اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ نکاح نامہ میں بیوی کومکان دینے کا لکھا ہے تومکان دیدیں۔ایپلٹ کورٹ کی جانب سے بچوں کے خرچ کے حوالہ سے مقررہ ررقم کوہم نہیں چھیڑیں گے، ہمارادائرہ اختیار ہی نہیں ہم اس میںنہیں جانا چاہتے۔ حقائق کے تعین کے معاملہ پر ہم مداخلت نہیں کریں گے، اگر رجسٹرڈ نکاح خواں نہ ہوتوکیا نکاح غلط ہوگا؟ ہم حق مہر کے معاملہ میں مداخلت نہیں کریں گے۔
خاندانی معاملات میں فیملی کورٹ یازیادہ سے زیادہ ایپلٹ کورٹ،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کوان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ تھوڑی دیر دادااگرپوتے کا خرچ دے بھی دے گا تواچھی بات ہے۔ جبکہ جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے ہیں کہ طلاق اسٹیمپ پیپر پردیتے ہیں جس کی یونین کونسل سے 30سے90روز میںتصدیق ہوتی ہے، زبانی کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، طلاق کے لئے پوراپراسیس ہوتا ہے۔ جبکہ عدالت نے شوہر کی جانب سے طلاق دینے کے 27ماہ بعد پیداہونے والے بچے کی ولدیت کے تعین کے حوالہ سے ڈی این اے رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل 2رکنی بینچ نے مختلف کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے شیہنا بلقیس اوردیگر کی جانب سے محمد علی زرغم اوردیگر کے خلاف بچے کے خرچ اور حق مہر کی رقم کی وصولی کے لئے دائر دودرخواستوںپر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر بابر اعوان پیش ہوئے۔
بابر اعوان کاکہناتھا کہ پہلا بچے سے ملاقات کامعاملہ ہے، والد انجینئر ہے اور کل ماہانہ خرچ 15ہزارروپے دیا جارہا ہے، بچہ 5ویں کلاس میںاسلام آباد میں پڑھتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہناتھا کہ فیملی کورٹ میں خرچ میں اضافہ کی درخواست دیں، ہائی کورٹ کوبھی ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بابر اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ مدعا علیہ کادرست پتا فراہم کریں تاکہ انہیں نوٹس بھجوایا جاسکے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت دسمبر کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔ بینچ نے شیر علی کی جانب سے مسماة رانی اکبر اوردیگر کے خلاف حق مہرکی ادائیگی اور بچوں کوخرچ دینے کے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزارنے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکربتایا کہ میں پرائمری ٹیچر ہوں اتنا خرچ میں نہیں دے سکتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ خاندانی معاملات میں فیملی کورٹ یازیادہ سے زیادہ ایپلٹ کورٹ،ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کوان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔
شیرعلی کاکہنا تھا کہ دوبچوں اور ماںکے لئے عدالت نے 10،10ہزارروپے خرچ مقرر کیا ہے، میں نے دوسری شادی بھی کی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کادرخواست کادرخواست خارج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جاکرخرچ اداکریں۔ بینچ نے محمد اقبال کوثر کی جانب سے عنائیہ فاطمہ اوردیگر کے خلاف بچوں کوخرچ دینے کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے عبدالقیوم قریشی بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہناتھا کہ بچوں کی والدہ پی ایس ٹی ٹیچر ہے اوراس کی 70ہزارروپے تنخواہ ہے، والدہ کی زمین بھی ہے،والد وفات پاچکا ہے ، عدالت نے دادا کوبچوں کاخرچ اداکرنے کاحکم دیا ہے، کیا دادا خرچ دے گا۔ وکیل کاکہناتھا کہ ماتحت عدالت میں کاروائی جاری ہے اور دادا کوخرچ کی عدم ادائیگی پر گرفتاربھی کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس کاکیس کی سماعت دسمبر کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تھوڑی دیر دادااگر پوتے کو خرچ دے بھی دے گا تواچھی بات ہے۔ بینچ نے اعجاز حسین کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، اٹک اوردیگر کے خلاف حق مہر کی ادائیگی کے حوالہ سے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے سردارعبدلرازق خان بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہنا تھاکہ مکان کے قبضہ کاکیا ہے، نکاح نامہ میں کسی مخصوص مکان نمبر کاذکر نہیں، جس گھر میں درخواست گزاررہائش پزیر ہے وہ اس کے والد کے نام ہے جبکہ مدعا علیہ گھرخالی کرانا چاہتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی اورگھر دے دیں، نکاح کی شرط ہے اورگھر دے دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزارداد رسی کے لئے قانون کے مطابق متعلقہ عدالت سے رجوع کرسکتاہے۔ بینچ نے کلیم اللہ کی جانب سے مسماة آصفہ بی بی اوردیگر کے خلاف حق مہر کی ادائیگی کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حقائق کے تعین کے معاملہ پر ہم مداخلت نہیں کریں گے، اگر رجسٹرڈ نکاح خواں نہ ہوتوکیا نکاح غلط ہوگا؟ ہم حق مہر کے معاملہ میں مداخلت نہیں کریں گے۔درخواست گزار کے وکیل کاکہناتھاکہ فیملی کورٹ اور ایپلٹ کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کوہدایت کہ وہ جسٹس عائشہ اے ملک کی جانب سے اس معاملہ پر حال ہی میں جاری کیا گیا فیصلہ پڑھیں۔ عدالت نے کیس میں وقفہ کردیا۔جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست گزار نے 20میں سے 6تولے حق مہر اداکردیا تھا کہ نہیں اس حوالہ ہم فیصلہ نہیں کرسکتے بلکہ فیملی کورٹ ہی فیصلہ کرے گی۔ عدالت نے درخواست
خارج کردی۔ بینچ نے ضمیر گل کی جانب سے مسماة مدیحہ اوردیگر کے خلاف حق مہر کی رقم کی ادائیگی کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست
گزارکی جانب سے مس امبرین گلزاربطور وکیل پیش ہوئیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ کیا فیملی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ دیکھے نکاح نامہ جعلی ہے کہ نہیں، درخواست گزارکی وکیل اس حوالہ سے تحریری دلائل جمع کروائیں۔ بینچ نے محمد منشا کی جانب سے نذیراں بی بی اوردیگر کے خلاف بچے کی ولدیت کے معاملہ پر دائر درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب سے محمد آصف گوندل بطور وکیل پیش ہوئے۔ وکیل کاکہناتھا کہ درخواست گزارنے 2005میں طلاق دی اور 3سال بعد 2008میں بچہ پیداہوا۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہناتھا کہ طلاق اسٹیمپ پیپر پردیتے ہیں جس کی یونین کونسل سے 30سے90روز میںتصدیق ہوتی ہے، زبانی کہنے سے طلاق نہیں ہوتی، طلاق کے لئے پوراپراسیس ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یاتوکہیں کہ خاتون نے دوسری شادی کرلی ہے اوردوسری جگہ رہ رہی ہے۔ وکیل کاکہناتھا کہ میں بیرون ملک مقیم ہوں اور بچے کی ولدیت میں میرانام لکھوادیا، طلاق دینے کے 27ماہ بعد بچہ پیداہوا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آپ کابچہ نہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ ڈی این اے کروایا جس کی رپورٹ بھی منفی آئی ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ڈی این اے رپورٹ جمع کروائیں ، بچے کوایک شناخت دے گئی ہے ہمارا جھکائو بچے کے قانونی ہونے کی جانب ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ میرابچہ نہیں ، میں ساری عمر بوجھ برداشت کروں اور وہ میری جائیداد میں بھی حصہ دار بن جائے گا۔ عدالت نے درخواست گزارکو مزید دستاویزات لگانے کے لئے وقت دیتے ہوئے مزید سماعت ملتوی کردی۔
جبکہ بینچ نے عبدالوہاب نور کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج ملتان اوردیگر کے خلاف بچوں کوخرچ دینے کے معاملہ پردائر درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزارکی جانب سے مدثرخالد عباسی بطور وکیل پیش ہوئے۔
درخواست گزارکاکہنا تھاکہ فیملی کورٹ نے2020میں فی بچے کاخرچ8ہزارروپے مقررکیاجبکہ ایپلٹ کورٹ نے اسے بڑھا کر25ہزارروپے فی بچہ کردیا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم یہ کرسکتے ہیں کہ پچھلی رقم آپ سے نہ وصول کی جائے اورآگے سے 25ہزار مانامہ فی بچہ دے دیں۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ایپلٹ کورٹ کی جانب سے بچوں کے خرچ کے حوالہ سے مقررہ ررقم کوہم نہیں چھیڑیں گے، ہمارادائرہ اختیار ہی نہیں ہم اس میںنہیں جانا چاہتے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھا کہ درخواست گزار اس شرط پر کہ سابقہ رقم وصول نہ کی جائے آئندہ سے ماہانہ 25ہزارروپے فی بچہ خرچ دینے کے لئے تیار ہیں۔ عدالت نے مدعاعلیہان کونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔