اسلام آباد۔ درخواست گزار کو سماعت کے موقع پر عدالت میں حاضر ہونا چاہیئے، چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی


اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ یہ کس نے کہہ دیا کہ جب تک عدالت نہ بلائے درخواست گزار پیش نہیں ہوگا، قانون پابند بناتا ہے کہ درخواست گزار کو سماعت کے موقع پر عدالت میں حاضر ہونا چاہیئے۔ قانون اس حد تک آگیا ہے کہ کہ اگر کیس نہ بن رہا ہوتو ملزم کو ضمانت دی جاسکتی ہے۔ہم کوئی ایسی ہدایت جاری نہیں کریں گے جس کے نتیجہ میں مقدمہ بازی کاایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک لائن لکھنے کی وجہ سے 18،20سال دوبارہ مقدمہ چلا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 2رکنی بینچ نے جمعہ کے روز فائنل اور سپلیمنٹر ی کاز لسٹ میں شامل 22کیسز کی سماعت کی۔ بینچ نے طاہر عباس اور فرحان شاہدکی جانب سے عبوری ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواستیں منظور کرلیں۔

عدالت نے درخواست گزاروں کوایک، ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کاحکم دیا ہے۔بینچ نے خادم حسین نندوانی کی جانب سے پراسیکوٹر جنرل سندھ کے توسط سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی ۔درخواست گزارکے وکیل کاکہناتھا کہ ملزمان کوضمانت دی گئی ہے جس کاوہ غلط استعمال کررہے ہیں اورٹرائل چلانے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ملزمان ضمانت کاغلط استعمال کررہے ہیں اور ٹرائل میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں توان کی ضمانت منسوخی کے حوالہ سے کاروائی کی جائے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ہم حکم کی کاپی ٹرائل کورٹ نہیں بھجوائیں گے بلکہ درخواست گزار حکمنامہ کی کاپی ٹرائل کورٹ میں جمع کروائیں اورعدالت کو حکم سے آگاہ کریں۔جبکہ بینچ نے جمیل احمد کی جانب سے خادم حسین اوردیگر کے خلاف ضمانت منسوخی کی درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ٹرائل کورٹ نے ضمانت ٹھیک دی ہے اس میں کیا بری بات ہے،جن کوضمانت دی گئی ہے ان کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہورہی ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل کاکہناتھاکہ تاخیر نہیںہورہی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ قانون اس حد تک آگیا ہے کہ کہ اگر کیس نہ بن رہا ہوتو ملزم کو ضمانت دی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم ٹرائل جلد مکمل کرنے کاحکم دے دیتے ہیں۔ بینچ نے دین محمد اوردیگر کی جانب سے ظہور احمد مرحوم کے لواحقین اوردیگر کے خلاف زمین کی خریداری کے حوالہ سے دائر درخواست پر سماعت کی۔چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میرے خیال میں رہنے نہ دیں اس کو، 9سال گزرگئے ہیں اس اب واپس کیا بھیجیں۔

چیف جسٹس کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نیچے ہائی کورٹ دوبارہ چلے جائیں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ یہ کس نے کہہ دیا کہ جب تک عدالت نہ بلائے درخواست گزار پیش نہیں ہوگا، قانون پابند بناتا ہے کہ درخواست گزار کو سماعت کے موقع پر عدالت میں حاضر ہونا چاہیئے۔ بینچ نے نائیک محمد رمضان کی جانب سے انسپیکٹرجنرل فرنٹیئر کور، بلوچستان (نارتھ)، کوئٹی اوردیگر کے خلاف ملازمت سے نکالے جانے اور پینشن کے معاملہ پردائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل کاکہناتھاکہ اس کے مئوکل خاصہ دار فورس میں بطو نائیک کام کررہے تھے اور 23سال ملازمت کی، انہیں ملازمت سے برخاست کردیا گیا تاہم سروسز ٹربیونل نے سزاکم کرکے جبری ریٹائرمنٹ کردی۔چیف جسٹس نے عدالتی عملے کوہدایت کی کیس کہ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں قائم سروس بینچ کو بھیج دیں۔

چیف جسٹس کاکہناتھاکہ یہ پینشن کے حوالہ سے کیس ہے، اگر ہم کوئی اورفیصلہ کریں اور سروس بینچ کوئی فیصلہ کرے توتضاد آجائے گاہم نہیں چاہتے کوئی تنازعہ پیدا ہو۔ عدالت نے کیس سروس بینچ کوبھجواتے ہوئے سماعت دوہفتے تک ملتوی کردی۔بینچ نے تاج اکبر مرحوم کے لواحقین اوردیگر کی جانب سے عابد علی اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہناتھاکہ ہم ٹرائل کورٹ کوہدایت دے دیتے ہیں جلد سماعت کرکے فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس کادرخواست گزا ر کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ دوعدالتوں نے آپ سے کہا ہے کہ جائیں تھوڑی شہادتیں لائیں، اگر قبضہ آپ کے پاس ہے توکیوں گھبرارہے ہیں، آپ کوکوئی نہیں نکالتا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ماتحت عدالت نے ٹھیک قانون کے اصول پر عمل کیاہے،ہم کہہ دیتے ہیں کہ ٹرائل چھ ماہ میں مکمل کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 1901کا معاملہ ہے ، ماتحت عدالت جلد فیصلہ نہ بھی کرسکے توسپریم کورٹ کافیصلہ ملنے کے 6ماہ کے اندر کیس کافیصلہ کرے۔ بینچ نے طارق عزیز اوردیگر کی جانب سے حاجی شاہ جہاں اوردیگر کے خلاف دائر درکواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کاکہناتھاکہ ہم سے کوئی ایسی ہدایت نہ دلوائیں جس کے نتیجہ میں مقدمہ بازی کاایک اورسلسلہ شروع ہوجائے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک لائن لکھنے کی وجہ سے 18،20سال دوبارہ مقدمہ چلا۔ عدالت نے ماتحت عدالت کو کسی بھی قسم کی ہدایت جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ ZS