ہم دروازہ نہیں کھول سکتے کہ لوگ نظر ثانی میں فریق بننے آجائیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ


اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصورعلی شاہ نے ڈرامہ سیریل جلن کیس کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں میں فریق بننے کی درخواستوں پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہے آئینی شقوں کی آئینی بینچ ہی تشریح کرسکتا ہے۔

ہر فیصلے کااثر معاشرے پرہوتا ہے۔ ہم دروازہ نہیں کھول سکتے کہ لوگ نظر ثانی میں فریق بننے آجائیں۔ کل کو لوگ نظرثانی درخواستیں دائر کرنا شروع کردیں گے پھر تھوڑا سا معاملہ پیچیدہ ہوجائے گا، نظرثانی کامحدود سکوپ ہے۔ آئینی درخواست دائر کردیں ہوسکتا ہے آئینی بینچ فیصلے میں ترمیم کردے۔ ہم لکھ دیتے ہیں کہ درخواستیں قابل سماعت نہیں فریقین قانون کے مطابق دادرسی حاصل کرسکتے ہیں۔ جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ درخواست گزاروں کے وکیل درخواستوںکے قابل سماعت ہونے کے حوالہ سے دلائل دیں،

اگرقانون ہے بتادیںکیسے نظرثانی میں فریق بن سکتے ہیں۔ سارے فیصلے معاشرے کے لئے ہی ہوتے ہیں۔ ہم آئین کی منشاء جانتے ہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 3رکنی بینچ نے جمعہ کے روز عاطف منہاس، سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اورجمعیت علماء اسلام (ف)کے سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کی جانب سے ایم ایس اے آروائی کمیونیکیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ(اے آروائی ڈیجیٹل)کے سی ای او، کراچی، چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، اسلام آباد اوردیگر کے خلاف ڈرامہ سیریل جلن پابندی لگانے اورنظرثانی کیس میں فریق بننے کے لئے دائر درخوااستوں پر سماعت کی۔

عاطف منہاس کی جانب سے چوہدری حفیظ اللہ یعقوب ، جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر یاسر امان خان اسلام آباد جبکہ جمیعت علماء اسلام (ف)کی جانب سے سینیٹر کامران مرتضیٰ ویڈیو لنک کے زریعہ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری سے بطور وکیل پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس عائشہ اے ملک کادرخواست گزاروں کے وکلاء سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پہلے کیس میں فریق نہیں تھے۔ چوہدری حفیظ اللہ یعقوب کاکہنا تھا کہ میں عوام کی جانب سے پیش ہورہاہوں۔ ڈاکٹر یاسر امان خان کاکہنا تھا کہ میں جماعت اسلامی کی جانب سے بطور وکیل پیش ہورہا ہوں۔

جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ اس طرح نظرثانی میں فریق بن سکتے ہیں کوئی نظیر ہے تودکھادیں۔ ڈاکٹر یاسرامان خان کاکہناتھاکہ یہ معاملہ آئینی بینچ کو بھجوادیاجائے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھاکہ اگر ہم قابل سماعت ہونے کے حوالہ سے مطمئن نہ ہوئے توکس طرح آئینی بینچ کو بھجوادیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ آپ کاکیاحق ہے، فریقین نے مسئلہ حل کرلیا ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ ہم آئین کی منشاء جانتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ آئینی بینچ کاسوال بعد میں آئے گا، آئینی درخواست دائر کردیں وہ آئینی بینچ دیکھ لے گا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت آئینی درخواست دائر کردیں، نظرثانی میں یہ باتیں نہیں ہوسکتیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ پیمراایکٹ کواس میں دیکھا گیا ہے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ آپ نظرثانی میں فریق نہیں،

کیسے درخواست قابل سماعت ہے۔ درخواست گزاروںکے وکیل درخواستوںکے قابل سماعت ہونے کے حوالہ سے دلائل دیں، اگرقانون ہے بتادیںکیسے نظرثانی میں فریق بن سکتے ہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ سارے فیصلے معاشرے کے لئے ہی ہوتے ہیں۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ ہر فیصلے کااثر معاشرے پرہوتا ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ آئینی درخواست دائر کردیں ہوسکتا ہے آئینی بینچ فیصلے میں ترمیم کردے۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکہہ رہے ہیں کہ نظرثانی میں ساراکیس دوبارہ سنیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کل کو لوگ نظرثانی درخواستیں دائر کرنا شروع کردیں گے پھر تھوڑا سا معاملہ پیچیدہ ہوجائے گا

، نظرثانی کامحدود سکوپ ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ درخواست گزار آئینی درخواست دائر کرکے دادرسی حاصل کرسکتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ ہم لکھ دیتے ہیں کہ درخواستیں قابل سماعت نہیں فریقین قانون کے مطابق دادرسی حاصل کرسکتے ہیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ ہم دروازہ نہیں کھول سکتے کہ لوگ نظر ثانی میں فریق بننے آجائیں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھاکہ آئینی شقوں کی آئینی بینچ ہی تشریح کرسکتا ہے۔عدالت نے درخواستوںپردو ہفتوں کے لئے سماعت ملتوی کرتے ہوئے وکلاء کوہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر دنظرثانی کیس میں فریق بننے کے معاملہ پر دلائل دیں۔