ہمارا کاملاً بے حس ہوا معاشرہ۔…نصرت جاوید

عمر تمام رپورٹنگ کی نذر کردینے کے بعد سیکھا ہے تو فقط اتنا کہ ’’صحافت‘‘ بنیادی طورپر وعظ فروشی نہیں خبر کی تلاش ہے۔ ’’خبر‘‘ کے ذریعے آپ معاشرے میں ’’انقلاب‘‘ برپا نہیں کرتے۔ فقط یہ جاننے اور بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکمران طبقات کے فلاں گروہ نے ایک خاص وقت پر کوئی اہم چال کیوں چلی ہے۔ اگر آپ ان کی لگائی چال کا بروقت پتہ لگاکر ’’خبر‘‘ کی صورت بیان کردیں تو چال لگانے والے پہلے حیران اور بعدازاں پریشان ہوجاتے ہیں۔ ان کی پریشانی بتدریج غصے میں بدل جاتی ہے اور میں نے حکمرانوں کے غصے کو بارہا بھگتا ہے۔ آخری بار عمران حکومت کے پورے دور میں بے روزگار رہا۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کئے اس معاشرے میں ’’لفافہ‘‘ مشہور ہوئے اس بدنصیب کی بے روزگاری بھی اذیت شمار نہ ہوئی۔ بے شمار لوگ بلکہ یہ فرض کرتے ہوئے تمسخراڑاتے رہے کہ نواز شریف کی غلامی کے عوض میں کئی پلاٹوں کا ملک بن چکا ہوںگا۔ بے روزگاری میرا کیا بگاڑسکتی ہے۔
میرے کئی دوست گلہ کرتے ہیں کہ اس کالم میں بقول داغ دل پر جو صدمات گزرے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کروں۔ میں البتہ تواتر سے خود پر لگی تہمتوں کا ذکر کرنے کو ڈٹا رہتا ہوں۔ مقصد اس کا قارئین کو یاد دلاتے رہنا ہے کہ ہمارا معاشرہ کاملاََ بے حس ہوچکا ہے۔ یہ آپ کو بے بنیاد تہمتوں کی بنیاد پر دیوار سے لگادیتا ہے اور بالآخر آپ کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ ہمت تو میں نے اب بھی نہیں ہاری ہے۔ عمر کی وجہ سے لیکن اس توانائی سے محروم ہورہا ہوں جو دل ودماغ کو تجسس سے بے چین رکھ کر ہمہ وقت خبر کی تلاش کو اْکساتی تھی۔ ایک طویل وقفے کے بعد پیر کے دن اس ضمن میں اپنی لاچاری کوشد ت سے محسوس کیا۔
پیر کی صبح اٹھ کر کالم لکھا۔ اسے دفتر بھجوادیا تو صحافی دوستوں سے فون پر رابطے شروع کردئے۔ ان کے ذریعے علم ہوا کہ حکومت ’’آج‘‘ یعنی 4نومبر 2024کے دن کچھ اہم قوانین ایک ہی دن منظور کروانا چاہ رہی ہے۔ یاد رہے کہ اپنے تئیں چند پھنے خان ہوئے ’’رپورٹر‘‘ بھی 4نومبر سے قبل حکومت کی جانب سے ’’ایسی‘‘ واردات کی توقع نہیں باندھ رہے تھے۔ مجھ جیسے تھکے ہارے اور رپورٹنگ سے ریٹائر ہوئے صحافی اپنے تئیں یہ فرض کئے بیٹھے تھے کہ 26ویں ترمیم منظور کروالینے اور اس کے نتیجے میں عزت مآب یحییٰ آفریدی صاحب کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کے بعد حکومت خود کو محفوظ محسوس کررہی ہوگی۔ اسے پریشانی میں اب انگریزی محاورے والی ’’فائرفائٹنگ‘‘ کی ضرورت نہیں۔ عدم تحفظ کے احساس سے فرصت کے جو ایام ملے ہیں ان کے دوران حکومت کی تمام تر توجہ ملکی معیشت میں استحکام لانے پر مرکوز رہے گی۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے سرمایہ کاری بھی درکار ہے۔ اس جانب توجہ مرکوز کردی جائے۔ مجھے ہرگز سمجھ نہ آئی کہ حکومت کو 4نومبر2024کے روز ہنگامی حالات میں کن وجوہات کی بنا پر ایک ہی دن میں ’’کچھ اہم ترین قوانین‘‘ منظور کروانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔
ذہن میں اٹھے سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لئے ٹی وی کے علاوہ لیپ ٹاپ بھی کھول لیا۔ روایتی ٹی وی پر ’’واٹس ایپ‘‘ گروپوں کی بدولت ’’خبر‘‘ قرار دئے ٹکرچل رہے تھے۔ ٹویٹر تک عام پاکستان کی رسائی ممکن نہیں رہی۔ اسے محض حکمران اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی وی پی این کے ذریعے استعمال کرسکتے ہیں۔ دو ٹکے کا صحافی ہوتے ہوئے لہٰذا یوٹیوب چینلوں سے رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔ وہاں پر چھائے حق گو دوست بھی تاہم اس ضمن میں بے خبر نظر آئے کہ 4نومبر2024کے دن حکومت کونسے اہم قوانین ہنگامی حالات میں منظور کروانا چاہ رہی ہے۔
دوپہر کا کھانا ختم ہوا تو خبر پھیلی کہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب نے وفاقی کابینہ کا جلاس طلب کرلیا ہے۔ مذکورہ اجلاس ختم ہوتے ہی مسلم لیگ کے اراکین پارلیمان کو طلب کرلیا گیا۔ دونوں اجلاس پانچ بجے کے قریب ختم ہوئے تو یہ ’’خبر پھیلنا شروع ہوئی کہ حکومت تاریخی عجلت میں ایک نہیں بلکہ دس کے قریب قوانین یکدم منظور کروائے گی۔ جو قوانین عجلت میں منظور کرواکر ہر صورت لاگو کئے جائیں گے ان کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی اجتماعی تعداد34تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بھی 9کے بجائے 12ججوں پر مشتمل ہوگا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں مختلف مقدمات کے بنچز تشکیل دینے کے لئے چیف جسٹس کی سربراہی میں جو کمیٹی بنائی جائے گی اس میں ’’آئینی بنچ‘‘ کا سربراہ بھی شامل ہوگا۔
5نومبر 2024کے صبح یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ اس روز جوڈیشل کمیشن کااجلاس بھی ہونا ہے۔ میں نے فرض کرلیا کہ حکومت مذکورہ اجلاس سے قبل سپریم کورٹ کے لئے تیار کی لگام کو مزید تگڑا بنانا چاہ رہی ہے۔ سادہ لوحی میں یہ بھی فرض کرلیا کہ غالباََ وہ اس امر کے لئے ’’مجبور‘‘ ہے کیونکہ اس کے چنے عزت مآب یحییٰ صاحب مبینہ طورپر منصور علی شاہ صاحب کی ’’ضرورت سے زیادہ‘‘ دلجوئی میں مصروف نظر آرہے تھے جو قاضی فائز عیسیٰ کے بعد چیف جسٹس کے منصب پر براجمان ہونے کے ’’حقدار‘‘ تصور ہوتے تھے۔ پیر کی رات سونے سے قبل مگر مطیع اللہ جان اور حسنات ملک کی جانب سے ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی صورت تیار کئے ایک وی لاگ سے اندازہ ہوا کہ غالباََ عزت مآب یحییٰ آفریدی منصور علی شاہ صاحب اور ان کے بعد سینئر ترین شمار ہوتے جسٹس منیب اختر صاحب کے دل جیتنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ وہ دونوں تو بلکہ اس امر پر اصرار کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے موجودہ تمام جج ’’فل کورٹ‘‘ بلاکر یہ طے کریں کہ آئین میں حال ہی میں ہوئی 26ویں ترمیم ’’جائز وواجب‘‘ بھی ہے یا نہیں۔ قصہ مختصر عدلیہ کے دوسینئر ترین جج اب بھی سوالات اٹھاتے چلے جارہے ہیں۔ مجھے خبر نہیں کہ پیر کی شام عجلت میں پاس ہوئے قوانین نئی صورت حال میں کسی کام آئیں گے یا نہیں۔ ایک بات مگر طے ہے اور وہ یہ کہ وہ جسے ’’استحکام‘‘ کہتے ہیں وطن عزیز کو فی الوقت میسر ہوتا ممکن نظر نہیں آرہا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت