی کی جانب سے خواجہ حارث احمد بطوروکیل پیش ہوئے۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ الیکشن کمیشن کادوبارہ گنتی کاحکم کالعدم قراردلوانا چاہتے ہیں۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ وہ دوبارہ گنتی کے حکم سے متاثر ہیں ہم دوبارہ گنتی نہیں چاہتے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ دوبارہ گنتی کروالیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ آپ کی درخواستیں منظورہورہی ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھاکہ الیکشن کمیشن کادوبارہ گنتی کاحکم کالعدم قراردیا جائے۔ فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی توہونی چاہیئے۔خواجہ حارث کاکہناتھا کہ میرے مئوکل جیتے تھے، الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی کاحکم دیا جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن کاحکم غیر قانونی ہے۔

خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی کے بعد نتائج غیر قانونی ہیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ کیا ہم دوبارہ گنتی کروانے کاحکم برقراررکھیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ ایک درخواست محمد صالح بھوتانی نے 27فروری 2024کوالیکشن کمیشن دائر کی جبکہ دوسری علی حسن زہری نے دائر کی، الیکشن کمیشن نے نظرثانی کااختیار کہاں سے حاصل کیا ہے ،الیکشن کمیشن کے پاس دوبارہ گنتی کاحکم دینے کااختیارتوموجود ہے تاہم نظرثانی کااختیار حاصل نہیں۔جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی ابھی نہیں ہوئی تھی، الیکشن کمیشن کانظرثانی کاحکم بغیر دائرہ اختیار کے ہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہناتھا کہ علی حسن زہری کی دوسری نظرثانی درخواست آئی وہ بھی منظور ہوگئی۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ آخر کارنتیجہ یہ ہوگا کہ تمام احکامات ختم کرکے دوبارہ معاملہ فیصلے کے لئے الیکشن کمیشن کو بھیج دیں اور الیکشن کمیشن سب کوسن کوفیصلہ کرے۔

فاروق نائیک کاکہناتھاکہ الیکشن کمیشن دوبارہ فیصلہ کردے، دوبارہ گنتی کروالیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے دومرتبہ حکم جاری کیا۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ جوقانون اجازت دیتا ہے اُس مرحلہ تک تولے کرآجائیں۔ خواجہ حارث کاکہناتھاکہ مدعاعلیہ کو نوٹس دیئے بغیر دوبارہ گنتی کاحکم دیا گیا، کوئی ایسا موادنہیں تھا جس کی بنیاد پر دوبارہ گنتی کاحکم دیا گیا ہو۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن دوبارہ گنتی کامعاملہ بھی دوبارہ سن لے۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے حکم جائے گا تو الیکشن کمیشن زیادہ محتاط ہوجائے گا۔ امان اللہ کنرانی کاکہنا تھا کہ دوٹوں کافرق 14ہزار سے زائد ہے۔ خواجہ حارث کاکہناتھا کہ الیکشنز ایکٹ 2017کے سیکشن 95-6کے تحت دوبارہ گنتی کے لئے صوبائی حلقہ پر 4ہزارووٹوں کا فرق ہونا چاہیئے۔

جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ دوبارہ گنتی کروانے کے لئے الیکشن کمیشن نے مخالف فریق کونوٹس دینا ہے اوردوبارہ گنتی کرانے کے حوالہ سے مواد بھی ہونا چاہیئے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ساراکیس دوبارہ سنے گا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کوحکم دیا ہے کہ وہ تمام فریقین کونئے سرے سے سن کرایک ماہ کے اندر فیصلہ کرے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ تمام فریقین الیکشن کمیشن میں پیش ہوں گے۔ اس دوران جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کیا فیصلے الیکشن کمیشن کواعتراض تونہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوکوئی اعتراض نہیں۔

جسٹس شاہد وحید کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ الیکشن کمیشن اس حوالہ سے بھی فیصلہ کرے گا کہ درخواست قابل سماعت ہے کہ نہیں۔ جبکہ بینچ نے پی بی 45کوئٹہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار علی مدد جتک کی جانب سے الیکشن ٹربیونل کی جانب سے 15پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ گنتی کروانے کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزارکی جانب سے شہزادشوکت بطور وکیل پیش ہوئے۔ جبکہ مدعا علیہ میر محمد عثمان پرکانی کی جانب سے سینیٹر کامران مرتضیٰ بطوروکیل پیش ہوئے۔ پی بی 45کوئٹہ میں پی پی پی امیدوار علی مدد جتک کامیاب ہوئے تھے۔

علی مدد جتک نے 5671ووٹ حاصل کیئے تھے جبکہ جمیعت علما اسلام(ف)کے امیدوار میر محمدعثمان پرکانی نے 4346ووٹ حاصل کیئے تھے۔ کیس کی سماعت پہلے سابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے کی تھی اورعلی مدد جتک کو عارضی طور پر بحال کردیا تھا۔بدھ کے روز دوران سماعت علی مدد جتک کے وکیل شہزادشوکت کاکہناتھاکہ میرے مئوکل 5671ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہناتھاکہ آپ پرالزام ہے کہ آپ کے 195ووٹ تھے جو کہ 5671ہو گئے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ فارم 45اورفارم47پر جوتماشا ہے وہ بھی دیکھ لیں اگر چاہتے ہیں توہم اس پر بھی حکم جاری کردیں گے۔

جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ فارم 45اور47میں تضادات کا معاملہ دوسرے درخواست گزاروں نے بھی اٹھایا ہے، حیران کن طور پر فارم 45 سے متعلق الزامات دونوں اطراف سے آئے ہیں۔جسٹس عرفان سعادت خان کا کہناتھاکہ درخواست گزار پر الیکشن ٹربیونل کے فیصلے میںسنگین الزامات ہیں،دروازے اور شیشے ٹوٹے ہوئے تھے، ایک رات پہلے الیکشن مواد غائب ہوگیا تھا۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ صرف درخواست گزار کے ہی نہیں مدعا علیہان کے فارم 45کا بھی معائنہ کیا گیا۔ شہزادشوکت کاکہناتھا کہ مدعا علیہان نے کوئی اوریجنل دستاویز کبھی پیش نہیں کی، میں نے لگانے کی کوشش کی تاہم مجھے بھی ریکارڈ نہیں دیا گیا۔ اس پر جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ بہت ہی حیران کن بات ہے۔

جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھا کہ الیکشن ٹربیونل نے قراردیا کہ15پولنگ اسٹیشنز پرسنگین الزامات ہیں اور ٹیمپرنگ کوخارج ازامکان قرارنہیں دیا جاسکتا۔ جسٹس شاہد وحید کاکہناتھا کہ دونوں ہی گندے ہوں گے اس لئے الیکشن ٹربیونل نے دوبارہ گنتی کاحکم دیا ہے، درخواست گزارکے قبضہ میںموجود فارم 45کسی صورت قابل قبول نہیں۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھاکہ الیکشن ٹربیونل کے الیکشن کی سفارش کی ہے اور ہونا بھی چاہیئے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھا کہ دوبارہ گنتی کا حکم برقراررکھتے ہیں، ایک حلقہ میں توشفافیت آجائے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہناتھا کہ دستاویزات کی بنیاد پر ہم دوبارہ گنتی کے حکم کوبرقراررکھتے ہیں۔ شہزادشوکت کاکہناتھاکہ پریزائڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران آکر بیان ریکارڈ کرواتے۔

عرفان سعادت خان کاکہناتھا کہ دوبارہ پولنگ ہونے دیں۔ عدالت نے علی محمد جتک کی اپیل خارج کرتے ہوئے الیکشن ٹریبونل کا15پولنگ اسٹیشنز پردوبارہ پولنگ کروانے کا فیصلہ برقرار رکھا۔جسٹس شاہد وحید کاکہناتھا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ جبکہ بینچ نے پی بی 44کوئٹہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار عبیداللہ کی جانب سے الیکشن ٹربیونل کی جانب سے حلقہ کے 16پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کروانے کے حکم کے خلاف نیشنل پارٹی کے امیدوار عطا محمد بنگلزئی اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزارکی جانب سے خواجہ حارث احمد پیش ہوئے جبکہ مدعا علیہ کی جانب سے محمد مسعود خان پیش ہوئے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھاکہ یہ شہزاد شوکت کی طرح کا ہی کیس لگ رہا ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہناتھاکہ 16پولنگ اسٹیشنز کامعاملہ ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فارم 45سے49تک تمام فارمزکے مطابق ہم جیتے ہوئے ہیں۔

جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ الزام کیا ہے، کتنے ووٹ بڑھے۔ خواجہ حارث کاکہناتھا کہ میرے 7125اورمیرے مخالف کے 6385ووٹ تھے۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 184-3کا کیس نہیں۔ جسٹس عقیل احمد کاکہنا تھا کہ کیاسرکاری مئوقف ریکارڈ پرآیا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کسی نے بھی فارم 45جمع نہیں کروائے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ کیا فارم 45اورفارم47میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ مدعا علیہان نے جو دستاویزات جمع کروائیں وہ تصدیق شدہ نہیں، نوٹری پبلک سے دستاویزات تصدیق کروائی گئیں جو کہ درست نہیں، اوتھ کمشنر نے بیان حلفی کی تصدیق کرانا ہوتی ہے۔

جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ اگر بیان حلفی قانونی طور درست نہیں توپھر درخواست ہی نہیں بنتی۔ جسٹس شاہد وحید کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ خواجہ حارث توآپ کو الیکشن ٹربیونل کے دروازے سے اندر ہی نہیں جانے دے رہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہان تھا کہ الیکشن کمیشن زبردست ریکارڈ رکھتاہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ چار چیزیں پوری نہیں توکیسے الیکشن ٹربیونل میں جائیں گے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میرااپنے بیان حلفی پرانحصار نہیں۔ اس پر جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ پھر توآپ کی درخواست قابل سماعت نہیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ آپ کی الیکشن پیٹیشن ہی وجود میں نہیں آرہی، پہلے بناکردکھائیں کہ الیکشن پیٹیشن کیسے بنی ہے، الیکشن ٹربیونل کاساراحکم بغیردائرہ اختیار کے ہے۔

جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ درخواست گزارکاسارا مواد مکمل ٹیمپرنگ زدہ، فراڈ اورکرپشن پر مبنی ہے مگرمدعا علیہ پہلے اپنی درخواست کوثابت کریں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ ہم درخواست کے حوالہ سے نہیں بلکہ بیان حلفی کے حوالہ سے بات کررہے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید کامدعا علیہ کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نقص کاکوئی جواب ہے کہ نہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ خواجہ صاحب سے بھی معصومانہ سوال پوچھا تھا مدعا علیہ کے وکیل سے بھی پوچھ لیتے ہیں، بغیر حلف کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں، حلف پرتصدیق ضروری ہے، جھوٹا بیان حلفی دیں تو جھوٹی گواہی بن جاتی ہے۔

جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ الیکشن ٹربیونل کو تودرخواست کے قابل سماعت ہونے پر ہی اعتراض لگادینا چاہیئے تھا کہ بیان کسی صورت قابل قبول نہیں۔جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ یہ دودھاری تلواروالا معاملہ ہے کہیں بہت ساری چیزوں کو قبول کرکے درخواستوں کو منظور کیا گیا اور کہیں نظرانداز کرکے خارج کردیا گیا۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ بیان حلفی کی تصدیق نہ ہونے کی بنیاد پر 2018کے انتخابات کے الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ سے بعد لاتعداداپیلیں خارج ہو گئی تھیں۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ مدعاعلیہ کے پاس سوال کاجواب نہیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ جو بیان حلفی لائے ہیں وہ ناقص ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھاکہ ہم زائد المعیاد کامعاملہ ختم کرکے واپس بھجوادیتے ہیں اورجو بھی 10یا20دن رہتے تھے وہیں سے شروع کرکے قانون کے مطابق دوبارہ بیان حلفی بنوالیں، یہ ایسانقص تونہیں جس پر قابونہیں پایا جاسکتا۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ ہم درخواست منظور کرتے ہیں اور اگر مدعا علیہ تصدیق نہیں کرواتے تودرخواست خارج تصورہوگی۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کامدعاعلیہ کے وکیل کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم تو بیان حلفی کی بات کررہے ہیں، کیوں بچوں کی طرح ہمیں بتارہے ہیں، ایک نقص بھی ہوگاتودرخواست خارج ہوجائے گی۔

عدالت نے درخواست گزارعبیداللہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ غیر قانونی قراردے دیا۔ واضح رہے کہ پی پی پی امیدوارعبیداللہ حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے۔عبیداللہ نے 7125ووٹ حاصل کیئے تھے جبکہ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے مخالف امیدوار عطا محمد بنگلزئی نے 6385ووٹ حاصل کیئے تھے۔ جبکہ بینچ نے پی بی 28کیچ کے حوالہ سے میر ہمل خان کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر انتخابی عذرداری پر سماعت کی۔

دوران سماعت مدعا علیہ کے وکیل کامران مرتضیٰ کاکہناتھاکہ الیکشن کمیشن سے ریکارڈ منگوایا گیا تھا تاہم مطلوبہ دستاویزاف فراہم نہیں کی گئیں، آج کچھ ریکارڈ آیا ہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ اس کیس میں بھی بیان حلفی کی تصدیق کاہی معاملہ ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ پچھلے والے کیس میں بھی یہی تھا۔ جسٹس شاہدوحید کا درخواست گزارکے وکیل محمد مسعود خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ آپ کے سپریم کورٹ میں کتنے کیسز ہیں ان کوپہلے لگواتے ہیں۔ اس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوگئے۔ جسٹس شاہد وحید کاکہنا تھا کہ پچھلے کیس والا نقص اس کیس میں بھی ہے۔

جسٹس عقیل احمدعباسی کاکہنا تھا کہ جوکیس پہلے کیا ہے یہ بھی اسی لائن میں ہے۔ جسٹس شاہد وحید کاکامران مرتضیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ مخالف وکیل کو بار میں لے جائیں اورچائے پلائیں۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھاکہ آج ہی کیس کافیصلہ کرتے ہیں۔ عدالت نے درخواست خارج کردی۔واضح رہے کہ حلقہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار میر اصغر رند کامیاب ہوئے تھے۔ میر اصغررند نے 7090ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے مخالف امیدار میر ہمل خان نے  4366ووٹ حاصل کیئے تھے۔