وزیرِاعظم پاکستان جناب شہبازشریف نے 27ستمبر کو اَقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا جس سے اہلِ پاکستان کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ اُنہوں نے غزہ اور لبنان میں اسرائیلیوں کے مظالم کی دل دہلا دینے والی تصویر پیش کی اور عالمی برادری کے سربراہوں پر زور دِیا کہ محض بیانات جاری کرنے کے بجائے فلسطین اور کشمیر کے مسائل کا پُرامن حل تلاش کرنے کیلئے عملی اقدامات کریں۔ وہ اِس عزم کا بھی بڑی جرأت سے اظہار کر رہے تھے کہ اگر بھارت نے آزادکشمیر کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا، تواُس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اُن کی تقریر میں ایمان کی حرارت اور دَلائل کی کمال پختگی تھی۔
امریکہ سے واپسی پر وہ لندن رکے اور تارکینِ وطن نے اُنہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا، مگر اُس موقع پر جناب وزیرِاعظم نے ایک ایسا لفظ استعمال کیا جو خنجر کی طرح میرے سینے میں پیوست ہو گیا۔ وہ لفظ تھا ’بربریت‘ جو اہلِ یورپ نے اُن بربر قبائل پر چسپاں کر دیا تھا جنہوں نے طارق بن زیاد کی سربراہی میں اسپین فتح کیا تھا۔ بدقسمتی سے بلاتحقیق یہ لفظ مسلمانوں میں بھی استعمال ہونے لگا اور اِنہی دنوں مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں اسرائیلی مظالم کی شدت واضح کرنے کیلئے بربریت کے لفظ کا سہارا لیا ہے۔
راقم الحروف نے ایک ادنیٰ طالبِ علم کی حیثیت سے اپنے ہم وطنوں پر اِس لفظ کی حقیقت واضح کرنے کیلئے روزنامہ جنگ میں 4ستمبر 2020 اور 21مئی 2021 کو دو کالم لکھے۔ اُن کی مختصر روداد یہ ہے:
مَیں نے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری سے رابطہ قائم کیا جو عربی ادب کے علاوہ یورپ کی مختلف زبانوں کے مزاج کا گہرا علم رکھتے ہیں۔ اُن کے ساتھ تبادلہ خیال سے حیرت انگیز معلومات کا ایک دبستاں کھلتا گیا۔ دراصل یونانی زبان میں Barbarianکا لفظ اُن تمام غیرملکیوں کیلئے استعمال ہوتا رہا جو غیرعیسائی تھے۔ آگے چل کر بربر قبائل بھی اُن کا ہدف بنے جو یورپ کی ایک وسیع و عریض مسلم سلطنت کے صدیوں سے محافظ تھے۔ عیسائیوں کی یہ کوشش تھی کہ مسلمان یورپ میں داخل نہ ہونے پائیں ، مگر 91 ہجری کے لگ بھگ ایک طرف محمد بن قاسم قزاقوں کی سرکوبی کیلئے ہندوستان بھیجے گئے اور دُوسری طرف طارق بن زیاد نے بحرِقلزم کا رخ کیا۔
طارق بن زیاد اَپنے لشکر کے ساتھ مراکش کے شمال میں اُس مقام پر پہنچے جہاں ہسپانیہ کی سرزمین صرف نو میل کے فاصلے پر تھی۔ اُن کی فوج میں بربر بڑی تعداد میں تھے۔ یہ راقم کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اُسے وہ تاریخی مقام دیکھنے کا موقع ملا۔ مَیں لندن میں مقیم تھا کہ یہ اعلان ہوا کہ عرب لیگ کا ایک اہم سربراہ اِجلاس مراکش میں منعقد ہو رہا ہے۔ جناب الطاف گوہر کی معاونت سے مَیں رباط آیا اور رَات بھر سفر کر کے اُس جگہ پہنچ گیا جہاں عرب لیگ کا اجلاس ہو رہا تھا۔ اختتام کے بعد منتظمین نے بتایا کہ یہ وہی مقام ہے جہاں سے طارق بن زیاد نے بحرِقلزم عبور کیا تھا اور وَہاں خشکی پر اُتر کر اَپنی کشتیاں جلا ڈالی تھیں اور فوج سے ایک اثرآفریں خطاب کیا تھا ’’اگر تم ذرا صبر اور ہمت سے کام لو، تو تمہاری نسلیں صدیوں تک اِس علاقے میں اسلام کی تہذیبی عظمت کی محافظ ہوں گی۔‘‘ طارق بن زیاد نے اسپین فتح کر لیا اور مسلمانوں نے ہسپانیہ کو علم و فضل اور علوم و فنون کا گہوارا اُس وقت بنایا جب پورا یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
بربر قبائل حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، تو اُن کی زندگیوں میں زبردست انقلاب پیدا ہوا۔ امام غزالیؒ کا تعلق بربر قبیلے ہی سے تھا۔ اُنہوں نے انسانی تہذیب میں جو قابلِ رشک اضافہ کیا ہے، اُس کا اعتراف مغربی اسکالر بھی کرتے ہیں۔ اِسی طرح ابنِ خلدون بھی بربر تھے جو فلسفہ اور تاریخ کے امام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ دنیا کے بہترین جرنیل یوسف بن تاشفین کا تعلق بھی بربر قبیلے سے تھا۔ اندلس کے حکمران جن پر یورپ کے عیسائی چڑھائی کرتے رہتے تھے، وہ یوسف بن تاشفین کو مددکیلئے پکارتے اور وُہ لشکر کے ساتھ آتے اور عیسائیوں کی خوب خبر لیتے۔ اُن کی سرفروشی اور مردانگی سے خائف ہو کر عیسائی مصنّفین نے Barbarian لفظ کا اطلاق بربر قبیلے پر پورے شدومد سے کیا۔ یہ لفظ یونانی سے اطالوی اور اَنگریزی زبانوں میں منتقل ہوا جس کے بعد اُردو زبان میں ’بربریت‘ کا لفظ کثرت سے استعمال ہونے لگا۔یہ خلاصہ اِس لیے پیش کیا گیا ہے کہ ہر قاری یہ پیغام دوسروں تک پہنچائے اور یہ ایک قومی اور ملّی مہم کی شکل اختیار کر جائے۔ بلاشبہ ’بربریت‘ کا استعمال ایک مدت سے جاری ہے اور یہ ہماری گفتگو اور تحریر کا حصّہ بنا ہوا ہے، مگر اسلام اور مسلمانوں سے گہرے تعلق کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ اِس لفظ کا بائیکاٹ کریں، بربر قبائل کی عظمتوں کے ترانے گائیں اور عام لوگوں کو بھی اسلامی تاریخ کی رفعتوں سے پوری طرح آگاہی دیتے رہیں۔
حال ہی میں حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ ایف بی آر نے ٹیکس نادہندگان کے بارے میں مستند معلومات حاصل کر لی ہیں اور اُن کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ یکم اکتوبر کو صبح سویرے میرے ٹیلیفون پر ایک میسج آیا کہ تمہارا اَے ٹی ایم اسٹیٹ بینک نے بلاک کر دیا ہے۔ پہلے تو اسٹیٹ بینک کا نام پڑھ کر بڑی تشویش ہوئی، مگر پھر یاد آیا کہ مَیں نے تو اے ٹی ایم بنوایا ہی نہیں۔ یہ سلوک ہماری ریاست کا اپنے سینئر ترین صحافی کے ساتھ روا رَکھا جا رہا ہے جس کی اُسے دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے متعلقہ ادارے یہ کارکردگی دکھا رہے ہیں، تو اِسے کم از کم ’مایوس کن‘ کہا جا سکتا ہے۔ اِس نوع کی شکایات کا تانتا بندھا ہوا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس بدحواسی اور ماراماری سے عوام کے اندر شدید افراتفری جنم لے گی جو معاملات میں خوفناک بگاڑ پیدا کرے گی۔ قومی قیادت کو اِس طرف کامل سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔ اب تو عالم یہ بنتا جا رہا ہے ؎
دریا کو اَپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
بشکریہ روزنامہ جنگ