اسلام آباد(صباح نیوز)وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی واصلاحات وخصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ سائنسدان، محققین پاکستان کو تکنیکی ترقی کی صف اول میں لانے کے لیے انتھک محنت کریں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو قائداعظم یونیورسٹی میں نیشنل سینٹر فار فزکس (این سی پی) کے3ڈی پرنٹنگ اور ویکیوم ٹیکنالوجی پر پہلی عالمی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کی میزبانی کی۔یہ تین روزہ کانفرنس 23 سے 25 اکتوبر تک جاری رہے گی، جس میں دنیا بھر سے 50 سے زائد ممتاز محققین اور سائنسدان شرکت کر رہے ہیں، تاکہ ان انقلابی ٹیکنالوجیز میں جدید پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔افتتاحی خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے قومی ترقی میں اہم کردار پر زور دیا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے تقریب کے شرکا سے خطاب میں تھری ڈی پرنٹنگ اور ویکیوم ٹیکنالوجی کی غیر معمولی اہمیت کو اجاگر کیا۔انہوں نے ان ٹیکنالوجیز کو نہ صرف ایک تکنیکی سنگ میل بلکہ صنعتوں کو دوبارہ ترتیب دینے، معیشتوں کی تشکیلِ نو اور روزمرہ زندگی میں انقلاب لانے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کنٹرولڈ ماحول میں درست مینوفیکچرنگ کی اجازت دیتے ہوئے، یہ ٹیکنالوجیز صحت، خلائی تحقیق، تعمیرات اور توانائی کے شعبوں میں جامع حل فراہم کرتی ہیں،ہم تھری ڈی پرنٹنگ اور ویکیوم ٹیکنالوجی کے دو غیر معمولی اختراعات کے سنگم پر کھڑے ہیں، جنہوں نے عالمی سطح پر پیداوار، مینوفیکچرنگ اور تحقیق کو تبدیل کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس پاکستان کے چوتھے صنعتی انقلاب کی باقاعدہ شروعات ہے۔احسن اقبال نے تھری ڈی پرنٹنگ اور ویکیوم ٹیکنالوجی کی عالمی مثالوں پر روشنی ڈالتے ہوئے صحت، خلائی تحقیق، اور بنیادی ڈھانچے میں نمایاں کامیابیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تھری ڈی پرنٹنگ نے خاص طور پر بائیو پرنٹنگ میں طبی شعبے میں انقلابی پیشرفت کی ہے، جہاں امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک نے جاندار بافتوں، کسٹم ڈیزائن شدہ امپلانٹس اور مصنوعی اعضا کی تیاری میں پیش قدمی کی ہے،خلائی اور دفاعی شعبوں نے بھی ان اختراعات سے فائدہ اٹھایا ہے، جہاں ناسا نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے راکٹ کے پرزے تیار کیے ہیں، جس سے اخراجات کم ہوئے ہیں اور خلائی تحقیق کے لیے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔وفاقی وزیر نے سپارکو جیسے اداروں کے ساتھ تعاون میں پاکستان کی خلائی صلاحیتوں کو بڑھانے کی خواہش کا بھی ذکر کیا۔ تعمیرات کے شعبے میں، انہوں نے دبئی کے منصوبے کا حوالہ دیا، جس کے تحت 2030 تک نئی عمارتوں کا 25 فیصد 3ڈی پرنٹنگ سے تیار کیا جائے گا، جبکہ چین کی تیز رفتار تعمیرات، جہاں محض چند دنوں میں پورے پورے محلہ جات کو تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے بنایا گیا، کو بھی ایک اہم مثال قرار دیا۔وفاقی وزیر نے حکومت کے فائیو ایز ڈیولپمنٹ فریم ورک کے تحت ان ٹیکنالوجیز کے استعمال کے وژن کو تفصیل سے بیان کیا، جس کا مقصد 2035 تک پاکستان کو کھرب ڈالر کی معیشت بنانا ہے۔انہوں نے وضاحت کی کہ کس طرح 3ڈی پرنٹنگ برآمدات میں اضافے، ای-پاکستان اقدامات کے ذریعے ڈیجیٹل تبدیلی، ماحول دوست مینوفیکچرنگ، توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے، اور پسماندہ طبقات کو قابل رسائی ٹیکنالوجی فراہم کر کے بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔حکومت کے معاون ماحول کو فروغ دینے کے عزم کو دہراتے ہوئے، احسن اقبال نے جدت کے فروغ کے لیے کیے گئے پاکستان انوویشن فنڈ اور سنٹرز آف ایکسی لنس جیسے اقدامات کو اجاگر کیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترقی کے لیے حکومت، نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور تحقیقی اداروں کے درمیان تعاون کی ضرورت ہوگی۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یونیورسٹیوں، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس، اور تربیتی مراکز کے ذریعے نوجوانوں کو ان ابھرتے ہوئے شعبوں میں قیادت کے لیے درکار مہارتیں فراہم کی جائیں۔
انہوں نے پاکستان کو تھری ڈی پرنٹنگ اور ویکیوم ٹیکنالوجی جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے مستحکم سیاسی ماحول اور پالیسی تسلسل کی اہمیت پربھی زور دیا۔انہوں نے کہا کہ سنگاپور، بھارت اور ملائیشیا جیسے ممالک نے پائیدار حکومت اور مستقل پالیسیوں کو برقرار رکھ کر ان ٹیکنالوجیز کو کامیابی کے ساتھ ضم کیا ہے۔ انہوں نے 2013 سے 2018 تک ویژن 2025 کے تحت ہونے والی ترقی کا بھی حوالہ دیا، جو کہ بعد کے سالوں میں پالیسیوں کی منسوخی سے متاثر ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ دیگر قوموں کی کامیاب کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ طویل مدتی استحکام پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے،پاکستان کو پالیسیوں میں تسلسل برقرار رکھنا ہوگا تاکہ ترقی کے راستے میں رکاوٹیں نہ آئیں۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے شرکا پر زور دیا کہ وہ 3ڈی پرنٹنگ اور ویکیوم ٹیکنالوجی کی جانب سے پیش کیے گئے اوزاروں اور مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ قوم کی ترقی اس کے موجدوں کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام لائبریریوں اور لیبارٹریوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کیا، اور کہا کہ لیبارٹریز 24 گھنٹے کام کریں۔انہوں نے لیبارٹریز کو روشن کھڑکیوں کی تمثیل کو تحریک دینے والا قرار دیا، جو قومی ترقی کے لیے وقف ذہنوں کے ابھرنے کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم محض تکنیکی تبدیلی کے مبصر نہیں ہیں بلکہ ہم پاکستان کے مستقبل کی تشکیل میں فعال حصہ دار ہیں۔ آئیں ہم سب مل کر کام کریں تاکہ پاکستان ٹیکنالوجی کے دور میں ایک رہنما بن سکے