سیّد سلمان گیلانی ۔۔مزاح کے حضرتِ اعلیٰ ۔۔۔تحریر : لیاقت بلوچ،نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان

(سیّد سلمان گیلانی صاحب کی دوکتب ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی ‘‘اور’’ نقوش حضوری ‘‘ کی تقریب رونمائی پریس کلب لاہور میں قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے زیرانتظام منعقد ہوئی ، سیّد سلمان گیلانی کے محبّان قطار اندرقطار، خطاب اور محبت کے اظہار کے لئے موجود تھے، مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا چند گزارشات پیش کیں اور وہیں اعلان ہوا کہ اپنی محبت وعقیدت کے اظہار کے لئے جذبات کو تحریر میں لاؤں گا۔یہ چندسطور اسی جذبہ اظہار محبت کیلئے ہیں۔)
ملک کے معروف مزاح گو سیّد سلمان گیلانی،حریت پسند انقلابی شاعر،اسلامی نظریاتی محاذ کےزبردست کارکن اور عشق رسول اللہ ؐ سے سرشار مجاہد ختم نبوت سیّد امین گیلانی کے صاحبزادے ہیں انہوں نے اپنے والد کی طرح شاعری کے محاذ پر بڑا نام پیدا کیا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ سیّد امین گیلانی 👧 کاکلام تحریک تحفظ ختم نبوت ، تحریک نظام مصطفیٰ ، تحریک نفاذ شریعت کے جلسہ ہائے عام میں ترنم سے سُنا اور محظوظ ہوئے، سماعتوں میں آج بھی اُن سے سُنےکلام کی لذت اور چاشنی محسوس ہوتی ہے خصوصاً نعت رسول مقبولؐ پیش کرنا ااور نعت کے بیان کے اسلوب حالات حاضرہ کے ساتھ بہت خوبی سے جوڑدینا اُن کا کمال تھا۔ اللہ تعالیٰ نےسیّد سلمان گیلانی کو بھی آواز،کلام اور بامقصد نظریاتی کلام کے ساتھ ظرافت ومزاح کا بھی بہت بلند مقام عطا فرمایاہے۔ اُن کی شرارتی حسِ نے ظرافت کا اعتبار اور مزاح کے ادب میں نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے، معاشرہ میں رَچی بَسی اچھی بری عادات کی زمین میں بامقصد پیغام دینے کے اسلوب نے مزاحیہ کلام کو نیا رنگ دیا ہے اور چارچاند لگا دیئے ہیں۔
علامہ عبدالستار عاصم تو کمال ہی کرتے جا رہے ہیں،انہوں نے سیّد سلمان گیلانی کی کتب ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی ‘‘ اور ’’ نقشِ حضوری‘‘ کی، بڑی محنت اورمحبت سے اشاعت کی ہے اورپھر ان کتابوں کی رونمائی کے لئے باقاعدہ تقریب کابھی اہتمام کیا ہے ۔ زمانہ جہاں کتاب سے دور ہورہا ہے لیکن وہیں علامہ عبدالستار عاصم دھڑا دھڑ کتب کی اشاعت کے ساتھ، ہاتھ سے نکلتے قارئین کو کتاب کے قریب لا رہے ہیں،قلم کاروں کو بھی بڑا حوصلہ مل گیا ہے کہ بس کتاب لکھو علامہ عبدالستار عاصم ہیں ناں ، ادھر کتاب مکمل ہوئی اورادھرقریب ترین مرحلہ میں کتاب چھپ کرآ جاتی ہے۔ بہرحال کتب بینی کے قحط میں مسلسل اور قطار اندرقطار کتب کی اشاعت بہت حوصلہ افزا،جرات مندانہ ، استقامت اور مستقل مزاجی کاکام ہے۔ ایک زمانہ میں ٹیوب ویل بنانے والی صنعت کاایک اشتہار چلتا تھا کہ ’’ بُہتے پانی دا اکو حل !! نواب ٹیوب ویل ، نواب ٹیوب ویل‘‘ موجودہ دور میں قلم فاؤنڈیشن کتابوں کی اشاعت کا معیاری اور بااعتمادادارہ بن گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اِس جذبے اور مشن کو سلامت رکھے۔ علامہ عبدالستار عاصم اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
سیّد سلمان گیلانی خود فرماتے ہیں کہ میں لکھنے میں ’’ بہت کاہل ہوں بلکہ بحر الکاہل ہوں‘‘ لیکن انہوں نے اپنے کلام کو ترتیب دینے اورہمت سےکتب تحریر کرکے اپنی کاہلی کو مات دے دی ہے بلکہ کلین بولڈ کر دیا ہے ۔ کتاب ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ سلمان گیلانی کے زندگی بھر کے مشاہدات وتجربات کا حسین مرقع ہے، کم وبیش 50 سال کے بیتے تجربات کی کہانی ہے یہ پل دو پل کا نہیں نصف صدی کا لوازمہ ہے۔ سیّد سلمان گیلانی نے بڑی سچائی ، بڑی صفائی اور بڑی مہارت سے واقعات کو خوبصورت اور دلچسپ اور پُرکشش انداز میں مزاح کا رنگ چڑھایا ہے ۔ سیّد سلمان گیلانی نے غزل ،نظم اور مزاح لکھا بھی خوب اور پڑھابھی خوب ہے۔ نعت رسول مقبولؐ میں اپنے عشق ، ذوق وشوق ، فریفتگی کے ساتھ تمام احتیاطوں کی پاسداری میں کامیاب رہے ہیں۔ نامور شاعراورنعت گومولانا ماہر القادری👧 نے کیا خوب کہا کہ نعت گوئی میں ایک طرف شریعت ہوتی ہے اور ایک طرف محبت ہوتی ہے۔ سیّد سلمان گیلانی شریعت اور محبت کے حسین امتزاج کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔انہوں نے مزح نگاری اور شاعری میں بھی عالمگیر شہرت پائی ہےاُن کا انداز بیان اورمردانہ آواز کاآہنگ اور اسلوب عامۃ الناس کو بہت پسند ہے جو سننے والوں کواپنی جانب کھینچتااورراغب کرلیتا ہے۔ ہر آنے والا دن ان کے کلام اور اسلوب بیان میں نکھار پیدا کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایمان ، صحت وخوش مزاجی کی سلامتی سے اس محاذ پر برسرِ پیکار رکھے۔(آمین)
سیّد سلمان گیلانی کی دونوں کتابوں ’’ نقوش حضوری ‘‘ اور ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی‘‘ بہت دلچسپ ہیں ، پڑھنا شروع کر لیں تو ختم کئے بغیر کتاب رکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ا نہوں نے 60؍70 سال کی محنت ، تجربہ اور مشاہدات کی تاریخ رقم کر دی ہے اور علماء و مشائخ ، شعراء ، ادباء کے تذکرے کے ساتھ ساتھ کشف وکرامات اور وظائف کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ان کا مزاحیہ شاعری کےپڑھنے کا بھی بڑا دبنگ مجاہدانہ انداز ہے ، جدیدسماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کے کلام کے ویڈیوکلپس ریکارڑ وائرل ہوئے ہیں، جو سُننے والوں کی طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیتے ہیں۔ مولانا حالی نے ایک بارمرزا غالب کی شوخی وظرافت سے متاثر ہوکر انہیں ’’ حیوان ظریف‘‘ کہا تھا ، حالی نےیادگار غالب میں لکھ دیا کہ مرزا غالب کی کوئی بات لطافت اور ظرافت سے خالی نہیں ہوتی، یہ حال حضرت سیّد سلمان گیلانی کابھی ہے ہر نشست ، ہر محفل ، ہر مشاعرہ ، ہر مجلس اُن کی پرزور ، شائستہ ، پُرکشش پُر لطافت اور ظرافت کی بحرالکاہل بن جاتی ہے۔ وہ یہ خود فرماتے ہیں کہ شعر کہنا اور پڑھنا انہیں پسند ہے شعر لکھنے کا شوق پیدا نہیں ہوتا لیکن سیّد سلمان گیلانی نے اپنی خودنوشت میں تمام کڑاکے نکال دیئے ہیں، جس سے انہوں نے اب نثر میں بھی اپنے مداح پیدا کر لئے ہیں ، اللہ تعالیٰ اس میدان میں بھی معنویت اور نکھار بخشے، کوہاٹ میں جب آپ ابراہیم پراچہ کی دعوت پر کلام سُنانے کے لئے گئے ، اگر خدانخواستہ پنجاب سے مسیلمہ کذاب کے پیروکار اپنا کام مکمل کر لیتے تو حضرت تو شہادت پا جاتے، لیکن سیّد سلمان گیلانی کا طنطنہ ، دبدبہ، ولولہ(ولُولہ) تو رخصت ہو جاتا، لیکن کہتے ہیں موت خودزیست کی حفاظت کرتی ہے ، اللہ نے انہیں محفوظ رکھا اور اللہ تعالیٰ انہیں تادیرسلامت رکھے۔(آمین)
سیّد سلمان گیلانی کی تحریر کی ہر سطر اور ہر فقرے میں مزاح اور دلچسپی کاخوب سامان ہے۔ ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی ‘‘ کے باب میں’’میراپہلا مشاعرہ میں‘‘ اپنے والد گرامی سیّد امین گیلانی👧 کے حوالہ سے لکھتے ہیں ’’ والد صاحب شاعر تھے سیاسی ورکر تھے، مذہبی حلقوں میں بااثر تھے ، خوش اخلاق تھے ، اِسی طرح ہر کریکٹر کے لوگ ایلیٹ کلاس سے لیکر لوئر کلاس کے بلاتفریق رنگ ونسل خطباء ، ادباء ، شعراء ، وکلاء ، تجّار حتی کہ چھٹےہوئے بدمعاش بھی ان کے حلقہ اثر میں تھے۔ شہر کا ایک نامی گرامی پہلوان،سینڈوپہلوان جو اکھاڑوں میں کُشتیاں لڑتا تھا اور بیرون شہربھی کشتیوں کے مقابلوں میں جاتا تھا ،ان کا بڑا فین مداح اور خدمت گزار تھا والد صاحب کے پاس سارا سارا دن بیٹھتا، باہر کے کام وہی کرتا ، سودا سلف لادیتا، حقہ تیار کرتا وغیرہ وغیرہ۔ اِسی اثناء میں ہم مابدولت اس دنیا کہ حُسن وجمال میں اضافہ کرنے جناب سیّد امین گیلانی کی سادات سرائے میں پہلی پلوٹھی کی اولاد بن کر تشریف لے آئے کیونکہ ہم چندے آفتاب چندے ماہتاب تھے، اس لئے ماں کی گود سے زیادہ باپ کے دوستوں اور محلے کی باجیوں کے آغوش کی زینت بنتے۔یہاں بھی انہوں نے کمال مہارت سے دُنیا میں آمد کی تاریخ نہیں بتائی البتہ باجیوں کی گود میں ٹہلنے کی تپش آج بھی محسوس کر رہے ہیں۔
سیّد سلمان گیلانی نے اپنی کتاب میں مکتبہ احباب شیخوپورہ کے تین واقعات میں بھی خوب تاریخ بیان کر دی ہے جو دلچسپ بھی ہے اور فرد کی تربیت کے لئے بھی اس میں بہت سامان ہے۔ دکان کے باہر کرسیاں ، اسٹول اور حقہ کشی میں حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری👧 کی عظمت وعزیمت کا احوال اسی اثناء میں ایک عام فرد کی آمد اور بچے کا اسٹول پر بیٹھے کتے کو دیکھ کر پتھر مارنا خوب واقعہ ہے اور عقیدہ توحید کو پختہ کرتاہے، مولانا محمد علی جالندھری👧 کی دکان پر آمد جو تحریک تحفظ ختم نبوت کے عظیم مجاہد تھے ، سائیکل پر آنا اور تحکماً سیّد امین گیلانی 👧 کو بلانے کا حکم دینااورسیّد سلمان گیلانی کو والد گرامی سے تھپڑ تحفتاً ملنا اوراسی طرح چوہدری عبدالغنی ایڈووکیٹ کی دکان پر آمد، یتیم بچے کا کتابوں کی خریداری لیکن پیسے نہ ہونے کی فریاد، اس مرحلہ میں اشیاء اور اشیاء کی کٹوتی اور نقدونقد قدرت کا فیصلہ بھی بہت خوب واقعہ بیان کیا ہے۔اس اعتبار سے یہ تینوں واقعات دلچسپی ، ذہن وعمل سازی کے لئے معاون ہیں۔ ’’ مولانا فضل الرحمن اور اسرائیل‘‘ میں بھی بڑی عمدگی سے مولانا فضل الرحمن صاحب کا نیویارک، اقوام متحدہ میں خطاب اور سفارت خانے ، خارجہ پالیسی کی غلامانہ ذہنیت کی نشاندہی ، اس حوالہ سے بھی سیّد سلمان گیلانی نے اپنی ’’دیوبندیت‘‘ اور حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے محبت کا خوب اظہار کیا ہے۔
سیّد سلمان گیلانی نے اپنی کتاب ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی ‘‘ میں تاریخ اور واقعات کو بڑے سلیقے ، شائستگی اور محبت سے تحریر کی زبان دی ہے۔ اور ہر واقعہ میں ’’ مسلکی بالادستی قائم رکھنے کا راستہ تلاش کر لیا ہے‘‘ آخر میں ایک واقعہ سنایا کہ حضرت(مولانا حسین احمد مدنی👧) ٹرین میں محوِ سفر تھے کہ کوئی شیعہ بھائی کسی چھوٹے اسٹیشن سے بھاگ کر چلتی گاڑی میں سوار ہوا اور گرتے گرتے بچا ،ساتھ ہی اُس کی نظر شیخ مدنی 👧 کے چہرے پر پڑی، انہیں بزعمِ خویش چڑانے کے لئے بولا مولانا مرتےمرتے بچا ہوں بس مولا علی نے بچا لیا ، حضرت مسکرائے اور فرمایا بیٹا علی نے بچالیا یا عمر نے وفا کی؟ وہ شیعہ بھائی عمرؓ کا نام سُن کر ٹرین کا ڈبہ ہی تبدیل کر بیٹھاٗ۔” اسی طرح اپنی کتاب کے آخری باب کے بالکل آخر میں اختتام تحریر اس طرح کرتے ہیں ’’ جب حضرت پیرمہر علی شاہ گولڑوی کا وصال مبارک ہوا ، شاہ جی نے حضرت رائے پوری👧 کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ حضرت رائے پورے کے واقعات سُناتے ہوئے ایک مرتبہ امیر شریعت 👧 نے مجھے بتایا کہ حضرت رائے پوری 👧 نے فرمایاتھا شاہ جی غیر محرم عورت پر نگاہ نہ پڑجائے، شاہ جی کہتے ہیں اس کے بعد اتنا محتاط ہوں کہ کسی خاتون کی طرف نگاہ اٹھا کر کبھی نہیں دیکھا، حتی کہ میری حقیقی ہمشیرہ جب ملتی ہےتو اس طرف بھی نگاہ نہیں اٹھتی، اب اس کے متعلق کوئی مجھ سے پوچھے تو میں اُس کی شکل وصورت نہیں بتا سکوں کا۔ ماشاء اللہ ! سیّد سلمان گیلانی مشاعروں میں بھی صنفِ نازک پر نگاہ نہیں ڈالتےاور وہ باجیاں جن کی آغوش میں وہ ولادت کے بعد کھیلتے رہے ہیں، آج بھی انہیں ان کی شکل وصورت کا کوئی اندازہ نہیں ہو گا۔ سیّد سلمان گیلانی کے کالموں کامجموعا شائع ہوئے ہیں، بہت عمدہ طرز تحریر، آسان سہل اور عام فہم واقعات کا بیان ہے۔ فقروں کی بناوٹ بھی خوب ہے اور ادبی جاشنی اوّل وآخر قائم رہتی ہے ۔پوری تاریخ، اور جو اُن پر بیتی ،جو نظارہ کیا اور جو جو بھگتا اُس حوالے سے سیاسی ومذہبی تحریکوں کے چھپے اور گم شدہ ’’لاپتہ‘‘ گوشے پھر سے اجاگر کردیئے ہیں ، اکابرین کے دلچسپ سبق آموز اور حیران کن واقعات وحالات نئی نسل کی طرف بہت خوبی سے منتقل کردیے ہیں یہ کتاب ’’ میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی ‘‘ یقینا مجاہدینِ ختم نبوت اور غلبہ دین کی جدوجہد کرنےوالوں کے لئے راہ نما کی حیثیت اختیار کرے گی۔
جناب سیّد سلمان گیلانی کی دونوں کتابیں ’’ نقوش حضوری‘‘ (حرمین کے اسفار)اور ’’ میری باتیں ہیں بہت یاد رکھنے کی ‘‘ (خود نوشت) دلچسپ، تاریخی تحریروں پر مبنی ہیں ، واقعات قطار اندر قطار چلے آتے ہیں، ہر تحریر کا لطف پڑھنے سے ہی محسوس ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سیّد سلمان گیلانی کو،بہترین ایمان صحت وسلامتی کے ساتھ، اس محاذ پرعامۃ الناس کے لئے مزاح کا عروج، دلوں کے تار چھیڑنے اور لوگوں میں موجود خیر کو اصلاح وانقلاب کی طرف موڑنے کا ذریعہ بنائے رکھے (آمین)