ماحولیاتی تبدیلی، کمزور ممالک کیلئے مالی اعانت کی فوری ضرورت ہے، ماہرین


 باکو/آذربائیجان(صباح نیوز) کمزور ممالک کیلئے درجہ حرارت میں اضافے ، سیلاب، اور سمندری سطح بلند ہونے کے تناظر میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے مالی اعانت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔یہ باتیں یہاںای ڈی اے یونیورسٹی، باکو، آذربائیجان میں منعقدہ ایک اہم عالمی سربراہی اجلاس میں ماہرین، پالیسی سازوں اور دانشوروں نے کہیں۔اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل اور اس حوالے سے عالمی سطح پر تعاون کی فوری ضرورت پر گفتگو کی گئی۔قازقستان کی صدر کی مشیر اور بین الاقوامی ماحولیاتی تعاون کیلئے خصوصی نمائندہ، زلفیہ سلیمانوفا نے قازقستان کی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی کوششوں پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ قازقستان، جو کاربن کے زیادہ اخراج والے ممالک میں شامل ہے، میتھین اور کاربن کے اخراج کو کم کرنے کیلئے فعال طور پر کام کر رہا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ کمزور ممالک کیلئے ماحولیاتی مالی اعانت انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ پیشگی منصوبہ بندی اور چیلنجوں سے حکمتعملیاں تیار کرنے اور انہیں اپنانے کے قابل ہو سکیں۔انہوں نے بتا یا کہ قازقستان بغیر کسی شرط کے 15 فیصد اور شرائط کے ساتھ 35 فیصد کاربن کے اخراج میں کمی کیلئے پرعزم ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے حصول کیلئے اسے ٹیکنالوجی اور مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(SDPI )پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے ترقی پذیر ممالک پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے 2022 کے تباہ کن سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس قدرتی آفت کی وجہ سے 30 ملین افراد بے گھر ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی بحران کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ بڑھ جاتاہے۔ ایسے میں یہ ضروری ہے کہ کمزور ممالک کی مالی وسائل تک رسائی کیلئے ایک واضح اور موثر فریم ورک مہیا کیا جائے۔ایشین ڈیولپمنٹ بینک (ADB) کے عبدالرشید نے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے خبردار کیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کمزور ملکوں کی معیشتوں کو انکے سالانہ جی ڈی پی میں نمایاں نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کا اندازہ ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلہ کی صلاحیت حاصل کرنے کیلئے سالانہ 102 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جس میں سے زیادہ تر فنڈز بنیادی ڈھانچے، ساحلی تحفظ اور زراعت کے لیے درکار ہیں۔قازقستان انرجی ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مشیر زلپت ازیئیفا نے قابل تجدید توانائی اور دیگر آب و ہوا سے نمٹنے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری جاری رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ قابل تجدید توانائی اور دیگر موسمیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری جاری رکھنا ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی مالیات ایک اسٹریٹجک ذریعہ ہے جو ان خطرات کو کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے جو مستقبل میں معیشتوں کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے سینئر عہدیدار رافیل عباسوف نینے مالیاتی سرمایہ کاری کو کم خطرہ بنانے کے لیے نجی شعبے اور بلینڈڈ فنانس کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ترقی پذیر ممالک کے مخصوص مسائل کے مطابق مالیاتی آلات تیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔لینڈ اسکیپ انڈونیشیا کے سی ای او اور انڈونیشین آر ای ڈی ڈی + کے نائب وزیر اگوس پراتاما ساری نیماحولیاتی مطابقت کیلئے آبی شعبے اور سمندری ماحولیاتی نظام میں نجی شعبے کے کردار کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہاکہ نجی شعبہ میں، خاص طور پر سمندری معیشت میں تبدیلی لانے کی نمایاں صلاحیت موجود ہے۔

اجلاس میں کرغزستان سے تعلق رکھنے والے ایسل مادیبائیوا اور دیگر بین الاقوامی ماہرین سمیت اس شعبے کے دیگر رہنماوں نے بھی تبادلہ خیال کیا جنہوں نے تعاون کی اہمیت اور ماحولیاتی موافقت کی کوششوں کی حمایت کے لئے مالی اعانت کو متحرک کرنے کی فوری ضرورت کا اعادہ کیا۔ اجلاس میں مقررین نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک پیچیدہمسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کیلئے مشترکہ عالمی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مطابقت کی طرف بڑھنے کے لیے ٹیکنالوجی اور رعایتی مالی وسائل فراہم کرنا ناگزیر ہے۔انہوں نے مذید کہا کہ نجی شعبے اور بلینڈڈ فنانس کے ذریعے منصوبوں کو مستحکم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے