خیبر پختونخوا میں اضطراب کیوں ہے؟ : تحریر محمود شام


سندھ نے پاکستان کے قیام پھر انسانی حقوق کے تحفظ ۔ آئین کی تخلیق۔ جمہوریت کے قیام اور بحالی کیلئے جانی مالی قربانیاں بے حساب دی ہیں۔ مہاجروں کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی اور جذبۂ انصار کا مظاہرہ بھی سندھ نے 1947میں کیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے تین وزرائے اعظم خان لیاقت علی خان۔ ذوالفقار علی بھٹو ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے عوامی حکمرانی کیلئے اپنی جان بھی پیش کردی۔ لیکن سندھ کے دیہی اور شہری عوام کو ان قربانیوں اور جدو جہد سے کتنی راحتیں حاصل ہوئی ہیں۔

اب خیبر پختونخوا۔ شہری حقوق کیلئے سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ 1979میں روسی فوج کی افغانستان پر یلغار کے بعد سے خیبر پختونخوا( سابق سرحد) کے عوام ہی قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں جب دنیا بھر سے جہادی تنظیموں کے قائدین پشاور میں جمع کیے گئے۔ اس کے بعد سے سرحد کے عوام ہی دہشت گردی۔ بم دھماکوں۔ خونریزی کا مقابلہ کررہے ہیں۔ آفریں ہے پشاور ۔ ڈیرہ اسماعیل خان۔ مردان۔ کوہاٹ۔ بنوں۔ سابق فاٹا کے اضلاع کے بھائیوں۔ بہنوں۔ بزرگوں۔ ماؤں۔ بیٹوں بیٹیوں کو۔ کہ وہ دہشت گردوں کی پیشقدمی اپنے سینوں پر روکتے رہے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک اس صوبے کا کوئی نام ہی نہیں تھا۔ این ۔ڈبلیو۔ ایف۔ پی نارتھ ویسٹرن فرنٹیئر پرونس۔ شمالی مغربی سرحدی صوبہ 1969 میں کراچی میں خان عبدالولی خان نے ’اخبار جہاں‘ سے انٹرویو میں کہا تھا۔ ’ ہم صرف صوبہ سرحد کا نام بدل کر پختونستان کا نام رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کا وہاں کے عوام کو حق بھی حاصل ہے۔ جس طرح منٹگمری کے عوام نے اپنے ضلع کو ساہیوال کہنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ریکارڈ پر یہ بات موجود ہے۔ خان عبدالغفار خان نے اس کا مطالبہ کیا تھا۔ سب نے اس سے اتفاق کیا تھا۔ خود قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی۔ اس کے بعد اسے متنازع بنانے کا کوئی جواز نہ تھا۔(روبرو۔ صفحات137-136)

اس بچے کا نام رکھنے میں ہم نے کتنے سال لگادیے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے بنیادی مسائل حل کرنے میں کتنی تاخیر کرتے ہیں۔ انتظامی طور پر نئے صوبے بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر اسے بھی ملکی سلامتی کا مسئلہ بنادیا گیا ہے۔

اب کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف کو دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہے۔ اس جماعت کا یہ تیسرا دَور ہے۔ پہلے پرویز خٹک۔ پھر محمود خان۔ اور اب علی امین گنڈا پور۔ لیکن ان تینوں ادوار میں صدیوں سے بر صغیر پر حملہ آوروں کو روکنے والے صوبے کے انسانوں کی زندگی کتنی آسان کی گئی ہے۔ میں لمحۂ موجود کو ہمیشہ گزشتہ کئی دہائیوں کی حکمرانی۔ تعلیم۔ تربیت۔ معیشت۔ زراعت میں کی گئی کوششوں کا تاریخی اور منطقی نتیجہ قرار دیتا ہوں۔ کاش پاکستان کو بھی کوئی ٹائن بی ۔ ابن خلدون میسر آجائے۔ شہید پاکستان حکیم محمد سعید نے تاریخ کا شعبہ سنبھالنے کی کوشش کی۔ اب بھی سالانہ تاریخ کانفرنس ہمدرد کا ادارہ ہی منعقد کررہا ہے۔مدینۃ الحکمت۔ تاریخ کا جریدہ بھی شائع کرتا ہے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ انہوں نے شمال مغربی سرحدی صوبے اب خیبر پختونخوا کے شہریوں کے سماجی رویوں معاشرت۔ تعلیم اور خاص طور پر 1979 سے لے کر اب تک کے نفسیاتی اثرات پر کوئی تحقیق کروائی ہے یا نہیں۔

ہم بہت آسانی سے اور عجلت سے اپنے ٹاک شوز میں کالموں میں 77سال کے المیوں۔ پسماندگی کی ساری ذمہ داری فوجی اور سیاسی قیادتوں پر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا۔ کیا کبھی سنجیدگی سے تجزیہ کرتے ہیں کہ ان 77برس میں ہمارے صنعتکاروں ۔ تاجروں نے اپنے فرائض۔ صحیح طرح انجام دیے۔ کیا ہمارے دینی علما اور تعلیمی اسکالرز کا کردار وہ تھا۔ جو ایک نو آزاد اور ترقی پذیر ممالک میں ہونا چاہئے۔ یونیورسٹیاں سرکاری اور غیر سرکاری اس عرصے میں بہت کھلیں۔ پی ایچ ڈی بڑی تعداد میں پیدا کیے گئے۔ کیا انہو ںنے اس عظیم مملکت کو آگے لے جانے میں اپنا منصب ادا کیا۔

یہ جو مناظر ہم یو ٹیوب چینلوں میں اور کبھی کبھی ٹی وی چینلوں پر کے پی کے کے دیکھتے ہیں۔ جلسے جلوس۔ ریلیاں۔ اسمبلیوں میں دھواں دھار تقریریں اور ہم بہت تسلی سے انہیں سیاسی کہہ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں۔ کیا ہمارا یہ رویہ ذمہ دارانہ ہے۔ 1971کے سانحۂ مشرقی پاکستان کا ہم سب ہی تحریروں تقریروں میں حوالہ دیتے ہیں۔ ججوں کی باہمی محاذ آرائی میں بھی ذکر آرہا ہے۔ لیکن کیا ہم غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتے ہوئے ان واقعات کے اسباب تک پہنچتے ہیں۔ بلوچستان ہو۔ سندھ۔ پنجاب یا کے پی کے۔ گلگت بلتستان۔ آزاد جموں و کشمیر۔ یہاں سب انسان بستے ہیں جو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں۔ بطور انسان۔ ہم صحافیوں۔ میڈیا کارکنوں۔ صنعت کاروں۔ تاجروں۔ ماہرین معیشت۔ وائس چانسلروں۔ پروفیسروں۔ محققین کا فرض ہے کہ ہم شخصیتوں کی بجائے رجحانات کا تعین کریں۔ ان پالیسیوں کا جائزہ لیں۔ جو ان نا انصافیوں کا محرّک بنتی ہیں۔ پھر لوگ ان نا انصافیوں کے خلاف سڑک پر آنے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں۔کیا ہمیں یہ سوچنا نہیں چاہئے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے۔ پارلیمنٹ ہے۔ عدالتیں ہیں۔ پھر بھی لوگ مسائل حل کروانے کیلئے بڑے بڑے جلوس نکال رہے ہیں۔ ایک مقبول پارٹی کا لیڈر بے شُمار مقدمات کا سامنا کررہا ہے۔ اس کی بیگم بھی جیل میں ہے۔ ذیلی عدالتیں۔ اعلیٰ عدالتیں۔ بھی فیصلہ نہیں کر پارہی ہیں۔

ہم معاملات کو شخصیات تک محدود کرلیتے ہیں۔ ایک حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ اس شخصیت کو جیل میں رکھنا ہی ملکی مسائل کا حل ہے۔ دوسرا بڑا طبقہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس شخصیت کی رہائی سے ہی ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔

دونوں کی طرف سے اس ضد میں ملک اور خاص طور پر کے پی کے۔ یرغمال بنا ہوا ہے۔ پہلے بھی تاریخ میں ایسی صورت حال کا سامنا رہا ہے۔ ان ایّام سے ہم سبق حاصل کرلیں کہ کیا اس وقت کی ضد نے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے تھے۔

کے پی کے ہماری توجہ کا حقدار ہے۔ کے پی کے کی اپنی یونیورسٹیاں۔ تحقیق کریں۔ وہاں کے انسانی رویوں کی تشخیص کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر ان کے مطالبات جائز ہیں۔ ان کے پورے کرنے سے ہی ملک آگے بڑھے گا ۔ شمالی علاقے جو اپنے حسن فطرت کیلئے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ وہاں سیاحت کے کیا امکانات ہیں۔1979سے اب تک ایک طویل عرصہ ہے۔ جس میں دہشت گردی کی بڑی بڑی وارداتیں ہوئی ہیں۔ ان 45برسوں میں جتنی نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔

ملک اب استحکام چاہتا ہے۔ استحکام کیلئے ایک سسٹم ضروری ہے۔ سسٹم کو برقرار رکھنے کیلئے ہم سب کو اداروں کو اپنا فرض اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ