خواتین کی معاشی خودمختاری کیلئے مالی شمولیت ناگزیرہے: ماہرین


اسلام آباد(صباح نیوز)معاشرے کی معاشی خودمختاری کا انحصار خواتین کی مالی شمولیت پر ہے۔خواتین کی کمائی اور خرچ کرنے کی صلاحیت ان کے مرد سرپرستوں پر انحصار کے باعث محدود ہے۔ ان خیالات کا اظہارماہرین نے یہاں سالانہ پائیدار ترقی کانفرنس میں پاکستان میں خواتین کی مالی شمولیت کے موضوع پر پینل مباحثہ میں کیا ۔

شرکا نے اتفاق کیا کہ خودمختاری اور مالی رسائی ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ کانفرنس میں جرمن ترقیاتی ادارے (GIZ) کے تعاون سے سینٹر آف ایڈاپٹیو سوشل پروٹیکشن اینڈ اکنامک ایمپاورمنٹ (CASPEE) کا آغاز بھی کیا گیا، جو خواتین کی خودمختاری اور مالی شمولیت کے مقاصد کو آگے بڑھائے گا۔مالی شمولیت کے کردار پر غور کرتے ہوئے ماہرین نے اسے خواتین کی خودمختاری کیلئے کلیدی قرار دیا جس سے معاشی اور سماجی ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام(بی آئی ایس پی) کے سیکریٹری عامر علی احمد نے بی آئی ایس پی کو انہوں نے خواتین، خاص طور پر گھرانے کی سربراہ خواتین کے لیے ایک معاون سہارا قرار دیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ بی آئی ایس پی نے GIZ اور یونیسیف کے اشتراک سے ڈیجیٹل مالیاتی خواندگی کے پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت اب تک 25,000 افراد کو تربیت دی جا چکی ہے۔جرمن سفارت خانے کی نائب سربراہ برائے ترقیاتی تعاون نے مالی خودمختاری میں صنفی تفاوت کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔جی آئی زیڈ کے ایڈاپٹیو سوشل پروٹیکشن پراجیکٹ کی سربراہ، جوہانا کینوس نے ڈیجیٹل مالی خواندگی کے غربت میں کمی اور خواتین کی مالی شمولیت پر مثبت اثرات پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا: “پاکستان میں خواتین کیلئے مالی شمولیت کے اختراعی حل پیدا کرنے کیلئے قومی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تبادلہ خیال اور تعاون کی ضرورت ہے۔ پینل مباحثے کی نظامت GIZ کے سینئر پالیسی ایڈوائزر فرینک شنائیڈر اور ڈاکٹر فریحہ ارمغان نے کی۔کشف فاو نڈیشن کی منیجنگ ڈائریکٹر روشانہ ظفر نے خواتین کی مالی خودمختاری پر ایک پریزنٹیشن دی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی) کے ڈپٹی گورنر سلیم اللہ نے ملک میں بینک اکاونٹ رکھنے والوں کی تعداد بڑھانے میں ہونے والی پیش رفت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ مالی خدمات میں صنفی فرق کو ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔جاز کیش کے صدر مرتضی علی نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو خواتین کی مالی شمولیت کے لیے واحد ممکنہ حل قرار دیا۔

پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی (PSPA) کے سی ای او علی شہزاد نے خواتین پر سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ خواتین پر کی گئی سرمایہ کاری طویل مدت میں سماجی اور معاشی طور پر سب سے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ مباحثے کے اختتام پر خواتین کی خودمختاری کے لئے ایک جامع نظام کی تشکیل کی اپیل کی گئی تاکہ خواتین کے لیے ایک معاون ماحول پیدا کیا جا سکے۔ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلیری نے اجلاس کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ آج ہونے والی گفتگو کو سول سرونٹس کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے تاکہ معاشرے کو حقیقی طور پر حساس بنایا جا سکے اور خواتین کی خودمختاری کیلئے اجتماعی کوششیں کامیاب ہوسکیں۔