کربلائے بیروت سے پیغام : تحریر حامد میر


بہت سال پہلے فیض احمد فیض نے ایک نغمہ کربلائے بیروت کیلئے لکھا تھا ۔ فیض احمد فیض 1978 ء میں تنظیم آزادی فلسطین کے سربراہ یاسر عرفات کی دعوت پر بیروت آئے تھے ۔ بیروت میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کا دفتر تھا اور قریب ہی ایفرو ایشین رائٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان جریدے ’’لوٹس‘‘ کا بھی دفتر تھا۔فیض صاحب ’’لوٹس‘‘ کےایڈیٹر بن کر بیروت آئے ۔ یہ جریدہ عربی ، انگریزی اور فرنچ میں شائع ہوتا تھا ۔ فیض صاحب کو بیروت آئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ پی ایل او اور اسرائیل کی لڑائی میں تیزی آگئی ۔ اسرائیل نے جنوبی لبنان پر حملے شروع کئے تو پی ایل او نے بھی اسرائیل کے اندر گھس کر حملے شروع کر دیئے اور پھر اسرائیل نے لبنان کے وسیع علاقے پرقبضہ کر لیا ،فیض صاحب کو بیروت سے دمشق منتقل ہونا پڑا لیکن جو کر بلائے بیروت اُن کی زندگی میں شروع ہوئی وہ ابھی تک جاری ہے ۔دو دن سے کربلائے بیروت کے مناظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔سارا دن فضا میں اسرائیلی ڈرون اُڑتے رہتے ہیں ۔ اچانک ایک دھماکےکی آواز آتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ جنوبی بیروت یا وسطی بیروت کے کسی علاقے میں اسرائیل کے حملے میں بھاری جانی نقصان ہو گیا ہے۔ 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران بھی میں نے بیروت میں کئی ہفتے گزارے تھے اُس وقت بھی بڑی تباہی ہوئی تھی لیکن بیروت میں اتنا خوف و ہراس نہیں تھاجتنا 2024ء میں نظر آ رہا ہے ۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر الله کی شہادت پر عام لبنانی بڑے غمگین ہیں ۔ ایران اور اسرائیل کی جنگ میں شدت آگئی تو اس کے اثرات لبنان میں بھی ظاہر ہونگے ۔ جس دن میں بيروت پہنچا اُسی دن اسرائیل نے بمباری کر کے لبنان اور شام کا زمینی راستہ تباہ کر دیا ۔ 2006 ء میں بیروت کا ایئر پورٹ بند تھا تو میں اسی زمینی راستے سے دمشق پہنچا اور وہاں سے پاکستان واپس گیا تھا ۔ اس مرتبہ یہ راستہ بند ہو گیا ہے لیکن اب راستےبند ہونے سے کوئی گھبرا ہٹ نہیں ہوتی ۔ چار اکتوبر کی صبح جب میں اسلام آباد ایئر پورٹ کیلئے نکلا تو تمام راستے بند تھے ۔ دوستوں اور ساتھیوں کا خیال تھا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ تک پہنچنا ناممکن ہے لیکن میں نے عام پاکستانیوں کی مدد سےجی ٹی روڈ اور موٹروے کے آس پاس دیہاتی علاقوں کے اندر سے راستے تلاش کئے اور کنٹینر عبور کرتا ہوا کسی نہ کسی طرح ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ میری طرح دیگر مسافر بھی کنٹینروں کا سمندر عبور کر کےایئر پورٹ پہنچے تھے ۔ ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد میں بیروت میں داخل ہوا تو ایئر پورٹ کے آس پاس اسرائیلی بمباری سے دھواں اُٹھ رہاتھا ۔ ایک محفوظ جگہ پرپہنچ کر پاکستان رابطے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی دھواں اُٹھ رہا ہےلیکن یہ دھواں آنسو گیس کی شیلنگ کا ہے ۔ بہرحال پاکستان اور لبنان کے حالات میں بڑا فرق ہے۔ لبنان آکر اللہ کا شکر ادا کیا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ورنہ پاکستان کے دشمن بھی ہمارا وہی حشر کرتے جو فلسطین ،لبنان اور شام کا ہو چکا ہے ۔ لیکن دوسری طرف یہ اندیشے بھی کھٹکتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں نے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں بدلنے کی عادت کو ختم نہ کیا تو کہیں دشمن کوئی فائدہ نہ اٹھالے؟

لبنان نے بھی پاکستان کی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی حاصل کی تھی۔ ایک زمانے میں لبنان کو مشرق وسطیٰ کا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا تھا لیکن 1978ء کے بعد یہاں سیاسی اختلافات قبائلی دشمنیوں میں بدل گئے۔ سیاسی گروپ مسلح تنظیموں میں بدل گئے اور پھر آپس کی لڑائیوں نے ایک خانہ جنگی کو جنم دیا جس سے فائدہ اُٹھا کر اسرائیل نے جنوبی لبنان پر قبضہ کر لیا ۔ کئی سال کی مزاحمت کے بعد اسرائیل کو حزب اللہ نے جنوبی لبنان سے نکال دیا تھا لیکن 2024ء میں اسرائیل دوبارہ جنوبی لبنان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ لبنان کا شام سے رابطہ کاٹ دے۔ صرف پچھلے آٹھ دس دنوں میں اسرائیل کی بمباری کے باعث کم از کم دو ہزار لبنانی شہید اور 12لاکھ لبنانی بے گھر ہو چکے ہیں۔ جنوبی لبنان سے شام میں پناہ لینا آسان ہے۔ اسرائیل نے لبنان کا شام سے راستہ کاٹ کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ جنوبی لبنان میں غزہ کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔ پچھلے ایک سال میں اسرائیل نے غزہ میں 42 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا ہے جن میں 16 ہزار بچے تھے ۔ اب اگر اسرائیل نے ایسے ہی قتل عام کا منصوبہ جنوبی لبنان میں بنا لیا تو اُسے کون روکے گا؟ پچھلے دو دن جنوبی بیروت پر بھی اسرائیلی حملوں میں شدت آگئی ہے اور اس علاقے کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مکین اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں ۔ بیروت کا ساحل سمندر ان بے گھر لبنانیوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔

تھوڑی دیر پہلے میں نے ساحل کے قریب ہزاروں گاڑیاں اور ویگنیں دیکھیں ۔ ان گاڑیوں میں موجود عورتیں، بچے اور بزرگ جنوبی بیروت میں اپنے گھرچھوڑ کر گاڑیوں میں سمندر کے کنارے پناہ لئے ہوئے ہیں کیونکہ شام جانے والے راستے کو تباہ کردیا گیا ہے ۔ ساحل سمندر پر مجھے ایک بزرگ ملا۔ اُس نے مجھے انگریزی میں کہا کہ ہم اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ لیکن ہمیں پاکستان سے بڑی اُمید ہے۔ میں نے بزرگ سے پوچھا کہ آپ کو پاکستان سے کیوں اُمید ہے؟ میرا سوال سُن کر بزرگ نے حیرانی سے پوچھا کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو بزرگ نے چند لمحوں کیلئے میری آنکھوں میں جھانکا۔ پھر اُس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا۔ ’’اللہ پر بھروسہ رکھو۔ پاکستان کو کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ ایک ستم رسیدہ لبنانی کی زبان سے پاکستان کےلئے دُعا سُن کر مجھ جیسے جگر دریدہ صحافی کو اُمید سحر مل رہی تھی۔ وہی اُمید سحر جسے کربلائے بیروت کے بعد بھی فیض احمد فیض نے ختم نہیں ہونے دیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کربلائے بیروت کے مناظر سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پاکستان کو اس قابل بنائے کہ وہ دنیا بھر کے زباں بریدہ مظلوموں کی آواز بن جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ