فلسطین پر آل پارٹیز کانفرنس، اسرائیل کیخلاف اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا مطالبہ، اسرائیلی جارحیت اور ظلم وتشددکی مذمت

اسلام آباد(صباح نیوز)ایوان صدر میں فلسطین پر آل پارٹیز کانفرنس میں بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان و رہنماشریک ہوئے، شرکا نے اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششوں کا مطالبہ کردیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر مشرق وسطی کی صورتحال اور فلسطین کے موضوع پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی ،کانفرنس میں صدر مملکت آصف زرداری، مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف، وزیراعظم شہاز شریف، جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمان،جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان ، سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سمیت اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان، ، یوسف رضا گیلانی، اسحاق ڈار، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر جماعتوں کے سربراہان شریک ہوئے،کانفرنس میں قومی ترانے کے بعد تلاوت سے باقاعدہ آغاز کیا گیا، شیری رحمان نے کانفرنس کا ایجنڈا پیش کیا کہ 7 اکتوبر ایک ایسا سیاہ دن ہے جس دن اسرائیل نے فلسطین کے عوام پر حملہ کیا آج اسی پر کانفرنس منعقد کی گئی ہے۔ بعدازاں صدرمملکت نے خطاب کے ساتھ کانفرنس شروع کی۔

اپنے خطاب میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ ایک اس کانفرنس کے لیے وزارت خارجہ کا ڈرافٹ ہے اور ایک میرے دل کی آواز ہے، ہم نے پی ایل او کے یہاں دفاتر دیکھے، میں کئی بار یاسر عرفات سے ملا، پاکستان کا پی ایل او کے ساتھ کوآپریشن رہا ہے، اسرائیل اپنی جارحانہ کارروائیوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے اور یہ خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ حالیہ اسرائیلی جارحیت میں اب تک 41 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور اب وہ لبنان و شام سمیت دیگر ممالک کو نشانہ بنارہا ہے، عالمی برادری اسرائیل کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے اور فلسطین بالخصوص غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے دنیا اس بات کا سخت نوٹس لے۔مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے کہا کہ نہتے فلسطینی باشندوں پر جو ظلم ہورہا ہے وہ تاریخ کی بدترین مثال ہے، پورے پورے شہر کھنڈارت میں تبدیل کردیے گئے ماں سے بچے چھین کر والدین کے سامنے شہید کردیے گئے ایسا ظلم کہیں نہیں دیکھا، دنیا نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور ایک طبقہ اس مسئلے کو انسانیت کے بجائے مذہبی مسئلہ سمجھ کر بیان کرتا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اقوام متحدہ اس معاملے پر بے بس بیٹھی ہے ان کی قراردادوں پر کوئی عمل نہیں ہورہا، شہباز شریف نے فلسطین کے مسئلے کو یو این او اجلاس میں اچھے طریقے سے اجاگر کیا مگر اسرائیل کو یو این او کی کوئی پروا نہیں اور یو این او کو بھی غالبا کوئی فکر نہیں کہ وہ اتنا بڑا ادارہ ہوکر اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کرواسکتا۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ بالکل کشمیر کے معاملے کی طرح ہے کہ اس کے لیے بھی منظور کردہ قرارداد پر عمل نہیں ہوسکا، ایسی یو این او کا کیا فائدہ؟ جو دنیا کو انصاف نہ دے سکے اور جہاں ظلم ہو اسے روک نہ سکے۔سربراہ ن لیگ نے کہا کہ یاسر عرفات سے دو بار ملا، انہوں نے کافی جدوجہد کی، فلسطینیوں کا خون رنگ لائے گا، اسلامی ممالک کو جمع ہوکر کوئی فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے، اس پر اچھی طرح سے غور کرکے اقدامات کا فیصلہ کیا جائے۔نواز شریف نے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اسلامی ممالک کے پاس ایک بہت بڑی قوت ہے اور وہ اس کا استعمال اگر آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟ شاید پھر کبھی دوبارہ اس کے استعمال کا موقع آئے یا نہ آئے لیکن آج یہ موقع ہے اور ہم سب کو اکٹھا ہوکر ایک پالیسی بنانی ہوگی ورنہ ہم بچوں اور والدین کا اسی طرح خون ہوتے دیکھتے رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اس لیے دندنا رہا ہے کہ اس کے پیچھے عالمی طاقتیں ہیں ان طاقتوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک اسلامی دنیا اور فلسطین کے صبر کا امتحان لیں گے؟ ہمیں چاہیے کہ اپنی سفارشات مرتب کرنے کے بعد اسلامی دنیا سے رابطہ کریں اور اپنا موثر کردار ادا کریں، یہ صرف ہم نہیں پورے پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ہم کوئی فیصلہ کریں ہمیں ان کے جذبات کو بھی دیکھنا ہے یہ کام جتنی جلدی ہو اتنا بہتر ہے اس میں کوئی تاخیر نہ کی جائے۔

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کے ناسور کا سب سے پہلا فیصلہ 1917 میں برطانیہ کے وزیر خارجہ دارفور کے جبری معاہدے کے تحت ہوا جس کے بعد یہودیوں کی بستیاں بسائیں گئیں، قائداعظم جناح نے اسے ناجائز بچہ کہا جبکہ اسرائیل کے صدر نے سب سے پہلا خارجہ پالیسی کے بیان میں کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کی سب سے اولین بنیاد یہ ہوگی کہ دنیا کے نقشے پر ایک نوزائیدہ اسلامی ملک کا خاتمہ ہمارا مقصد ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح کچھ لوگ پاکستان کے ٹیلی ویژن پر آکر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کرتے تھے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتوں پر تعجب ہے، دو ریاستی حل کسی صورت قبول نہیں، سات اکتوبر کے حملے نے مسئلہ فلسطین کی نوعیت تبدیل کردی، یہودی آبادکاری ختم کرائے جائے، فلسطین میں پچاس ہزار تک لوگ شہید ہوچکے ہیں، دس ہزار تک وہ لوگ ہیں جو ملبے میں دب کر شہید ہوچکے ہیں اور انہیں ابھی تک نکالا نہیں گیا۔فضل الرحمان نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں دنیا نے جس خاموشی کا مظاہرہ کیا ہم پاکستانی بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، جنوبی افریقا ہم سے بہتر ہے جو مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں لے گیا، ہم محض ایک کانفرنس کے ذریعے اس مسئلے کا حق ادا نہیں کرسکتے انہیں زبانی دعوے نہیں عملی مدد درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ حماس امریکا و یورپ کے نظر میں دہشت گرد ہوگی مگر ہم کھل کر انہیں سپورٹ کرنے کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ مجاہدین کی تنظیم ہے، بھارت کھل کر اسرائیل کی حمایت کررہا ہے مگر ہم کھل کر فلسطین کی حمایت نہیں کرپارہے۔سربراہ جے یو آئی  نے تجویز پیش کی کہ یہ کانفرنس حکومت سے کہے کہ بڑے مسلم ممالک کا گروپ بنایا جائے اور ایک مشترکہ حکمت عملی بنائے جائے، جنگ بڑھ کر لبنان اور یمن تک پہنچ چکی ہے، ایک چھوٹے سے ملک نے پوری دنیا کو بے چین کردیا، سعودیہ، پاکستان یا کوئی بھی ملک اس کی قیادت کرے۔

کانفرنس سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات قائداعظم محمد علی جناح کی پالیسی کی نفی ہے، ہم اس تجویز کو مسترد کرتے ہیں۔اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ اسرائیل نے ایک سال میں 85 ہزار ٹن بارود فلسطینیوں پر گرایا، اور ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ ہم اسرائیل کو ریاست مانتے ہی نہیں، اس وقت اسرائیل جو کچھ کررہا ہے یہ انسانیت دشمنی ہے۔انہوں نے کہاکہ اس پلیٹ فارم سے صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کا پیغام جانا چاہیے، کبھی کبھی اسٹینڈ لینا ضروری ہوتا ہے اور لینا چاہیے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہاکہ فلسطین میں 80 سے 90 فیصد عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں، جو کچھ اسرائیل کررہا ہے اسے نسل کشی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ اجلاس کے دوران اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا، اور امریکا اس کی پشت پناہی کررہا ہے، امریکا 310 بلین ڈالرز برائے راست اسرائیل کو فراہم کرچکا ہے۔انہوں نے کہاکہ قائداعظم محمد علی جناح کا بھی یہی موقف تھا کہ اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہے، دو ریاستی حل کی حمایت قائداعظم کی پالیسی کی نفی ہے، عالمی برادری کو فلسطین میں مظالم کو روکنا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ اسرائیل حماس سے شکست کھا چکا ہے اور اب صرف وہاں کی سول آبادی پر بمباری کررہا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم ایک اسلامی سمٹ کا انعقاد کریں جس میں اسلامی ممالک کے سربراہان اور فوجی سربراہان کو مدعو کیا جائے اور کوئی واضح حکمت عملی بنائی جائے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت کچھ عناصر ایسے ہیں جو شیعہ سنی فساد قائم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ حسن نصراللہ اور اسماعیل ہنیہ دونوں کو اسرائیل کا میزائل لگا، اس لیے ہماری بقا اتحاد میں ہی ہے۔  امیر جماعت اسلامی نے کہا  کہ ہمیں بھی زخمی فلسطینیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہئے، بیداری کی لہرپیدا کر کے پورے کیس کی ترجمانی کرنا ہوگی۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ 1947 والی پوزیشن پر ہمیں قائم رہنا چاہئے، مولانا فضل الرحمان کا مطالبہ دوریاستی حل یا 1967 کی پوزیشن کی حمایت قائداعظم کیاصولی موقف کی نفی ہے۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ فلسطینی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں، اقوام متحدہ فلسطین کا مسئلہ حل نہیں کرائے گی، کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرائیگی۔نہوں نے تجویز دی کہ ہمیں اسلامی ممالک کا اجلاس بلا کر فوج کے سربراہان کو بھی مدعوکیا جائے، اس حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری ہونا چاہیے، اسلامی سمٹ بلا کر ایک مضبوط موقف اپنانا چاہئے، پروایکٹو رول ادا کرنا چاہئے۔امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ شنگھائی کانفرنس میں کیس پیش کریں اور بھارت کو آئسولیٹ کریں، اتحاد میں ہی ہماری نجات ہے، اسرائیل کو عرب اور مسلم ممالک کی خاموشی نے طاقت فراہم کی ہے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اگر آپ کے اوپر کوئی پریشر ہے تب بھی دو ریاستی حل کی بات کو نکال دیں، آزاد فلسطین کی بات کریں کوئی قیامت نہیں آجائے گی،چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زراداری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ پیغام بھیجنا ضروری ہے اور اس لیے کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ہیں، آج کا یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطین بہنوں اور بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ہر پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصل معنوں میں پاکستانی کی عوام کی طرف سے خارجہ پالیسی کی امید پر پورا اترنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

بلاول بھٹو زراداری نے کہا وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، تمام سیاسی جماعتوں کا آپ کو بھرپور تعاون حاصل ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے ہمیشہ آپ کی مدد کو تیار رہے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اس مقدمے کو پوری دنیا کے سامنے اٹھانا ہے تو اس کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپور ساتھ دیں گی اور کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا، ہم سیاسی جنگ لڑنے کے لییتیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ آپ کا ساتھ دیں گے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ 7 اکتوبر کو ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس حملے سے قبل امن اور سکون تھا اور ایک دن فلسطین کی عوام جاگ اٹھی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ قابض فورسز پر حملہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں نے تین چار نسلوں تک اپنی آزادی کی جنگ لڑی ہے، پوری دنیا ایک طرف اور فلسطین کے نہتے معصوم بچے، جوان بوڑھے دوسری طرف، پوری دنیا نے دیکھا کہ یرغمالیوں کو ایک بہت بڑا مسئلہ بنا دیا گیا، ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک بھی یرغمالی نہ ہو لیکن اکتوبر 7 کے بعد جو یرغمالی ہیں ان کی بھی بات کی جائے لیکن ان کے ساتھ ساتھ جو اسرائیل ریاست نے بچوں اور بوڑھوں کو تین، چار نسلوں تک ان کی جیلوں میں یرغمال رکھا اور ان پر مظالم ڈھائے تو یرغمالیوں کے ساتھ ان کی بھی بات کی جانی چاہیے۔

بلاول بھٹو زراداری کا کہنا تھا میں سوال کرتا ہوں کہ اگر آج بھی جنگ کے پیچھے اکتوبر 7 کے یرغمالی ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ کتنے اسرائیلی یرغمالی یمن، ایران اور لبنان میں موجود ہیں؟ اکتوبر 7 اور یرغمالیوں کے واقعات بہانا ہیں، ان کا مقصد نہ صرف پورے فلسطین پر قبضہ کرنا اور نسل کشی کرنا ہے بلکہ یہ لبنان، مصر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور مسلم امہ نے بین الاقوامی سطح پر صیہونی ایجنڈے کوبے نقاب کرنا ہے اور ان کی اس سازش کو آج سے بے نقاب کرنا ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ میں غیرمسلم ممالک کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے نسل کشی کے خلاف ایک اصولی مقف اپنایا ہے، وہ وزیراعظم اور صدر مملکت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے جتنے مسائل ہوں لیکن ہم متحد ہیں۔کثیرالجماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم سے امید رکھتے ہیں کہ ہماری قرارداد کے ساتھ آپ ایک بااختیار کمیٹی بنائیں گے جس میں کسی جماعت سے اگر کسی ممبر کی ضرورت ہو تو اسے ذمہ داری دی جائے اور ان کو باقاعدہ طور پر فلسطین کا سفیر مقرر کیا جائے، اگر اقوام متحدہ، او آئی سی یا دنیا کے مختلف ممالک کے پارلیمان یورپی یونین میں جانا ہو تو وہاں جائیں اور صیہونی سازش کو بے نقاب کریں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ اور آنے والی نسلیں اسرائیل کے ظلم اور بربریت اور مسئلہ فلسطین کے حل ہونے تک آپ کا ساتھ دیں گی۔

اے پی سی سے خطاب میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ کانفرنس میں شرکت پر تمام رہنماں کا مشکور ہوں، جب بھی پاکستان کو کسی چیلنج کا سامنا ہوا توپوری سیاسی قیادت متحد ہوگئی، قائدین کی طرف سے دی جانے والی تجاویز کو غور سے سنا، اجتماعی سوچ اور فکر ہمارے لیے حوصلہ افزا ہے،انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کوبدترین اسرائیلی جارحیت کا سامنا ہے، عالم اسلام کو آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے، ہم سب فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں، وقت آگیا ہے کہ خونریزی کو بند کرانے کے لیے اپنی تمام کاوشیں بروئے کار لائی جائیں، خونریزی کو بند کرانا ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے، جبکہ فلسطین کی آزاد ریاست کا قیام اور القدس شریف اس کادارالخلافہ ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ایک ورکنگ گروپ بنائیں گے، ورکنگ گروپ کے لیے جلد اقدامات اٹھائیں گے، ماہرین کو شامل کریں گے اور ورکنگ گروپ صرف سیرسپاٹے کے لیے نہیں ہوگا۔

شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین میں امدادی سامان پہنچانے میں ہم نے اپنا کردار ادا کیا ہے، مزید امدادی سامان بھی غزہ کے مظلوم عوام کے لیے بھجوایاجائے گا، فلسطینی طلبہ کو میڈیکل کی تعلیم کے لیے یہاں سہولیات دے رہے ہیں، جبکہ جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیر اعظم کی تقریر کا پاکستانی وفد نے بائیکاٹ کیا۔ ،، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی، پی ایم ایل کیو کے رہنما چوہدری سالک، علیم خان، ایم ولی خان، جان محمد بلیدی و دیگر نے بھی خطاب کیا،بعد ازاں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ  اسحاق ڈارنے کثیرالجماعتی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل خطے میں امن اور سیکیورٹی کو تباہ کررہا ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ حال میں ہی اسرائیل کی طرف سے لبنان میں کی جانے والی جارحیت، غزہ میں حملوں، حماس کے رہنماوں کی تہران اور لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ کی شہادت خطے میں امن کی صورتحال کو خراب کررہی ہے۔

کانفرنس کے اعلامیے میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا اور مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور د یا گیا،فلسطین کے لوگوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت اور ظلم وتشددکی مذمت کے عنوان سے کثیر الجماعتی کانفرنس میں پیش کی گئی قرارداد میں اسرائیلی کی نشل کشی کے اقدامات جس میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ شہید کیے گئے اس کی پر زور مذمت کی گئی ہے۔اسرائیلی مظالم کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد میں اسکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کے کیمپوں عبادت گاہوں پر حملوں اور صحافیوں کو قتل کرنے کی بھی مذمت کی گئی۔قرارداد میں غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ فلسطینی لوگوں پر کیے جانے والے مظالم اور غزہ کے محاصرہ کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔کثیرالجماعتی کانفرنس میں پیش کی جانے والی قرارداد میں غزہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے، اسرائیل کو بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے اور نشل کشی کرنے پر ذمہ دار ٹھہرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔کانفرنس کے اعلامیے میں عالمی برادری پر اسرائیل کو لبنان اور دیگر ممالک پر مزید مظالم ڈھانے اور خطے کو مزید عدم استحکام کا شکار کرنے سے فوری طور پر روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔قرارداد میں او آئی سی، عرب لیگ و دیگرعالمی اداروں کی طرف سے سیاسی اور سفارتی طور پر امن واستحکام کی کاوشوں کی حمایت کا بھی اعلان کیا گیا۔