اسلام آباد(صباح نیوز) سٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی میں تیز رفتار تبدیلی نے نہ صرف بینکوں کو جدت طراز مالی سہولتیں صارفین کو فراہم کرنے کے قابل بنایا ہے بلکہ ضابطہ ساز ادارے بھی جدید ترین ڈیٹا جمع اور پراسیس کر کے موثر طریقے اور کارگزاری سے تعمیل کو یقینی بنانے کے قابل ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار تیرہویں بینک آف دی فیوچر فورم سے اہم خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا موضوع بینکاری کا مستقبل تھا۔ تقریب کا انعقاد سسٹمز لمیٹڈ نے کیا تھا جس میں ممتاز شخصیات، صنعت سے وابستہ نمایاں افراد اور فِن ٹیک ماہرین نے پاکستان اور عالمی سطح پر بینکاری کے شعبے کے ارتقا پذیر منظرنامے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ گورنر کی تقریر میں متعدد موضوعات شامل تھے۔
انہوں نے بینکاری شعبے میں جدت طرازی اور ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دینے کے اسٹیٹ بینک کے عزم کو اجاگر کیا، جس سے پاکستان میں متحرک مالی شعبے کے لیے راہ ہموار ہو گی۔گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی ڈیجیٹل تبدیلی کا آغاز 2002 میں ہوا جب اس نے Temenos بینکنگ سسٹم اور نان بینکنگ لین دین کے لیے ای آر پی سسٹم نافذ کیا،جبکہ ڈیٹا سے متعلق بڑی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ڈیٹا ویئرہاوس بنایا۔ اسٹیٹ بینک نے 2008 میں ریئل ٹائم گراس سیٹلمنٹ سسٹم جسے پرزم کہا جاتا ہے نافذ کیا جو بڑے پیمانے پر، بڑی مالیت کی ادارہ جاتی ادائیگیوں کو پراسیس کرتا ہے۔ حال ہی میں اسٹیٹ بینک نے اپنا جدید ترین Tier-3ڈیٹا سنٹر بنایا ہے جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا اولین سنٹر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے 2008 میں برانچ لیس بینکاری سہولتوں کے ضوابط جاری کیے تاکہ خردہ فروشوں اور کریانہ دکانوں سے بینکاری کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔اس اقدام سے یونیک بینک اکانٹس کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 2024 میں بڑھ کر بالغ آبادی کے 64 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ 2018 میں یہ تعداد 16فیصد تھی ۔انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے پاکستان میں ڈجیٹل بینک قائم کرنے کا فریم ورک جاری کیا تاکہ آئی ٹی سے متعلق، نان بینکنگ اداروں کو مالی خدمات کی صنعت میں داخل ہونے کی مزید سہولت دی جائے۔ چنانچہ پانچ درخواست گذاروں کو اصولی منظوری دی گئی ہے جو ملک میں پائلٹ آپریشن جلد ہی شروع کرنے والے ہیں۔گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے اسٹیٹ آف دی آرٹ آئی ایس او 2022 ادائیگی کے معیارات نافذ کر کے بین الاقوامی رجحانات کے مطابق اپنی خردہ ادائیگی کی صنعت کو یکسر تبدیل کرنے پر کام شروع کیا۔ فوری ادائیگی کا ہمارا ملکی نظام راست2021 میں شروع کیا گیا جو آئی ایس او 2022 معیارات پر مبنی ہے۔ تقریبا تین سال کی قلیل مدت میں یہ نظام 19 ٹریلین روپے سے زائد مالیت کی اندازا 850 ملین ٹرانزیکشن پراسیس کرچکا ہے۔اس وقت راست کی 38 ملین یونیک آئی ڈی ہیں اور یہ یومیہ اوسطا 2.5 ملین ٹرانزیکشن پراسیس کرتا ہے۔ گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک راست کو عرب مانیٹری فنڈ کے فوری ادائیگی کے سسٹم بونا کے ساتھ مربوط کرنے پر بھی کام کررہا ہے تاکہ عرب ممالک میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو آسانی اور سہولت سے اپنی ترسیلات پاکستان بھیجنے میں مدد دی جائے۔
گورنر نے حاضرین کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی کوششوں کے نتیجے میں آج پاکستان میں 59 ملین برانچ لیس بینکاری والٹ، 19 ملین موبائل بینکنگ ایپس، مزید 3.7 ملین ای-منی والٹ، اور انٹرنیٹ بینکنگ استعمال کرنے والے 112 ملین صارفین ہیں ۔ڈجیٹل طریقے سے پراسیس ہونے والی خردہ ٹرانزیکشن کی مجموعی تعداد 2020 سے اب تک 30 فیصد بڑھ چکی ہے اور مجموعی خردہ ٹرانزیکشن میں ڈجیٹل ادائیگیوں کا جو تناسب مالی سال 23 میں 76 فیصد تھا وہ مالی سال 24 میں بڑھ کر 84 فیصد ہو چکا ہے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ بینکاری کے ذریعے پراسیس ہونے والی ٹرانزیکشن کی سالانہ تعداد بالترتیب 70 فیصد اور 30 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کیونکہ ہماری آبادی میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جو موبائل ایپ استعمال کرنے میں ماہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک متحرک فِن ٹیک سیکٹر کی آمد حوصلہ افزا ہے۔ یہ فن ٹیک کمپنیاں نئی مارکیٹوں اور یوز کیسز کی تلاش کے لیے سخت محنت کر رہی ہیں۔ انہوں نے آئی ٹی سیکٹر کو ترغیب دلائی کہ وہ تبدیلی کے اس عمل میں کلیدی کردار ادا کرے