مرزا غالب نے کوئی دو صدی پہلے یہ شعر کہا تھا
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو
یوں لگا کہ انہوں نے ہماری آج کی دلخراش قومی صحت کا حال بڑی شائستگی اور ملائمت سے بیان کر دیا ہے۔ یہ شاعر بھی عجیب و غریب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی قوتِ متخیلہ ایک لمحے میں صدیوں کا سفر طے کر کے سچائیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی جو رئیس المتغزلین کہلاتے تھے، وہ سیاست میں بھی بہت سرگرم تھے۔ انہوں نے کئی بار جیل کی صعوبتیں بھی جھیلیں اور بیساختہ ایک شعر نوکِ قلم پر وارد ہوا ہے۔
مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اِک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
انہوں نے نہرو رِپورٹ کی اِس بنا پر پوری قوت سے مخالفت کی تھی کہ اس میں مکمل آزادی کے بجائے نوآبادیاتی بندوبست کی سفارش کی گئی تھی۔میں نے سوچا کہ ڈپریشن کی شکار اپنی قوم کو اچھے اشعار سنا کر اس میں کچھ شگفتگی، کچھ جوشِ عمل پیدا کیا جائے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز لگائی جائے۔ مرزا غالب کے شعر میں بلا کی لطافت ہے اور سوچنے کی دعوت بھی ہے۔ ہم ایک دوسرے سے روٹھے رہتے بلکہ دشمنی پر اتر آتے ہیں، کیونکہ ہماری انائیں ایک دوسرے سے ہم کلامی کی اجازت نہیں دیتیں۔ اب تو جانوروں کی طرح غرانے اور چیرنے پھاڑنے کی نوبت آ گئی ہے۔ سماجی رویوں کے تجزیہ کار اِس کیفیت کو بدترین معاشرتی زوال سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ خبر دیتے ہیں کہ اِس کیفیت میں تہذیبیں فنا ہو کر عبرت کا نشان بنتی رہی ہیں۔
ہمارے لیے یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ تاریخ میں تہذیبوں کے مٹ جانے کی بہت ساری مثالیں محفوظ ہیں، مگر ہمارے اربابِ اختیار ان سے سبق کیوں حاصل نہیں کرتے۔ ذرا گہرائی میں جانے سے اندازہ ہوا کہ ہماری زندگی سے تاریخ کا مطالعہ تقریبا خارج ہو چکا ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تاریخ برائے نام پڑھائی جاتی ہے۔ ہماری نئی نسل کی اشرافیہ تاریخ کے مطالعے کو وقت کا ضیاع قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے ماضی سے چھٹکارا پانا لازمی ہے۔ اِس کے برعکس یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کر دیتی ہیں، ان کا جغرافیہ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ ہم اِس المناک تجربے سے گزر چکے ہیں۔
ہمیں آزادی کے صرف 24 سال بعد ہی سقوطِ ڈھاکہ کی بڑی اذیت سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ یہ روح فرسا سانحہ اِس لیے پیش آیا تھا کہ سیاسی مذاکرات کے دروازے بند ہو گئے تھے۔ رواداری اور مفاہمت کے بجائے طاقت کے بیمحابا استعمال کو مسئلے کا واحد حل سمجھ لیا گیا تھا۔ دشمن اِس موقع کی تلاش میں تھے، چنانچہ انہوں نے پاکستان کے اندر بڑھتی ہوئی منافرت کو مزید ہوا دِی اور دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اِس دوران بھارت کی جارحیت کامیاب رہی جسے اس وقت سوویت یونین کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ بدقسمتی سے ہم اپنی عیاشیوں اور خرمستیوں میں وہ حادثہ ہی بھلا بیٹھے ہیں اور وہی غلطیاں کیے جا رہے ہیں جن سے دنیا کی عظیم الشان اسلامی ریاست دولخت ہوئی تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے واقعات اور آج کے حالات میں دو تین باتیں مشترک دکھائی دیتی ہیں۔ اس وقت بھی مقتدر طاقتوں کی یہ کوشش رہی کہ سیاسی جماعتیں قومی سطح پر مضبوط نہ ہونے پائیں، بدقسمتی سے آج بھی یہی عمل جاری ہے۔ اِس میں یہ تکلیف دہ اِضافہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں ہو کر اپنی طاقت اور اہمیت کھوتی جا رہی ہیں اور غیرسیاسی طاقتوں کو فیصلہ سازی میں مختارِ کل کی حیثیت دے رہی ہیں۔ 1970کے انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے سیاسی طور پر علیحدہ ہو چکے ہیں۔ عوامی لیگ جس نے مشرقی پاکستان میں تمام قومی نشستیں جیت لی تھیں لیکن اسے مغربی پاکستان سے ایک بھی نشست نہیں ملی تھی۔ اِسی طرح پیپلزپارٹی جسے مغربی پاکستان میں زبردست انتخابی کامیابی ملی تھی، اسے مشرقی پاکستان میں ایک بھی نشست نہیں مل سکی تھی۔ اِس کے بعد اِن دونوں سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے سیاسی مفاہمت اور مذاکرات کا سنجیدگی سے راستہ اختیار ہی نہیں کیا جبکہ فوجی حکمرانوں نے فوجی آپریشن کے ذریعے عوامی لیگ کی سیاسی طاقت ختم کرنے کا خطرناک فیصلہ کیا جو سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوا۔
دوسری مماثلت یہ نظر آتی ہے کہ دونوں بازووں میں دو سیاست دان عوامی مقبولیت کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ شیخ مجیب الرحمن شعلہ بیان مقرر تھے جنہوں نے بنگلہ قومیت کا نعرہ لگایا جو آخرکار پاکستانی قومیت کی تباہی کا باعث بنا۔ اِسی طرح جناب بھٹو بھی خطابت میں غیرمعمولی صلاحیت کے حامل تھے۔ انہوں نے غریبوں اور مزدوروں کی حمایت اور سرمایہ داروں کے خلاف نعرہ بازی سے معاشرے کو سیاسی طور پر تقسیم کر دیا تھا۔ ان دونوں سیاسی رہنماوں نے عوام کے جذبات میں ایک ایسی آگ لگا دی تھی کہ وہ کوئی اور بات سننے اور عقل و ہوش سے کام لینے کے لیے بالکل آمادہ نہیں تھے۔
بلاشبہ ہمارے معاشی حالات پہلے کے مقابلے میں کسی قدر بہتر معلوم ہوتے ہیں، مگر حکومت عوام کی یلغار سے بہت خوفزدہ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ تر فیصلے غیرسیاسی سوچ کے تحت کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی لگانے کے اعلانات اور اقدامات، طاقت کے بیمحابہ استعمال کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔ معاشرے میں بگاڑ بہت پھیل چکا ہے جس پر حکمتِ عملی اور کشادہ دِلی سے ہی قابو پایا جا سکتا ہے، مگر حکومت کی طرف سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان میں سیاسی بصیرت کا بڑا فقدان ہے۔ آئینی ترامیم کے سلسلے میں جو روش اختیار کی گئی، وہ بڑی بچگانہ تھی۔ اِس وقت سب سے بڑی ضرورت اداروں کو داخلی انتشار اور باہمی ٹکراو سے بچانا، قانون کی حکمرانی قائم کرنا اور عوام کی زندگی کو آسان بنانا ہے۔تبھی ناانصافی سے ستائے ہوئے لوگ اِنتشارپسندوں کے پھیلائے ہوئے جال سے باہر آ سکیں گے۔ اِس مقصد کے لیے ہمیں اپنی خو اور اپنی وضع بدلنا ہو گی اور سیاسی دانش اور بصیرت سے کام لینا ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ