بروز ہفتہ ، بتاریخ 28 ستمبر2024، تیسرے پہر جب پی ٹی آئی کے وابستگان اور کارکنان اپنے بانی کے حکم پر راولپنڈی کے عین قلب میں واقع لیاقت باغ چوک میں حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے اکٹھے ہو رہے تھے ، عین اس وقت قومی اور بین الاقوامی سطح پر دو بڑے واقعات و سانحات جنم لے رہے تھے : قومی سطح پر خیبرپختونخوا میں کرم کے علاقے میں دو متحارب و مخالف قبائل ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے ۔
اور بین الاقوامی سطح پر انھی لمحات میں یہ خبر ساری دنیا میں ہلچل مچا رہی تھی کہ بیروت(لبنان) میں صہیونی اور جارح اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ ، شیخ حسن نصراللہ، کو شہید کر ڈالا ہے ۔ ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی، زینب نصراللہ، بھی شہید کر دی گئیں ۔ کرم بارے خونریز خبر تو قومی میڈیا میں بوجوہ خاص جگہ نہ پا سکی تھی ، مگر حسن نصراللہ کی شہادت نے پاکستان سمیت ساری دنیا میں کہرام مچائے رکھا۔ اسرائیل نے جس وحشت و بربریت سے شیخ حسن نصراللہ ، ان کے قریبی عزیزوں اور حزب اللہ کے دیگر کئی اہم لیڈروں کو شہید کیا ہے ، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی اِن سب کی شہادتیں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین ۔
حسن نصراللہ صاحب کی شہادت کے کارن ملک بھر میں افسردگی اور سوگ کی کیفیت تو یقینا ہے ، لیکن اِس المناک خبر کے باوجود وزیر اعلی کے پی ، جناب علی امین گنڈا پور، اپنی پوری سرکاری مشینری اور پارٹی کارکنوں کے ساتھ راولپنڈی آکر احتجاج کرنے پر مصر تھے۔ وہ تو بانی پی ٹی آئی کے حکم پر جلسہ کررہے تھے مگر حکومت کی طرف سے بوجوہ اجازت نہ ملنے پر جلسے سے تو دستکش ہو گئے مگر احتجاج کرنے پر تل گئے۔اِس احتجاج کا مقصدِ وحید یہ قطعی نہیں تھا کہ گنڈا پور صاحب ملک بھر میں پھیلی کمر شکن مہنگائی اور عوام کے حوصلے فنا کرتی مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج کناں ہونا چاہتے ہیں یا اپنے زیر نگیں صوبے میں پریشان کن بد امنی کے خاتمے کے خلاف وفاقی حکومت کے مبینہ عدم تعاون پر غصے کے اظہار کے لیے راولپنڈی آ رہے تھے ۔
نہیں، ہر گز نہیں ۔ پچھلے کئی جلسوں اور جلوسوں کی مانند اِس تازہ ترین احتجاج کا بھی فقط یک نکاتی مقصد تھا : بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل سے آزاد کروانا ۔ علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی کارکنان کو ایک بار پھر اپنے مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ لاتعداد رکاوٹوں ، کنٹینروں کی آہنی دیواروں اور مرکزی لیڈروں کی گرفتاریوں نے انھیں لیاقت باغ تک پہنچنے نہ دیا ۔اگرچہ بعض مقامات پر پی ٹی آئی کارکنوں اور مقامی پولیس میں چھیڑ چھاڑ بھی ہوئی۔ پنجاب حکومت اور وزیر اعلی پنجاب ایک بار پھر پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے مقاصد و اہداف میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئیں ۔ حکومت شاید اِسی کا نام ہے ۔
پی ٹی آئی اور علی امین گنڈا پور صاحب کے سیاسی مخالفین کا بیک زبان کہنا ہے کہ جس طرح وزیر اعلی کے پی نے 28 ستمبر کو ایک بار پھر راولپنڈی ایسے حساس شہر پر یلغار کی ہے ، اگر وہ اِسی جذبے اور لگن سے اپنے صوبے میں کرم نامی علاقے میں تباہ شدہ امن کی بحالی کے لیے یلغار کرتے تو یہ ضلع کرم کے سات لاکھ نفوس پر بے پناہ احسان ہوتا ۔ کوہاٹ ڈویژن کا ضلع کرم آجکل ایک بار پھر آگ کا گولہ بنا ہوا ہے ۔ دنیا بھر کے میڈیا میں کرم کی جاری خونریزی موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے ۔ قومی اخبارات بھی مقدور بھر خبریں شایع کررہے ہیں ۔ مثال کے طور ایکسپریس ٹربیون نے 28 ستمبر ہی کو خبر دی ہے کہ کرم میں دو متحارب قبائل پچھلے چند دنوں کی لڑائی میں ایک دوسرے کے 46افراد ہلاک اور 98 شدید زخمی کر چکے ہیں ۔ اگر وزیر اعلی علی امین گنڈا پور صاحب اپنی احتجاجی سیاست میں نہ الجھتے اور کرم کے امنِ عامہ کی طرف سنجیدگی سے توجہ فرماتے تو شاید ہی نہیں بلکہ یقینا کرم کی چار درجن انسانی جانوں کا اتلاف بچ سکتا تھا ۔
ضلع کرم ، پشاور سے تقریبا دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ پارا چنار اِس کا ضلعی دارالحکومت ہے ۔یہ افغانستان سے متصل ہے ۔ اِس کے پار افغانستان کے خوست، پکتیا، لوگر اور ننگر ہار ایسے صوبے پائے جاتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے علی ہادی صاحب یہاں کے ایم پی اے اور مجلسِ وحدت المسلمین کے حمید حسن صاحب ایم این اے ہیں ۔ جاوید اللہ محسود صاحب یہاں کے ڈی سی ہیں۔ کمشنر مستعصم بِلا خان اور ڈی آئی جی پولیس شیر اکبر خان ہیں ۔ سب نے مبینہ طور پر زور لگا ڈالا ہے مگر کرم کے گاوں بو شہرہ میں جاری خونریزی بند نہیں کروا سکے۔
بو شہرہ پارا چنار شہر کے جنوب میں 19 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ جرگے بھی ہو چکے ہیں مگر بے سود ۔ کہا جاتا ہے کہ بو شہرہ میں خونریزی کا آغاز ایک زرعی قطعہ اراضی کو ٹھیکے پر دینے سے ہوا تھا ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ فرقہ وارانہ تنازع ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہاں بنکر بنانے پر جھگڑے کا آغاز ہوا تھا ۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ کرم کے پار افغان صوبوں میں موجود دہشت گرد ٹی ٹی پی بھی کرم میں اپنا لچ تل رہی ہے۔ وزیر اعلی علی امین گنڈا پور صاحب کے مشہور مشیر ، جناب بیرسٹر سیف علی خان ، کہتے ہیں کہ کرم میں نہ دہشت گردی ہے اور نہ ہی فرقہ وارانہ فسادات ۔ پھر یہاں 46 انسانوں کا خون کس نے کر دیا ہے ؟اِس کا جواب شاید کوئی بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
کرم، سوات اور ڈی آئی خان وغیرہ میں امنِ عامہ کا احوال عوام کے لیے اطمینان بخش نہیں ہے۔ جب وزیر اعلی خیبر پختونخوا کا اپنا آبائی شہر اور انتخابی حلقہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکا ہے تو وہ باقیوں سے کیا شکوہ کر سکتے ہیں؟حیرت ہے اِس کے باوجود علی امین صاحب بار بار پنجاب پر ہلے بول رہے ہیں۔ 28ستمبر کو بھی ایک نیا ہلہ ایک نئے جذبے کے ساتھ بولا گیا ہے۔ جسے پنجاب کی حکومت نے دفعہ 144کے نفاذ، پولیس اور رینجرز کی اسٹرٹیجک تعیناتی سے ناکام بنا دیا ہے۔
علی امین صاحب راولپنڈی پہنچنے میں ناکام رہے ۔ وہ برہان انٹر چینج ہی سے واپس گھر جانے پر مجبور ہو گئے ۔ ان کے اِس اقدام نے پی ٹی آئی کارکنوں کو سخت مایوس، برہم اور بددل کیا ہے ۔ علی امین گنڈا پور نے اِس بار بھی وہی وطیرہ اختیار کیا ہے جو انھوں نے 21ستمبر کو کاہنہ (لاہور) میں اختیار کیا تھا۔یقینا بانی پی ٹی آئی بھی مایوس ہوئے ہوں گے۔ حکومت اور طاقتوروں سے وزیر اعلی علی امین گنڈا پور صاحب کے کچھ گلے شکوے مگر اتنے بے بنیاد بھی نہیں ہیں ۔ان کے جو شکوے شکایات کی ہیں، انھیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس