مشرقِ وسطی کی عالمی جنگ ہماری سرحد یعنی ایران تک پہنچ گئی ہے اور آنے والے دنوں میں اس آگ کی تپش ہمیں بھی محسوس ہوگی۔ ایران کے ساتھ ہماری لمبی سرحد ہے،تاریخی اور مذہبی رشتے ہیں گو ایران اور پاکستان کی عالمی پالیسیوں میں کبھی یکجائی نہیں رہی لیکن اس کے باوجود ایران کو کچھ نقصان ہوا تو اسکے آفٹر شاکس پاکستان میں بھی آئیں گے۔
پاکستان اس وقت دوراہے پر ہے، ایک تو حقیقت میں ہم تاریخی طور پر فلسطین کے حامی ہیں۔ علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر سے لے کر قائد اعظم تک سب نے فکری اور مذہبی طور پر فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کی۔ ریاست ِپاکستان نیاپنے قیام سے لے کر آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا کبھی سفارتی تعلقات قائم نہیں کئے اور کبھی فلسطینیوں کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹی۔بھرپور اخلاقی حمایت کے باوجود پاکستان مشرقِ وسطی کی جنگ میں کبھی براہ راست شریک نہیں ہوا۔ دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں سے تین ایسے ہیں جن کی فوجوں کی مسلمہ طور پر جدید تربیت ہے اور ان کا اپنے ملکوں میں مکمل کنٹرول ہے۔ مصر، ترکی اور پاکستان کی افواج اسلامی ممالک میں سرفہرست ہیں۔ مصر نے تو جنگ ِرمضان 1973 میں اسرائیل کو ناکوں چنے بھی چبوائے لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کہ ترکی اور مصر دونوں کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہیں، تجارت جاری ہے، آمدو رفت ہوتی رہتی ہے اور اس بات کا دو ر دور تک امکان نہیں کہ ترکی اور مصر ایران کی حمایت میں اس جنگ میں کو دیں گے۔پاکستان اسرائیل کا سب سے بڑا اصولی مخالف ہے یہ نیوکلیئر طاقت ہے میزائل ٹیکنالوجی سے بھی مالا مال ہے، منظم فوج رکھتا ہے لیکن اسے شروع سے یہ احساس بھی ہے کہ ہماری حدود کیا ہیں؟ اسی لئے نائن الیون کے فورا بعد دانش مندی دکھاتے ہوئے امریکہ سے تعاون کا فیصلہ کیا گیا وگرنہ خدشہ تھا کہ نہ صرف ریاست کو نقصان پہنچے گا بلکہ فوج اور ہمارے ایٹمی اثاثے بھی ہدف بنیں گے۔ آج بھی وہی صورتحال ہے کہ ہم جذباتی، اخلاقی اور مذہبی طورپر اسرائیل کی مخالفت کے باوجود اس کے خلاف جنگ میں عملی طورپر حصہ نہیں لے سکتے، نہ ہمیں اس طرح کی مہم جوئی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
اسرائیل آبادی کے اعتبار سے لاہور سے بھی چھوٹا ہے اور پھر اس میں بھی 18فیصد آبادی مسلم ہے ۔ جغرافیے کے اعتبار سے بھی اس کا مسلم ممالک سے کوئی مقابلہ نہیں ہے،ہاں اسرائیل میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر جو کتابیں شائع ہوتی ہیں ساری مسلم دنیا مل ملا کر بھی ان کے ایک تہائی تک نہیں پہنچتی۔ اسرائیل اس وقت سٹارٹ ایپس یعنی کاروبار اور ٹیکنالوجی کے نئے آئیڈیاز کے اعتبار سے دنیا میں سب سے آگے ہے یعنی امریکہ اور برطانیہ کوبھی پیچھے چھوڑ گیا ہے، اسرائیل کے ہرسکول میں بچوں کو پہلی جماعت ہی سے سکریپ سے مختلف چیزیں بنانا سکھایا جاتا ہے، ایک طرف اسرائیل میں یہودی انتہا پسندی زوروں پر ہے تو دوسری طرف آج کی دنیا کا سب سے پاپولر سیکولر اور غیر مذہبی مفکر یووال نوح حراری بھی اسرائیل ہی میں رہتا ہے۔ پوری مسلم دنیا میں،کسی ایک بھی ملک میں مکمل جمہوریت، اظہارِ رائے کی آزادی اور فکر و فن کی مکمل آزادی موجود نہیں ہے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود اسرائیل میں پارلیمانی جمہوری نظام قائم ہے، وزیر اعظم آتے اور جاتے ہیں، پارلیمان میں مباحث ہوتے ہیں،عدم ِاعتماد کی تحریکیں آتی اور کامیاب ہوتی ہیں، سیاستدانوں کی کرپشن کے سکینڈل بھی شائع ہوتے ہیں ،اپوزیشن بھی بھرپور انداز میں موجود ہے، ہر شخص کیلئے چند سال کی فوجی سروس لازم ہے، اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے، دایاں، بایاں بازو، مذہبی انتہا پسند، سیکولر اور خدا کے منکر سبھی اخبارات میں لکھتے اور ٹی وی پر اظہار خیال کرتے ہیں، سائنس کے نئے آئیڈیاز اور ٹیکنالوجی کی ترویج کے وہاں کھلے مواقع ہیں ، یہ ٹیکنالوجی ہی تھی جس نے لبنان میں پیجرز اور وائر لیس کے پھٹنے سے تباہی پھیلائی۔ مسلم دنیا نے اگر اسرائیل کا مقابلہ کرنا ہے تو اسے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مقابلہ کرنا ہوگا۔ اسرائیل کی آبادی میں سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کی تعداد دنیا کے ہر مسلمان ملک سے زیادہ ہے۔ گزشتہ 5،6 صدیوں سے مسلم دنیا سو رہی ہے، اپنی اندرونی لڑائیوں، مذہبی مباحث اور ناکامی کی وجوہات پر مکالمے جاری ہیں مگر ابھی تک کوئی ایسا متفقہ راستہ نہیں اپنایا جاسکا جس پر چل کر ہم آگے جا سکیں۔اس وقت اسلامی دنیا میں ترقی کے کئی ماڈل ہیں ان کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کونساماڈل مسلم دنیا کیلئے مفید ہوگا۔
اب جبکہ جنگ اسلامی ممالک پر منڈلا رہی ہے، ہر اسلامی ملک کسی نہ کسی ماڈل سے مقابلے کی کوشش کر رہا ہے۔ جدید ترین اور تازہ ترین اسلامی ماڈل MBSیعنی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ہے جو مغربی یا سوشلسٹ دنیا سے لڑے بغیر بادشاہی، اسلام اور جدیدیت کے اشتراک سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، وہ اسلام کی بنیاد قرآن اور صرف دو سو احادیث کو قرار دیتے ہیں کسی ایک خاص فقہ کی بجائے بادشاہ کے فتوے کو حتمی جانتے ہیں اور جدید دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سائنس، ٹیکنالوجی اور آرٹ کے ساتھ ساتھ اکانومی کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔ دوسرا اسلامی ماڈل اردوان کا ہے جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی رکھتے ہیں اور اس کو للکارتے بھی ہیں، انہوں نے ترکی کا پرانا نام ترکیہ اپنالیا ہے، انکے مغربی نقاد انہیں سلطنت عثمانیہ کے ماضی کے فرما نروائوں کی طرح سلطان کا طنزیہ لقب دیتے ہیں تاہم اردوان نے معاشی ترقی اور سیکولر ازم کی بجائے مذہب کی جدید تشریح سے ترکیہ کی نئی پہچان بنائی ہے، عمران خان اور ان کی اہلیہ اس ماڈل سے بہت متاثر تھے لیکن پاکستان کی اشرافیہ میں اس ماڈل کو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی۔
اسرائیل کے عزائم کا مقابلہ کرنے اور مغربی دنیا سے مسابقت کے حوالے سے ایک زمانے میں ملائشیا کے مرد آہن مہاتیر محمد کے ماڈل کا بھی بڑا تذکرہ رہا ،ہمارے کپتان ان سے بہت متاثر رہے حتی کہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ بھی تہہ کرنے کا دعوی کیا۔ مگر اب تو ملائشیا میں بھی ان کا ماڈل اڑا دیا گیا ہے، مجھے سنگاپور میں وہاں کے سینئر سفارتکاروں سے مہاتیر کے ناقدانہ جائزے کو سننے کا موقع ملا (یاد رہے کہ ایک زمانے میں سنگا پور ملائشیا ہی کا حصہ تھا اس لئے وہاں ملائشیا کی پالیسیوں کو بہت غور سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے) تو میں حیران رہ گیا کہ ہماری سوچ اورسنگا پوری سوچ میں کس قدر فرق ہے۔
اب جبکہ عالمی جنگ ہمارے پڑوس ایران میں آ چکی ہے تو ہم کیا کریں؟ اقبال اور جناح نے یہی درس دیا کہ ہم کسی بھی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہ رکھیں لیکن اپنے دفاع کو مضبوط سے مضبوط کریں ،پہلی ترجیح مضبوط معیشت ہے، دوسری ترجیح مضبوط ریاست کے مضبوط نظام پر ہونی چاہیے۔ علم، سائنس اور ٹیکنالوجی مستقبل کے ہتھیار ہیں، جس ملک کے پاس معاشی توپ ہوئی ،سائنسی میزائل ہوا، علم کا ٹینک ہوا اور ٹیکنالوجی کی گولیاں ہوئیں وہی ملک زندہ بھی رہے گا اور ترقی بھی کرسکے گا۔ مسلم دنیا بھی اگر اپنی توجہ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کی بجائے بڑی لڑائی یعنی علم، سائنس اورٹیکنالوجی کے حصول کی طرف دے تبھی وہ مستقبل میں فتوحات حاصل کرسکتی ہے وگرنہ امت ِمسلمہ کی 600سال سے پے در پے شکستیں ناامیدی کے تاثر کو اور مضبوط کر دیں گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ