(گزشتہ سے پیوستہ)
لندن اور چند دیگر شہروں میں جہاں جہاں جانا ہوا ’’عمرانی رومانس‘‘پوری آب و تاب سے نظر آیا، ایسا نہیں کہ اس سے اختلاف کرنےوالے موجود نہیں تھے مگر ٹیکسی سے لیکر ٹرین ہو یا راہ چلتے پاکستانیوں کے مجھ سے سوالات ہوں اس کا محور یہی تھا ’’مظہر صاحب، پاکستان میں کیا ہو رہا ہے‘‘ یا ’’عمران کا کیا بنے گا‘‘۔ یہ اندازہ لگانا تو غلط نہیں کہ آج بھی ڈیجیٹل میڈیا کی اس دوڑکے باوجود بہرحال ٹی وی دیکھا جا رہا ہے۔ جن جن ریسٹورنٹس میں جانے کا اتفاق ہوا جو بھی پاکستانی فیملی دیکھ کر پہچان جاتی وہ یہی سوال کرتی۔ ایسا ہی کچھ ان دو پروگراموں میں ہوا جن میں مجھے تقریر کرنی تھی ایک ساؤتھ ایشین لٹریچر فیسٹیول اور دوسرا سیمینار’ جمہوریت اور پاکستان، ماضی، حال اور مستقبل‘ حالانکہ وہاں بائیں بازو کے اور دیگر جماعتوں کے بھی دوستوں سے ملاقاتیں رہیں مگر وہ خود بھی مانتے ہیں کہ ایک واضح اکثریت ابھی تک اس رومانس میں مبتلا ہے۔ البتہ ایک چیز جو دونوں ممالک میں پاکستان تحریک انصاف میں یکساں نظر آئی وہ ان کے اندرونی اختلافات ہیں یہاں تک کہ پی ٹی آئی لندن کو تو یہ بھی شکایت ہے کہ پاکستان والے یہاں آتے ہیں ہم فنڈنگ بھی کرتے ہیں مگر اس طرح کی پارٹی سپورٹ نہیں ملتی۔
کانفرنس اور سیمینار میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی سوالات ہوئے میں نے اپنے تئیں پاکستان کی سیاسی تاریخ ان کے سامنے رکھ دی اس رائے کے ساتھ کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اگر جمہوریت کو صحیح معنوںمیں لاگو کرنا ہے تو ابتدا جماعتوںمیں جمہوریت لانے، برطانیہ کی طرح مضبوط بلدیاتی نظام اور غیر سیاسی قوتوں کا سیاست میں عمل دخل ختم کرنا ہو گا۔ لندن، برمنگھم اور کچھ دیگر علاقوں میں زیادہ تر ایشیائی باشندوں سے ہی ملاقاتیں رہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لندن اب مجھے گوروں کا شہر نہیں لگتا اب رہی سہی کسر بڑی تعداد میں افغانوں کی آمد نے پوری کر دی۔ اس معاملے میں پاکستانیوں اور افغانیوں میں کشیدگی بھی نظر آئی اب آگے جا کر یہ کیا گل کہلاتی ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔
ایک دلچسپ مکالمہ کمیونزم، سوشلزم، صوفی ازم اور انسانیت کے حوالے سے ہوا جس میں ہمارے دوست اور ساتھی دانشور جامی چانڈیو نے انتہائی جامع تقریر کی اس کے بعد میں مزید کیا اضافہ کرتا مگر سوال و جواب کا سیشن خاصی دیر رہا۔ لندن سے باہر آکسفورڈ اور ولیم شیکسپیئر کے جائے پیدائش پر جانے کا تجربہ بھی خوب رہا۔ سچ پوچھیں تو وہاں کے گلی کوچوں اور کئی سو سال پرانی عمارتوں کے درمیان گھومتے ہوئے آپ اس دور میں پہنچ جاتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اپنی تاریخ ہے مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یونیورسٹی کے قیام کے چالیس سال بعد پہلی بار 13اکتوبر 1879ءکو 9 خواتین کو داخلہ ملا اور اس تاریخی واقعہ کو بھی محفوظ کیا گیا۔ اس دروازے سے جہاں سے یہ خواتین داخل ہوتی تھیں پہلی بار ایک بورڈ پر یہ تفصیل لکھی ہوئی ہے۔ ہم آگے گئے تو ایک ہال خصوصی طور پر سابق وزیر اعظم اور آکسفورڈ کی تاریخ کی پہلی پاکستانی خاتون اسٹوڈنٹس یونین کی صدر محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب تھا۔ وہاں ان کا پورٹریٹ اور گروپ فوٹو بھی لگا ہوا تھا معلوم کرنے پر پتا چلا کہ جب محترمہ کی شہادت ہوئی تو وہاں کی انتظامیہ اور یونین نے یہ فیصلہ کیا ۔ اس دوران ادھر ہی ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہم دوستوں نے لنچ کیا۔ کھانا کھانےکے دوران اچانک میری نظر دیوار پر لگی ایک تصویر پر پڑی، قریب جا کر دیکھا تو وہ نوجوان بلاول بھٹو کی اپنے والد صدر آصف علی زرداری کے ساتھ اسی ریسٹورنٹ کی تھی۔ کئی سال پرانی تصویر نظر آ رہی تھی۔ مالک نے بتایا کہ ایک بار دونوں یہاں کھانا کھانے آئے تھے۔ خیر سیلفی تو انہوں نے ہمارے ساتھ بھی بنوائی مگر وہ دیوار پر لگے گی یا نہیں کہہ نہیں سکتے۔
آکسفورڈ میں خبروں میں رہنے والا چانسلر کے الیکشن کا ذکر بھی چل نکلا تو پتا چلا کہ اسی ماہ پہلے یونیورسٹی کی انتظامیہ یہ فیصلہ کرے گی کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان الیکشن لڑنے کے اہل ہیں کے نہیں۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ شائد اس سے پہلے کسی چانسلر کے الیکشن میں اتنی دلچسپی نہیں رہی جتنی خان صاحب کے لڑنے کے فیصلے سے پیدا ہوئی ہے۔ ’’یونیورسٹی انتظامیہ بھی خاص دباؤ میں ہے کیونکہ اہلیت کے حق اور مخالفت میں بڑی تعداد میں ای میل آ رہی ہیں۔ تاہم مقابلہ تو دلچسپ ہو گا‘‘۔ اس الیکشن میں ووٹ دینے اور لڑنے کے حقدار صرف سابق طالب علم ہیں۔ بقول ایک طالب علم کے عمران کے حق میں جو لوگ ہیں وہ اس کے زمانہ طالب علمی، کرکٹ اور کینسر اسپتال کیلئےاس کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہیں۔ سیاسی عمران کا ذکر کم ہوتا ہے جبکہ مخالف عمران کے سیاسی بیانیہ، خواتین اور طالبان کے حوالے سے اس کے موقف کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا۔
شیکسپیئر کے گھر کے سامنے پہنچے تو ذرا دیر ہو چکی تھی اس لیے اندر سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا البتہ تصاویر ضرور بنوائیں۔ ابھی ہم وہاں پہنچے ہی تھے کہ گھر کے قریب ہی کچھ چینی باشندے ٹیبل ٹینس کھیل رہے تھے اب یہ تو پتا نہیں کہ وہ انگریزی زبان کے سب سے بڑے ڈرامہ نویس اور ادیب کو اپنی یعنی چینیوں کی آمدکی اطلاع دے رہے تھے یا کوئی اور پیغام بہرحال ایک گیم تو میں نے بھی کھیلا۔ گھر کے قریب ہی شیکسپیئر کا ایک تاریخی مجسمہ اور اس کے ڈراموں کے کئی کرداروں کے مجسموں کے ساتھ سیلفی بنائی۔ ساتھ ہی ایک خوبصورت نہر نے ماحول کو خاصہ رومانوی کر دیا تھا۔
لندن واپس آئے تو یہ لازمی تھا کہ بی بی سی ہاؤس کا چکر لگایا جائے خیر اب وہ تاریخی ’بش ہاؤس‘ میں تونہیں ہے مگر جب میں اپنے بچپن کے دوست یوسف نظر اور جامعہ کراچی کے ساتھی اور ساؤتھ ایشین لٹریچر فیسٹیول کے روح رواں اکرم قائم خانی کے ہمراہ بی بی سی کے نئے دفتر میں داخل ہوا تو بس سمجھیں سمجھ آ گئی کہ یہ اتنا بڑا اور پروفیشنل ادارہ کیوں ہے۔ بی بی سی کے ہی ہمارے ساتھی جاوید سومرو نے ہمارا استقبال کیا پھر ایک اور ساتھی حسن عسکری بھی ساتھ ہو لئے۔ جاوید کے بقول یہ عمارت سوا ارب پونڈ سے تعمیر ہوئی ہے اور اس وقت تقریباً پانچ ہزار ملازمین ہیں۔ مگر جو چھ منزلہ عمارت میں سب سے خوب صورت اور جاندار چیز نظر آئی وہ نیوز روم تھا۔ ایک پروفیشنل ادارہ کیسا ہونا چاہئے یہ بہت واضح تھا۔ بہرحال برطانیہ میں پاکستانی میڈیا کا کیا حال ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحافی تو بہت ملے مگر حیران کن طور پر کسی بیورو کا آفس جہاں تک پتا چلا، نہیں ہے۔ باقی حال تو جیسا یہاں کا ہے ویسا ہی وہاں کا ہے ہر صحافی برادری نے محبت اور پیار بہت دیا۔ بیورو بھی ہونے چاہئیں اور مستقل نمائندے بھی۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ