پہلے یہ الفاظ غور سے سنیے:’’یہ صرف اپنا ووٹ بینک بڑھا رہے ہیں۔ میں ان عناصرسے اپیل کرتا ہوں کہ ریاست سے نہ ٹکرانا۔ میں آپ سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ اس ملک کی خاطر جو مشکل حالات سے نکل رہا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ آگے اچھا وقت آ رہا ہے۔ آپ اپنی سیاست چمکانے کیلئے،اپنے ووٹ بینک کیلئے اس ملک کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ اگر آپ یہ کریں گے تو میں آپ پر یہ واضح کر دوں کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔ لوگوں کی پراپرٹیز، لوگوں کی جان و مال کی حفا ظت کرے گی۔ ہم کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہونے دیں گے، ہم کوئی ٹریفک نہیں رکنے دیں گے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ ریاست کو اُدھر تک نہ لے کر جائیں کہ وہ مجبور ہو جائے ایکشن لینے کیلئے۔ پاکستان پائندہ باد۔‘‘
یہ جو الفاظ ہیں یہ وزیراعظم شہباز شریف کے قوم سے کسی تازہ خطاب کے نہیں نہ ہی شہباز شریف نے گزشتہ دو دنوں کے دوران جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اپنے قافلے کے ساتھ اسلام آباد ڈی چوک پر تمام تر تیاری کے ساتھ آ رہےتھے، اُس موقع پر یہ بیان جاری کیا۔ یہ بیان عمران خان کا بحیثیت وزیراعظم اپنے دور حکومت کے دوران قوم سے ایک خطاب کاحصہ ہے جب وہ احتجاج کرنے والی ایک سیاسی و مذہبی جماعت کو احتجاج اور اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے پروارننگ دے رہے تھے کہ اپنی سیاست کیلئے ایسا مت کریں یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی ریاست اس کی اجازت دے سکتی ہے۔
عمران خان کے قوم سے چند سال پہلے اپنے دور حکومت کے دوران اس خطاب کو اگر گزشتہ دو دنوں سے جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، اُس کے ساتھ جوڑا جائے اور جو کچھ تحریک انصاف کی طرف سے کیا جا رہا تھا جس طرز کا احتجاج کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، موٹرویز اور سڑکوں خاص طور پر راولپنڈی اسلام آباد کو بند کر دیا گیا اُس تناظر میں پرکھا جائے تو محسوس ہو گا جیسے عمران خان اپنے آپ کو ہی وارننگ دے رہے ہیں اور کہہ رہے کہ جس وقت ملک معاشی لحاظ سے بہتری کی طرف جا رہا ہے ایسے میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کیلئے تحریک انصاف کیوں اسلام آباد پر چڑھائی کر رہی ہے؟؟ جب پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سمٹ میٹنگ ہو رہی ہے جس میں کئی ممالک کے سربراہا ن شرکت کرنے کیلئے آ رہے ہیں،ایسے وقت میں اپنی سیاست چمکانےکیلئے تحریک انصاف کیوں احتجاج کر رہی ہے؟؟ ایک ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف نے پاکستان کو تین سال کیلئے قرض دینے کا معاہدہ کر لیا، جب بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بہتری دیکھ رہی ہیں تو پھر خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ اس انداز میں احتجاج کے نام پر اسلام آباد پر کیوں چڑھائی کر رہے ہیں جیسے اسلام آباد کو فتح کرنےکیلئے آ رہے ہوں۔ تحریک انصاف کا احتجاج کرنے کا جو انداز ہے اس کا ایک ماضی ہے۔ کہنے کو تو یہ کہتے ہیں کہ پرامن احتجاج اُن کا آئینی حق ہے لیکن کیا 2014 کا دھرنا پرامن تھا، کیا اُس دوران پی ٹی وی، پاکستان ریڈیو پر حملے نہیں کیے گئے؟؟ توڑ پھوڑ نہیں کی گئی؟؟، احتجاج کرنے والے پارلیمنٹ کی حدود کے اندر داخل نہیں ہوئے؟ کیا 126 دنوں کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، وفاقی سیکرٹریٹ کے رستوں کو ڈنڈا برداروں نے بلاک نہیں کیے رکھا؟ کیا اس دوران ان دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی نہیں ہوا؟ کیا اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کو عمران خان نے احتجاج کا نام نہیں دیا تھا؟ کیا اُس وقت بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعلیٰ نے بھی عمران خان کے حکم پر اسلام آباد میں چڑھائی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی؟ کیا مئی 9کی کوئی حقیقت نہیں؟عمران خان اور تحریک انصاف کو اپنےطرز سیاست پر غور کرنا چاہیے، چاہے اس کا تعلق اندازِ احتجاج سے ہو یا اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ملک کی معیشت سے کھیل کھیلنے سے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ