میں جانتا ہوں وہ جو لکھیں گے جواب میں : تحریر کشور ناہید


ہمارے اردو کے شاعرجاوید اختر کی والدہ صفیہ اپنے شوہر کو خط لکھا کرتی تھیں۔ وہ خطوط، ان کی وفات کے بعد، شوہر نے شائع کرا دیئے۔ شاید یہ سوچ کر کہ مجھے دیکھو کتنا چاہتی تھی اور وہ بات نہیں بڑھانی کہ پھر دور تلک جاتی ہے۔ جسٹس حضرات اور چیف جسٹس بھی خطوں کے ذریعے کہہ رہے ہیں ’’اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت‘‘ یہ بھی ان حالات میں ہو رہا ہے کہ گزشتہ 15دن سے مکران سمیت بلوچستان کا آدھا حصہ بند ہے کہ بارش کے باعث کبھی پُل ٹوٹ جاتا ہے کبھی سڑک۔ کالم شروع کیا تھا کہ میرے سامنے پنجگور میں سات سوئے ہو ئے مزدوروں کو گولی مار دی گئی کہ وہ پنجابی تھے۔ ان کے نوجوان چہروں کو دیکھ کر اور بھی رونا آیا کہ اپنی شادی کیلئے پیسے جمع کر رہے تھے۔ سارے مزدور کام کی تلاش میں وہاں گئے تھے۔ بلوچستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا ہے۔ تربت کی خاتون نے سرکار کی تیار کی ہوئی پریس کانفرنس میں بتایا کہ اسے پہاڑوں پر اغوا کر کے لے جایا گیا تھا کہ خود کش بمبار بننا سکھایا جائے۔ مجھے وہ خود کش بمبار عورت یاد آگئی،جس نے برقع اوڑھےکراچی یونیورسٹی میں چینی طلبا اور اساتذہ کی بس سے ٹکرا کر خود کو اڑا لیا تھا۔ اس کے اپنے دو بچے بلوچستان میں گھر پر تھے۔ حالیہ خاتون نے بھاگنے کا کیسے انتظام کیا۔ یہ پردے ہی میں رہنے دیں مگر پولیس کے جو لوگ اس کےساتھ بیٹھے تھے وہ بھی اس اڈے کا جاکر پتہ کرلیں اور شاید یوں ہمارے نصیب میں کچھ دن کو سکون آسکے۔ بلوچستان کی حکومت بہت سکون کے ڈنڈے برساتی رہے مگر واقعہ یہ ہے کہ اغوا کے علاوہ خواتین کے ذریعے خود کش حملوں میں اضافہ اور شدت پسندی اتنی بڑھی ہے کہ خود بلوچی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے صوبے کو تو ایک کالونی کی طرح چلایا جا رہا ہے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کی سربراہ ماہل بلوچ نے بیان کیا ہے کہ ایف سی کیمپ میں بلوچ نہیں، ہزارہ برادری والوں کی مسخ شدہ لاشیں کہ جن کی آنکھیں تک نکالی گئی ہیں۔ ساحلی علاقوں پر قبائلی سرداروں کا غلبہ ہے۔ مکران جس کی سرحد زیادہ ایران سے ملحق ہے۔ مکران کے ساحل بیلہ کیمپ پہ گزشتہ برس 170حملے ہوئے151شہری اور114سیکورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ 1970ء سے بارہا کہا گیا کہ بندوق کے ذریعے بات نہ بڑھائیں، آزادی کا مطالبہ کرنیوالوں سے ملاقات اور ان کی شکایتیں ختم کر کے، پورے صوبے میں بلوچ اہل کار لگائے جائیں، ایسے اقدامات جن سے عوام کو فائدہ ہو۔ پھر وہ نمبر گیم جو کبھی لکی مروت، بنوں اور باجوڑ میں فوج سے بندوق زنی چلتی ہے اور یہاں داعش کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ سرداری نظام کو ختم کرنے کی کوشش بیکار ہے، ویسے بھی حکومت انہیں ہی استعمال کر کے، نوجوانوں کو آگے نہیں آنے دیتی۔ علاقائی لڑائیاں اور تضاد پھیلتے پھیلتے اب یونیورسٹیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی میں پنجابی اور پٹھان طالب علموں کی لڑائی اس قدر بڑھی کہ کئی بچے زخمی ہوئے اور پولیس نے بڑی مشکل سے حالات سنبھالے مگر یہ بے چینی کبھی بہاولپور یونیورسٹی میں کبھی کراچی اور کبھی پشاور یونیورسٹی میں معمول بن گئی ہے۔ ابھی ہم کچھ پڑھے لکھے بزرگ، حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ اسٹوڈنٹ یونینز بحال کی جائیں۔ مگر ہر یونیورسٹی میں بغض کا ماحول بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ویسے ان سارے محرکات کے پیچھے سچ سمجھئے کہ حکومت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لوگوں کو جائز شکایت ہے کہ بیرونی قرضے لے کر اپنی بڑائی اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ غربت کم ہو جائیگی، ہمیں خبر ہے کہ ڈالر اوپر سے اوپر جائیگا۔ برآمدات کے مقابلے درآمدات اس لئے بڑھ رہی ہیں کہ آپ نے اعلان کردیا ہے،درآمدات پر کوئی پابندی نہیں تو ذرا بڑی دکانوں میں 600ڈالر کا جوتا بک رہا ہے مالک مکان ڈالروں میں کرایہ وصول کر رہے ہیں۔ غالب کی طرح ’’دل کورؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ ٹوتھ پیسٹ سے لیکر صابن اور ڈرنکس کی بوتلوں تک کو ایسی ڈائٹنگ سکھائی گئی ہے کہ وہ اعلان اشتہار میں کہتا ہے کہ دس روپے کم، بیس روپے کم۔ یہ سب آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ بقول اجمل سراج (مرحوم)

سن یہ رونا نہیں گرانی کا

یہ تو بے قیمتی کا رونا ہے

ملک کے اندر کی تیرگی اور زبوں حالی کے بعد، فلسطین کے خونیں مسئلے پر، صدر امریکہ کہتے ہیں کہ میں نیتن یاہو سے بات کروں گا۔ اور ساتھ ہی بے شمار اسلحہ صیہونیوں کو مسلسل فراہم کئے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کا حل دو ریاستی تقسیم ہونا ہے۔ جبکہ اسماعیل ہنیہ کو مروانے والے اور حسن نصراللہ کو جس طرح مروایا اور اب مسلسل اس کی فوجیں یمن، لبنان تک تو پہنچ چکی ہیں۔ کسی پر اس مسلسل قتل عام کا کوئی اثر نہیں۔ ساری اقوام کو اقوامِ متحدہ کے کردار پہ اعتبار نہیں رہا۔ اس کا اسٹرکچر بدلنا پڑئیگا کہ جیسے ہماری اعلیٰ عدلیہ میں جو ہو رہا ہے کہ بینچ میں پانچ نام ہیں۔ ایک ناراض یا بیمار بن کر نہ شامل ہونے کا خط لکھ دے بس کافی ہے خلل ڈالنے کیلئے۔ ویسے کوئی تو الیکشن کمیشن کو پکڑے، دس ماہ سے منتخب لوگوں کو نہ بیٹھنے دے رہے ہیں نہ جلوس نکالنے دے رہے ہیں۔ حکومت وقت، پھر ہم سب لوگ یہ سمجھنے پہ مجبور ہیں کہ اب جب چیف صاحب تاجروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت تو کار بے مصرف ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم صاحب سادگی کے نعرے کے ساتھ، سارے وزیروں کیلئے نئی گاڑیاں خریدنے کا اعلان بڑے فخریہ انداز میں کر رہے ہیں۔ جبکہ آدھے محکمے بند کرنے کے سبق ان بچارے کلرکوں کے دلوں پر آری چلاتے ہیں۔ اب تو پنجاب والے بھی گاڑیاں ہی گاڑیاں منگوا رہے ہیں۔

وہ جو نیا شوشہ وزیرقانون نے شعلے کی طرح اٹھایا، اُلٹا پڑتے دیکھ کر کہا کہ ’’رات گئی بات گئی ‘‘ ۔ مگر پیپلز پارٹی کو دلچسپی ہے تو آئینی اصلاحات سے۔ جہاں ہزاروں مقدمے برسوں سے طے نہیں کئے گئے۔ پہلے انہیں ختم کرنے کی سبیل کریں۔ ساری دنیا کی مثالیں ہمارے بلاول میاں دے رہے ہیں یہ بھی تو دیکھیں کہ کسی اور ملک میں اتنے نسل در نسل مقدمے چلتے ہیں۔ ساتھ میں سینے پہ پتھر رکھ کر قیدی 804اور اسکے دیگر اراکین کا مقدمہ ختم کریں ورنہ فیض حمید کی طرح لٹکانے سے کسی کو فائدہ نہیں ہو گا، یہی کہتے رہیں گے کہ یہ وقت ہےکہ ملک کو ٹھیک کیا جائے۔ ادھر گستاخی ِرسالت کے مقدمات اور خوں بہا دینے کے بہانے کا کم سے کم استعمال اور سماجی انصاف کیلئے پارلیمنٹ اور عدلیہ کو محنت کرنا ہو گی، ورنہ دشمنوں کی کوئی کمی نہیں۔ ملک کی سلامتی سب سے افضل ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ