مشرق وسطی کے امور پہ نگاہ رکھنے والے کسی بھی ماہر نے یہ کبھی سوچا تک نہیں ہوگا کہ سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پہ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل جو جنگ شروع کرے گا وہ ایک سال گزر جانے کے بعد بھی جاری رہے گی۔
جب غزہ پہ اسرائیل کی بے مثال بمباری شروع ہوئی تو کوئی سوچ تک نہیں سکتا تھا کہ حماس اور دیگر مزاحتمی تنظیمیں ایک سال تک غزہ میں اپنا وجود محفوظ رکھ سکیں گی۔
کسی کو بھی یہ خیال تک نہیں تھا کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل اس قدر طویل جنگ کا شکار ہوجائے گا ایسی کوئی جنگ آج تک اسرائیل نے نہیں لڑی جو سال تک محیط ہو حتیٰ کہ 1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت بھی ایسا نہیں ہوا۔
اسرائیل نے آج تک جو جنگیں لڑیں وہ ہمیشہ مختصر وقت میں طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے جیتنے کے نقطہ نظر سے لڑی گئیں اور اسرائیل ان جنگوں میں سے اکثر میں جیتنے میں کامیاب بھی ہوا۔
جیسی جنگ غزہ میں چل رہی ہے ایسی کسی جنگ کے لئے اسرائیل کبھی تیار بھی نہیں تھا۔
اسرائیل نے غزہ کو انسانوں کے رہنے لائق نہیں چھوڑا۔ 70 فیصد سے زائد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ اب اسرائیلی فوج لبنان میں بیروت اور طائر شہر کو بھی غزہ میں تبدیل کررہی ہے۔
دنیا کے طاقتور ممالک میں سے کوئی ایسا نہیں جو آگے بڑھ کے اسرائیل کے ان ظالمانہ اقدامات کو روکے۔
غزہ کی خیمہ بستیوں میں رہنے والے متاثرین میں سے بیالیس ہزار ایسے ہیں جو اب تک اسرائیلی بمباری کے سبب مارے جا چکے ہیں جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اسرائیلی محاصرے کے سبب بھوک کے ہاتھوں موت کا شکار ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جہاں نت نئی بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اب دوسری سردیاں خیموں میں گزاریں گے۔یہ وہ لوگ ہیں جو اب ایک سال سے زائد عرصہ ہونے کو آیا ہر روز بمباری سہہ رہے ہیں مگر یہ نہ تو غزہ سے بھاگ رہے ہیں اور نہ ہی اسرائیلی مظالم کے سامنے اپنے حق خود ارادیت پہ کوئی سمجھوتہ کررہے ہیں۔
فلسطنیوں کی موجودہ نسل نے جس سطح پہ اسرائیلی مظالم کا سامنا کیا ہے اس کی فلسطینی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ تاہم کوئی بھی کشتیوں پہ سوار ہوکر غزہ سے جانے کا سوچ تک نہیں رہا۔
اس جنگ کے آغاز سے ہی اس جنگ کے دونوں کمانڈروں نے اپنی اپنی جنگی حکمت عملی واضح کر دی تھی ۔ میری مراد حماس کے یحییٰ سنوار ، اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو ہیں۔
نیتن یاہو نے اس جنگ کے آغاز پہ اپنے چار مقاصد واضح کئے تھے۔
تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی باحفاظت واپسی،
غزہ میں فلسطینی مزاحمت کا مکمل خاتمہ ،
ایران کے نیو کلیئر پروگرا م کا خاتمہ ،
اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں نئی ایسی تبدیلیاں لانا جن کے بعد اسرائیلی طاقت کو کوئی چیلنج نہ کرسکے ۔
لیکن جلد ہی یرغمالیوں کے خاندانوں، اسرائیل کی اپنی مذاکراتی ٹیم ، حماس اور امریکہ پہ واضح ہوگیا کہ نیتن یاہو یرغمالیوں کی رہائی میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ حماس کو جڑ سے ختم کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔
غزہ پہ آج بھی حماس کا ہی کنٹرول ہے۔ اگرچہ حماس کو بطور حکومت غزہ سے ختم کرنے کی دو کوششیں کی جا چکی ہیں۔ جونہی اسرائیلی افواج غزہ کے ایک کونے سے اپنا فوجی مشن مکمل کرکے آگے بڑھتی ہیں حماس وہاں پھر سے قدم جما لیتی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کے جاتے ہی حماس کے ریاستی اہلکار واپس اپنی اپنی ذمہ داریوں پہ آجاتے ہیں اور خوراک کی تقسیم ، مریضوں کی دیکھ بھال اور حماس سے منسلک دیگر شہری خدمات کا شعبہ پھر سے سر اٹھانے لگتا ہے۔
اسرائیلی فوج مسلسل یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حماس کمزور ہوگئی ہے تاہم کل بھی حماس نے غزہ کے خان یونس شہر سے اسرائیلی دارلحکومت تل ابیب پہ راکٹ داغے ہیں۔ خان یونس وہ شہر ہے جہاں پچھلے ایک سال کے دوران اسرائیلی افواج نے دو مرتبہ مکمل قبضہ کرکے اپنی فوجی جیت کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے جرنیل یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مزاحمت کے لیڈران کا قتل کرکے مزاحمتی تحریک کو ختم کر سکتے ہیں۔ حزب اللہ کی تقریبا تمام مرکزی قیادت کو اسرائیل کے خفیہ اور اعلانیہ حملوں میں ختم کردیا گیا ہے۔ پہلے پہل حزب اللہ کے جنگجوؤں کے پاس موجود پیجرز پراسرار حالات میں تباہ ہوئے اور اس کے نتیجے میں حزب اللہ کے درجنوں اہلکار مارے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔پھر واکی ٹاکیز حملہ ، پھر حزب اللہ کے سیرٹری جنرل حسن نصراللہ ، جنوبی بیروت پہ ہوئی وحشیانہ بمباری میں چودہ منزل نیچے واقع تہہ خانے میں مارے گئے۔ اسرائیل نے حسن نصراللہ کو مارنے کے لئے مجموعی طور پر 81 ہزار کلوگرام وزن کا بارود استعمال کیا ۔ پھر حسن نصر اللہ کے نائب کو اس وقت مار دیا گیا جب ابھی تک انہوں نے عملاََ اپنا عہدہ سنبھالا تک نہیں تھا۔
مگر دیکھئے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کیسے لڑ رہی ہے۔ایسا نہیں لگتا کہ ان کی جنگی صلاحیتیں کمزور ہوئی ہوں یا ختم کر دی گئی ہوں۔ کسی کو شک ہو تو اسرائیلی کی ایلیٹ فوجی یونٹ گولانی بریگیڈ سے پوچھئے جن کے درجنوں اہلکار لبنان میں داخل ہونے کی پہلی کوشش ہی میں مارے گئے یا زخمی ہوئے۔
کسی بھی مزاحمتی تحریک کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ بہت مختصر مدت کی کامیابی شمار ہوتی ہے کیونکہ مزاحمتی تحریکوں میں قتل ہونے والے رہنما کی جگہ کوئی دوسرا لے لیتا ہے۔ اور رہنماؤں کی ہلاکتوں سے ایسی تنظیمیں اور مضبوط ہوتی ہیں کیونکہ زمین پر لڑنے والے جنگجو بدلے کی آگ میں بھی جل رہے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی تشدد کی سیاست کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔
نیتن یاہو کا تیسرا مقصد ایرانی نیوکلئر پروگرام کا خاتمہ ، اور خطے میں ایرانی فوجی طاقت کو کمزور کرنا تھا۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ فلسطین کی تحریک آزادی کا ایرانی ریاست کا رشتہ کوئی بہت زیادہ پرانا یا تاریخی نہیں ہے۔ ایران نے فلسطینی کاز کی حمایت 1979 کے خمینی انقلاب کے بعد شروع کی ۔
فلسطین کی مزاحمتی تحریک ایک سو سال سے زیادہ پرانی ہے اور یہ ہمیشہ سے ہی فلسطینیوں کی اپنی مقامی قیادت کے ہاتھوں میں رہی ہے۔
اسرائیل کی ریاست کو حقیقی خطرہ شائد ایران سے نہ ہو اسے حقیقی خطرہ نوجوان فلسطینی نسل سے ہے جو جنین، ہیبرون اور المواصی ریفیوجی کیمپوں میں پل کر جوان ہوئی ہے۔اسرائیل کو خطرہ ہے مغربی کنارے کے ان فلسطینی نوجوانوں سے جو خود ہی چاقو یا پستول لے کر اسرائیلی چوکیوں پہ حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ یہ فلسطینی عرب صرف غزہ یا مغربی کنارے میں ہی موجود نہیں جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کو اپنا آخری حل سمجھتے ہیں پرسوں جس فلسطینی عرب لڑکوں نے یافا شہر میں دس اسرائیلیوں کو قتل اور دیگر کو زخمی کیا تھا وہ اسرائیل ہی میں پیدا ہونے والے فلسطینی عرب تھے ۔ یہ تمام کاروائیاں ان فلسطینیوں کے انفرادی اقدامات تھے جنہیں یہ لگا کہ اسرائیلی قبضے کا واحد حل اسرائیلی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد ہے۔ ان میں سے کسی نے بھی ایران سے مشورہ، تربیت یا ہتھیار نہیں لئے تھے۔
نیتن یاہو کا چوتھا مقصد تھا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کا یوں بدل دینا کہ اسرائیل خطے میں واحد طاقت بن کر ابھر سکے۔
اگرچہ اب اسرائیلی اہلکاروں کا پسندیدہ مشغلہ صحافیوں یہ بتانا ہے کیسے خطے کے وہ عرب رہنما جنہیں اسرائیل ماڈریٹ کہتا ہے ، اپنی نجی محفلوں میں اسرائیل سے دوستی اور تعلقات کو اپنی ترجیح بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں اٹلانٹنک نیوز نے ایک خبر دی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی وزیر خارجہ کو یہ کہا ہے کہ ذاتی طور پر مجھے فلسطینیوں کی کوئی پروا نہیں ہے لیکن میرے ملک کے لوگوں کو فلسطین کی پروا ہے۔ اب سعودی عرب کا موقف بہت واضح ہے انہوں نے پچھلے ہفتے اپنی پایسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی جس کا دارلحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔
آئیے اب حماس کے رہنما یحیٰ سنوار کے جنگی مقاصد کا جائزہ لیتے ہیں جو سات اکتوبر کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کی وجہ بنے تھے۔ دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے مقاصد میں کامیاب ہوئے ہیں یا ناکام ہوئے ہیں۔
سات اکتوبر حملے سے پہلے یحیٰ سنوار کے دو اسٹرٹیجک مقاصد واضح تھے ۔ سات اکتوبر حملے سے پہلےاپنی ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضہ مشکل بنانا ہوگا۔ یعنی اسرائیل کو اس قبضہ کی اتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے کہ وہ اس حقیقت کو بدلنے پر مجبور ہوجائے۔ انہوں نےکہا کہ ہم فلسطینیوں کو اب اسرائیل کے سامنے ایک واضح چوائس رکھنا ہوگی یا تو وہ فلسطینی علاقوں سے نکل جائےیا ہم اسے خطے کے ممالک میں اور عالمی سطح پہ مکمل تنہا کردیں ۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ واقعی حماس نے اسرائیل کے لئے فلسطینی علاقوں پر قبضہ جمائے رکھنا ایک مہنگے سودے میں بدل دیاہے۔ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے اب تک ایک ہزار چھے سو پینسٹھ اسرائیلی مارے جا چکے ہیں۔ان میں سے 707 اسرائیلی فوجی ہیں۔ 18 ہزار کے لگ بھگ اسرائیلی فوجی اور شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی معیشت اب تباہی کا شکار ہے۔بہت اسرائیلی شہری اپنے سرمائے سمیت ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔صرف اس سال کے مئی تا جولائی کے مہینے میں اسرائیل بینکوں سے دو بلین ڈالر بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔
سب سے بڑا نشانہ جو حماس نے اسرائیل کو لگایا ہے وہ نفسیاتی جھٹکا ہے۔ ایک سال پہلے حماس کے حملے نے اسرائیل کے شمال کی فوجی کمان کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ آٹھ گھنٹوں تک شمالی اسرائیل کے بیشتر فوجی اڈے اور شہری علاقے حماس کے کنٹرول میں تھے۔اسرائیل آج تک اس کیفیت کو سمجھ ہی نہیں پایا کہ آخر یہ کیسے ہوگیا ؟
سات اکتوبر کے حملے نے اسرائیلی شہریوں کے دلوں سے یہ یقین مٹا دیا کہ ہم اسرائیل میں رہتے ہوئے مزاحمتی تنظیموں کے حملوں سے محفوظ ہیں۔
اس جنگ کے آغاز سے اب تک ایک لاکھ 43 ہزار اسرائیلی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ایک ہزار قصبے اور دیہات خالی ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران 15 ہزار مرتبہ اسرائیلی شہریوں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے حفاظتی بنکروں میں پناہ لینا پڑی ہے۔غیر یقینی اور اچانک حملے اب اسرائیلی شہریوں کی زندگیوں کا روزمرہ حصہ بن چکے ہیں۔
حماس کے حملے کا سب سے بڑا نتیجہ خود فلسطینی تحریک آزادی میں پھر سے جنم لینے والا وہ جذبہ ہے جو سات اکتوبر سے پہلے دھندلا گیا تھا ۔
اوسلو معاہدے کو تیس سال ہوچکے ، غزہ پہ اسرائیلی محاصرے کو بیس سال ہوچکے تھے۔ کسی کو کوئی پروا تک نہیں تھی کہ غزہ کے فلسطینی کس حال میں رہ رہے ہیں۔
ستمبر 2023 میں یو این اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ پیش کیا تھا جس میں مغربی کنارہ اور غزہ جیسے فلسطینی علاقوں کا وجود تک موجود نہیں تھا۔ اس وقت سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ بہت جلد سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلے گا۔ فلسطینی علاقوں سے متعلق کوئی گفتگو ہوئے بغیر اسرائیلی حکومت فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی قبضے کو بڑھائے چلی جارہی تھی اور کسی کے لئے بھی یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن اب سات اکتوبر کے حملے کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی قبضے کے مسلح جدوجہد اپنی تاریخ کے عروج پر ہے۔
اگر اوسلو معاہدے نے اپنے وعدے کے مطابق پانچ سال میں فلسطینی ریاست قائم کر دی ہوتی تو شائد حماس جیسی کوئی تنظیم کبھی جنم تک نہ لیتی۔ اوسلو معاہدے نے نا صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو دھوکہ دیا بلکہ ایسا ماحول پیدا کیا جس کے نتیجے میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی غیر قانونی بستیاں دن بہ دن بڑھتی چلی گئیں۔
اپنی سرزمین پہ یورپی نسل کے انتہا پسند یہودیوں کے بڑھتے ہوئے مکانات اور ان کی حفاظت کی خاطر بڑھتی ہوئی اسرائیلی فوجی موجودگی اور چوکیاں ، یہ وہ واحد وجہ ہے جس نے نوجوان فلسطینیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے کاروبار بیچ کر ہتھیار خریدیں اور اس اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کریں ۔
اگر خطے میں اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے سفارتی تعلقات کی بات کی جائے تو سات اکتوبر حملے نے نام نہاد ابراہیم اکارڈ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ نیتن یاہو کہا کرتے تھے کہ اب فلسطینیوں کے پاس وہ ویٹو نہیں ہے جس کے سبب وہ عرب شاہی ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ نارمل تعلقات سے دور رکھ سکتے تھے ۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو فلسطینیوں کے پاس موجود ویٹو اب جس قدر طاقت ور ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔
عالمی سطح پہ مسئلہ فلسطین اس وقت انسانی بنیادوں پر سب سے بڑے تنازعے کے طور پر ڈسکس ہورہا ہے۔ عالمی انصاف کا مکمل دارومدار فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور آزادی سے مشروط ہوچکا ہے۔عالمی عدالت انصاف ہیگ ہو یا انٹرنیشنل کرمنل کورٹ، ہر طرف فلسطین پہ بات ہورہی ہے۔ یورپ اور امریکہ نے اپنی تاریخ میں اس سے پہلے اس قدر بڑے مظاہرے نہیں دیکھے جو اب فلسطین کی حمایت میں یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔
یحیٰ سنوار کی دو اسٹرٹیجز، اور فلسطینی کاز، اس وقت جس قوت سے دنیا کے سامنے آئے ہیں ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھاگیا۔
ہوسکتا ہے کہ نیتن یاہو اور اس کے جرنیل جنوبی لبنان اور غزہ پہ فوجی قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور مغربی کنارے کی بڑی زمین پر ناجائز یہودی بستیاں بنانے کی رفتار بھی تیز کردیں لیکن وہ اس منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گےکہ ہم ان علاقوں میں امن لے آئیں گے جن پر وہ بندوق کے زور پر قابض ہوئے ہیں ۔ نیتن یاہو سے پہلے ایک ایریل شیرون ہوا کرتا تھا جس نے حماس کی مزاحمت کے سامنے دوہزار پانچ میں غزہ خالی کیا تھا اور ایک ایہودباراک ہوتا تھا جس نے حزب اللہ کی مزاحمت سے تنگ آکر سن دوہزار میں جنوبی لبنان خالی کیا تھا ۔
اسرائیل عالمی سطح پہ آج سے پہلے کبھی اس قدر اکیلا نہیں تھا ۔ اس جنگ نے اسرائیل اور امریکہ دونوں کے چہروں پر پڑے نقاب کو ہٹا دیا ہے۔ اب اسرائیل وکٹم کارڈ نہیں کھیل سکتا ، بلکہ اب دنیا اسرائیل کو ایک وحشی کولونیل طاقت کے طور پر دیکھتی ہے جس کے ہاتھ ہزاروں بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
نیتن یاہو کی جنگ کو ایک سال پورا ہوچکا ہے ، یحییٰ سنوار کی جنگ ابھی شروع ہوئی ہے۔
یہ جنگ کیسے ختم ہوگی اس سوال کا جواب فلسطینیوں کی مزاحمت میں چھپا ہے ۔ اب تک ہم نے فلسطینیوں کی مزاحمت سے یہ سیکھا ہے کہ وہ نہ ڈرے ہیں اور نہ جھکے ہیں اور اگر یہی سچ ہے تو سمجھ لیجئے کہ فلسطین کی آزادی کی جنگ ابھی شروع ہی ہوئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی شکل ضرور بدل گئی ہے مگر یہ امریکہ یا اسرائیل کے حق میں نہیں بلکہ کسی اور کے حق میں جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
Load/Hide Comments