اسلام آباد(صباح نیوز)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات کوبتایاگیاہے کہ پی اوایس فیس کی مدمیں مجموعی طور پر 64 کروڑ 73 لاکھ 19 ہزار 302 روپے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 30 کروڑ 93 لاکھ 37 ہزار روپے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے گئے، ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے کمیٹی کوبتایاگیا کہ آئندہ تین برسوں میں پاکستان کو سالانہ 2 ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائیگی جس میں سے 2 اعشاریہ 8 ارب ڈالرز کی امداد نرم شرائط پر ہوگی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں بینکنگ کمپنیز(ترمیمی) بل 2024 کو بعض ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا۔ اجلاس کے ایجنڈا میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) سے متعلق معاملات پر بھی گفتگو ہوئی۔ سینیٹر منظور احمد کی عدم موجودگی کے باعث ان کے زیر بحث معاملے کو موخر کیا گیا۔اجلاس میں پاکستان اور ایران کے درمیان نقل و حمل اور کاروباری سرگرمیوں پر 10 فیصدلیوی کے نفاذ سے متعلق معاملہ کاجائزہ لیاگیا۔اجلاس کوبتایاگیا کہ کوئٹہ سے ایران سامان لے جانے والی پاکستانی گاڑیوں سے ایرانی حکام کرائے کا 10 فیصد اضافی وصول کررہے ہیں ، اس کے برعکس کوئٹہ سے ایران سامان لے جانے والی ایرانی گاڑیوں پر کوئی ایسا چارجز عائد نہیں کیا جاتا۔ یہ عمل باہمی احترام کے اصولوں کے منافی ہے ۔ایف بی آرکی جانب سے کمیٹی بتایاگیا کہ اس معاملہ کو وزارت مواصلات کے نوٹس میں لایا گیا ہے جو سامان کی دو طرفہ نقل و حمل کے معاہدے پر عمل درآمد کی ذمہ دار ہے۔کمیٹی نے سفارش کی کہ وزارت مواصلات وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر اس معاملے کو ایرانی حکام کے ساتھ اٹھائے۔ سینیٹر منظور احمد کی درخواست پر اس معاملے کی بحث موخر کر دی گئی۔
سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے جولائی 2024 تک پوائنٹ آف سیل خدمات کی رسید پر عائد کیے جانے والے 1 روپے فیس کی وصولی اور اس کے استعمال سے متعلق سوال پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ سابق وزیر خزانہ نے اس ریونیو کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دی تھی، جن میں انعامی سکیم، تکنیکی ٹیموں کی صلاحیت میں اضافہ، میڈیا مہمات اور انکم ٹیکس کے افسران کی فلاح و بہبود شامل ہے۔کمیٹی کوبتایاگیا کہ پی اوایس فیس کی مدمیں مجموعی طور پر 64 کروڑ 73 لاکھ 19 ہزار 302 روپے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 30 کروڑ 93 لاکھ 37 ہزار روپے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے گئے۔اجلاس میں صوبوں کی جانب سے برآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں بتایاگیاکہ کہ آئین کے تحت صوبوں کو انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے نفاذ کا اختیار حاصل ہے، جو درآمدات اور برآمدات کی نقل و حمل پر عائد ہوتا ہے تاہم برآمدات کو فروغ دینے اور زرمبادلہ کی روانی میں سہولت کے پیش نظر عموما ایسی ڈیوٹیز اور ٹیکس عائد نہیں کیے جاتے۔
اجلاس کوبتایاگیا کہ خیبرپختونخوا ممکنہ طور پر 2 فیصد انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے نفاذ سے متاثر ہو سکتا ہے۔اجلاس کوبتایاگیا کہ پاکستان کسٹمز اس وقت یہ سیس وصول نہیں کر رہا بلکہ صوبائی حکومت کی جانب سے بینکوں کے ذریعے یہ وصول کیا جا رہا ہے۔اجلاس میں اس معاملے کے حل کے لیے وزارت خزانہ کو کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی گئی۔اجلاس میں اسلامی فنانس کے تحت فیصل بینک لمیٹڈ کی جانب سے 6 کروڑ 3 لاکھ 24 ہزار 842 روپے کی غیر قانونی وصولی کے مطالبہ پر بھی غور کیا گیا، جو گاڑی کی حوالگی سے پہلے طلب کی گئی تھی۔ یہ مسئلہ بینک کی جانب سے حل کر دیا گیا۔ کمیٹی کو قراقرم انیشیٹو کی جانب سے نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے تصور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اجلاس میں ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے کنٹری ڈائریکٹر ینگ یی نے پاکستان میں بینک کے منصوبوں اور ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں بینک کے کردار پر بھی تفصیلی بریفنگ دی ۔
اجلاس کوبتایاگیا کہ بینک نے حالیہ برسوں میں پاکستان کو 802 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں، 2020میں کوویڈ19کی ویکسین کیلئے 500 ملین ڈالر اور 2021 میں دیئے گئے جبکہ 2022 کے سیلاب سے بحالی کے لیے 1.5 ارب ڈالر کے وعدے کیے گئے۔انہوں نے اجلاس کوبتایا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) آئندہ 3برسوں میں پاکستان کو 6 ارب ڈالرز کی مالی معاونت فراہم کرے گا۔انہوں نے کہاکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نئی حکمت عملی بنا رہا ہے جس کے تحت رکن ممالک میں علم اورٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائیگا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو سالانہ 2 ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائیگی جس میں سے 2 اعشاریہ 8 ارب ڈالرز کی امداد نرم شرائط پر ہوگی۔ینگ یی نے کہاکہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ افرادکی امدادکے ضمن میں مکانات کیلئے 40 کروڑ ڈالر دیئے گئے ہیں جبکہ توانائی، زراعت، آبپاشی کے منصوبوں کیلئے امداد دی گئی ہے۔ اجلاس میں وفاقی وزیرخزانہ محمداورنگزیب، سینیٹرز فاروق حمید نائیک، شیری رحمان، انوشہ رحمان احمد خان اور شاہ زیب درانی اور متعلقہ محکموں کے اعلی افسران نے شرکت کی