پاکستان اور آئی ایم ایف۔۔۔تحریر نعیم قاسم


آئی ایم ایف ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارہ ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944 میں برٹن ووڈ کا نفرنس کے نتیجے میں وجود میں آیا امریکہ برطانیہ اور سویت یونین سمیت 44 ممالک نے کانفرنس میں شرکت کی اور طے پایا کہ عالمی معاشی بحران کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مستحکم ایکسچینج ریٹ نظام کو اپنایا جائے گا اور جنگ سے متاثرہ ممالک کی معیشت کی بحالی کے لیے معاشی امداد دی جائے گی 1970 تک فکسڈ ایکسچینج کا نظام برقرار رکھا گیا مگر بعد میں اس کا تعین مارکیٹ کی فورسز پر چھوڑ دیا گیا اب اس کے رکن ممالک کی تعداد 190 ہے اور اس کے پاس ایک ہزار ارب ڈالرز کا مالیاتی فنڈ موجود ہے ہر رکن ملک اپنی مالی سبسکرپشن کے بدلے SDRS یعنی قرض حاصل کرنے کے حقوق حاصل کرتا ہے کسی بھی ملک کو قرض دینے سے پہلے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہے 1_معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ _یہ دیکھنا کہ ایک ملک کی معاشی کارکردگی کیسی ہے اور اسے کن کن خطرات کا سامنا ہے 2_رکن ممالک کی معیشت کا جائزہ لینے کے بعد اسے معیشت کو بہتر بنانے کی تجاویز دی جاتی ہیں3_مالی مشکلات کے شکار رکن ممالک کو مختلف شرائط پر قلیل مدتی اور طویل مدتی قرضوں کی فراہمی کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ معاشی بحران کے شکار ممالک کی آخری امید آئی ایم ایف کی مدد ہوتی ہے
پاکستان آئی ایم ایف سے پہلے 22 قرض پروگرام لے چکا ہے اور حال ہی میں ستمبر میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے سات ارب ڈالرز کے 23 قرض پروگرام کی منظوری دی ہے جس کی 1.1 ارب ڈالرز کی پہلی قسط ہمیں مل چکی ہے جبکہ بقیہ 5.9 ارب ڈالرز ہمیں آئندہ تین سالوں میں مختلف شرائط کے تحت اقساط میں دیئے جائیں گے اور اس کی شرح سود پانچ فیصد سے کم ہے پاکستان نے آئی ایم ایف سے ڈھائی کڑور ڈالرز کا پہلا قرض 1958 میں حاصل کیا تھا ایوب خان نے تین، بھٹو نے چار، ضیاء نے دو بے نظیر بھٹو نے اپنے دونوں ادوار میں پانچ نواز شریف نے دو مشرف نے ایک عمران خان نے ایک اور شہباز شریف نے دو پروگرام لیے ہیں پاکستان اسوقت آئی ایم ایف سے قرض لینے والا پانچواں بڑا ملک ہے پاکستان کو حالیہ سات ارب ڈالرز کا قرض آئی ایم ایف نے انتہائی سخت شرائط کے تحت دیا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے ایف بی آر کو ریونیو ہدف حاصل نہیں ہو رہا ہے جسکی وجہ سے حکومت لازماً منی بجٹ کے ذریعے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرے گی آسی کی دہائی سے پہلے پاکستان سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا اتحادی تھا اور افغانستان میں امریکہ کی پراکسی جنگ لڑ رہا تھا اس لیے اس کو آئی ایم ایف سے لمبی چوڑی شرائط کے بغیر قرض مل جاتا تھا کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس 60 فنذنگ امریکہ کی ہے لہذا آئی ایم ایف سے مدد لینے کے لیے امریکہ کے سیاسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے اسی وجہ سے تو ہم ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل نہیں کر پا رہے ہیں کہ کہیں امریکہ کے ناراض ہونے سے عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی فنڈنگ ہی نہ بند کر دیں ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے “پاکستان کو امریکہ نے سیاسی اور معاشی طور پر زیر اثر رکھنے کے لیے push and pull فیکٹر کے ذریعے آئی ایم ایف پروگرام میں شامل کر رکھا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتدار چھوڑنے والی ہر جماعت معاشی حالات اسقدر خراب کر دیتی ہے کہ نئ حکومت کو مجبوراً آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑتا ہے” عمران خان برسر اقتدار آنے تو انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے اجتناب کیا مگر بعد میں جانا پڑا پی ڈی ایم کی حکومت میں اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کو بڑی آنکھیں دکھائیں اور کہا کہ آئی ایم ایف بے شک پروگرام نہ دے ان کے پاس پلان بی موجود ہے مگر پھر ایڑیاں رگڑ کر توسیع مدت کا پروگرام لینا پڑا اس کے بعد شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ نے ان پر وزارت خزانہ کے دروازے بند کر دیے آئی ایم ایف کے پاس ہمارے بار بار جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری درآمدات ہمیشہ برآمدات سے زائد رہتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارا توازن ادائیگی اور توازن تجارت منفی رہتا ہے دوسری طرف ہمارا بجٹ کا خسارہ غیر ترقیاتی اخراجات اور کرپشن کی وجہ سے بھی منفی میں رہتا ہے تو قرضوں کی ادائیگی کے لئے ہمارے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہتا ہے یہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض فراہمی سے ہمارے مالیاتی مسائل حل ہو جاتے ہیں مگر آئی ایم ایف کی توثیق کے بغیر نہ تو مالیاتی ادارے اور نہ ہی دوست ممالک ہماری مدد کرتے ہیں سعودی عرب چین اور متحدہ عرب امارات بھی آئی ایم ایف کی سرٹیفکشن کے بغیر قرض نہیں دیتے ہیں کیونکہ ہمارے اوپر قرضوں کا انبار ہے اور ڈونرز کا ہمارے اوپر اعتماد بھی کم ہے چونکہ آئی ایم ایف کس بھی ملک کو پروگرام میں لانے کے لیے مالیاتی ضابطے اور قائدے میں لے کر آتا ہے جس سے قرض دہندہ ممالک کو قرض واپسی کی امید برقرار رہتی ہے تو تب وہ پاکستان جیسے ممالک کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے پر آمادہ ہوتے ہیں پاکستان کو آئی ایم ایف سے جو پہلی قسط 1.1 ارب ڈالرز ملی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے ہمیں اس سال 26 ارب ڈالرز کی بیرونی ڈیٹ فنانسگ کرنی ہے جس کے لیے حکومت زیادہ شرح سود پر کمرشل قرضے لینے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض دیتے وقت ہمیشہ تین چیزوں پر زور دیا ہے نجکاری، ڈی ریگولیشن اور فری مارکیٹ
آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اصلاحات کے ایجنڈے کے ذریعے ہم میکرو معاملات تو بہتر کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ان کو مانیٹر کر رہا ہوتا ہے مگر مائکرو لیول پر اصلاحات نہیں ہوتی ہیں اور عام آدمی کی مالی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے آئی ایم ایف کے پروگرام کی شرائط میں کرنسی کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے سے اس کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے اور دوسری طرف شرح سود میں اضافے سے معیشت سست روی کا شکار ہو جاتی ہے صنعتی ترقی رک جاتی ہے اور بیروزگاری، غربت مہنگائی اس پروگرام کا لازمی جزو بن جاتا ہے آئی ایم ایف پروگرامز کی وجہ سے پاکستان نو آبادیاتی غلامی کا شکار بن چکا ہے وہ اپنی مرضی سے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کر سکتا ہے کیونکہ ہر قسط کے لیے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا ضروری ہوتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف ڈونرز ایجنسیوں اور مختلف ممالک کے کنسورشیم سے جو بھی قرضے لیے ہیں اس کا زیادہ حصہ غیر ترقیاتی اخراجات اور کرپشن کی نذر ہوا ہے پیداواری عمل میں بہت کم استعمال ہوا ہے اور نہ ہی ہم کبھی غیر ملکی ڈیٹ کو ریٹائر کرنے کے مثبت کوشش کی ہے نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم شروع کی تھی اس میں اکٹھے فنڈز کا آج تک سوراخ نہیں ملا ہے ہمارا غیر ملکی قرضہ 130 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے جو اگلے دوسالوں میں 150 ارب ڈالرز تک جا پہنچے گا ہم جو بیرونی ممالک سے قرض لے رہے ہیں وہ پرانے قرضوں میں ایڈجسٹ ہو کر پہاڑ بن رہے ہیں یعنی ہمیں ان قرضوں کی نیٹ رقم مل نہیں رہی ہے مگر اس پر سود بڑھتا جا رہا ہے اور ہماری مالیاتی خود مختاری بین الاقوامی ساہوکاروں کے ہاتھوں گروی بن چکی ہے اس حالت کی عکاسی غالب کچھ اس انداز میں کرتا ہے
قرض کی پیتے تھے مئے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن