گنہگار ہوں میں پر : تحریر محمد اظہر حفیظ


دین کی تعلیم حافظ محمد بشیر رحمت اللہ علیہ اور والدہ محترمہ سے حاصل کرنا شروع کی۔ جامع مسجد پھرالہ کے امام مسجد حافظ محمد بشیر رحمت اللہ علیہ آپا جی حفیظ صاحبہ جو ہماری امی جی کی بہنوں کی طرح تھیں کے والد صاحب تھے۔ میں نے اپنی ابتک کی دنیا میں پہلی غیر متنازعہ دینی شخصیت دیکھی ۔ رات کو سونے سے پہلے امی جی پہلے چھ کلمے یاد کرواتیں پھر نماز کی باری آتی اور پھر کچھ سورتیں سناتے سناتے میں سوجاتا۔ فجر وقت اٹھ کر حافظ صاحب کے پاس سارے گاؤں کے بچے آجاتے حافظ صاحب قرآن مجید پڑھاتے اور ساتھ دعائیں یاد کرواتے ۔ جمعہ والے دن دینی مسائل بیان کرتے اور سکھاتے۔ یوں دن رات دینی علوم سیکھتے گزر جاتے۔ گاؤں کی زندگی بھی آسان تھی اور دین بھی۔
امی جی جب خوشگوار موڈ میں ہوتیں تو پڑھاتیں۔ اللہ ہے بس پیار ہی پیار۔ مجھے یہ حمد بہت اچھی لگتی جب یہ حمد تایا جی کے ٹیلی ویژن پر لگتی میں تو اس پیار میں کھو جاتا اس کو محسوس کرتا۔ میں نے زندگی کے پہلے گیارہ سال بہت آسانی سے گزارے سب سادہ اور آسان تھا۔گاوں میں اللہ سے ہم سب کا تعارف رحمٰن اور رحیم کا تھا ۔ حافظ صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری بخش کا وعدہ لیا ہے اللہ تعالیٰ سے۔
پھر ہم شہر آگئے۔ شہر کی زندگی مشکل اور خوفناک تھی۔ پہلی تقریر جامع مسجد محمدیہ نیو کٹاریاں راولپنڈی میں سنی ۔ بیان ہو رہا تھا اللہ قہار ہے غفار ہے جبروت ہے۔ بیان ہو رہا تھا کہ دوزخ کی آگ کیسی ہوگی ،دوزخ کا ایک دن دنیا کے کتنے ہزار سال کے برابر ہوگا، دوزخ کی آگ سورج کی آگ سے زیادہ گرم ہوگی۔ جسم کیسے جلے گا۔ کھال کیسے اترے گی۔ دھرے کیسے ہوں گے بلکل آگ میں سرخ اور جب وہ ہمارے جسم سے ٹکرائیں گے تو کیا ہوگا۔ جان کیسے نکلے گی جیسے کانٹوں پر سے ایک باریک ڈوپٹے کو کھینچو اور ڈوپٹہ لیر و لیر ہوجاتا ہے۔ میرا دل کررہا تھا مسجد سے بھاگ کر گاؤں واپس اپنے رحمٰن اور رحیم رب کے پاس چلا جاوں۔
مجھے یہ سمجھ آئی کہ گاؤں میں میں معصوم تھا بچہ تھا اب مجھے بتایا جارہا تھا کہ میں گنہگار ہوگیا ہوں۔ مجھے شہر آئے 43 سال ہوگئے ہیں اور میں سب کو یقین دلوا رہا ہوں کہ چلو ٹھیک ہے میں گنہگار ہوں پر کافر نہیں ہوں۔ کافر کا فتویٰ ہر گلی محلے میں مفت مل جاتا ہے ۔
سوچا تھا جنت الفردوس میں جائیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت میں رہیں گے ۔ دودھ اور شہد کی نہریں ہوں گی پر شہر میں تو شاید سب ہی دوزخ میں جائیں گے۔ جنت کا متمنی تو کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ صبح واک کرنے پارک کی بجائے قبرستان چلا گیا۔ والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ ، دوست احباب کی قبروں پر بھی دعا کی۔ بڑی پُرسکون جگہ تھی۔ ان سب کیلئے کامل مغفرت کی دعا کرتا رہا ۔ میرا اللہ واحد لاشریک ہے ۔ جو اچھے گمان کو بھی عبادت میں شمار کرتا ہے۔ میرا یقین ہے ہم سب کا حساب یوم حساب والے دن ہوگا۔ اور اس پر کوئی شک نہیں ہے۔
ہر دور میں فرعون اور یزید آتے ہیں پر مجھے دکھ ہے کہ مجھے آج کے دور میں حضرت موسی علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السلام جیسے بڑے اور عظیم انسان نظر نہیں آتے۔ جو ان فرعونوں اور یزیدوں کا مقابلہ کرسکیں۔ شہر اور خاص طور پر شہر اسلام آباد میں جس بندے کو دیکھو اس کی فرعونیت باہر آجاتی ہے۔ ہر دوسرا شخص نعوذباللہ اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے۔ یہ تو یوم حساب والے دن پتہ چلے گا جب میرا اللہ ہوگا اور اس کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے یہ خود ساختہ خدا ہونگے۔ میرے اللہ ہی جانتے ہیں ان سب کا ٹھکانہ کہاں ہوگا۔
ہم سب مسلمان جنت الفردوس میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوں گے انشاء اللہ
دلوں اور نیتوں کے حال صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور کوئی نہیں۔ اس کو ہی پتہ ہے مومن کون ہے اور کافر کون۔ آپ فیصلہ سنانے سے گریز کیجئے۔ رب کے کام رب جانے اور آپ یہ فیصلے نہیں کرسکتے۔ نہ آپکو اس کا ادراک ہے۔
کسی کو بھی کافر ڈکلیئر کرنے سے پہلے یوم حساب کا انتظار کیجئے بے شک اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ، سزا دینے والے اور معاف کرنے والے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا