لوگ حکمرانوں سے ناراض کیوں رہتے ہیں؟ : تحریر محمود شام


سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر کہ آخر عمر میں چلنے پھرنے، لکھنے، سوچنے کی استطاعت عطا کر رکھی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے ہمیشہ دعا قبول کی کہ ہمیں راہ حق پر چلنے والوں کا ساتھ دینے کی توفیق دی۔

دل کو یہ اطمینان بھی ہمیشہ میسر رہتا ہے کہ اپنا قبلہ بدلنا نہیں پڑا۔ ہر حرف لکھنے سے پہلے کئی بار سوچا ہے۔ جو موقف بھی اختیار کیا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے سرخروئی عطا کی ہے۔ بنیادی نصب العین یہ پیش نظر رہا کہ ریاست کا اہم ترین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی زندگی آسان سے آسان کرے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے متعدد ترقی یافتہ، ترقی پذیر، پسماندہ ملکوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوتا رہا۔ وہاں بھی انداز فکر یہی رہا کہ یہ ریاست عام لوگوں کی زندگی کتنی محفوظ اور سہل کر چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا آزاد دنیا، غیر جانبدار دنیا، کمیونسٹ دنیا میں مقابلہ ہوتا تھا۔ سرد جنگ کا دور بھی بہت قریب سے دیکھا، سمجھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ ہر چند جمہوریت کا راگ الاپتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ملکوں پر پابندیاں بھی عائد کرتا ہے، مارشل لا کے نفاذ پر مالی، عسکری، سماجی قدغنیں بھی لگا دیتا ہے۔ اب کتابیں پڑھتے، گوگل پر مختلف حلقوں میں گشت کے بعد بھی محسوس ہوا ہے کہ اب ایک ہی نظریہ ہے کہ کس ملک میں بہتر حکمرانی ہے اور کس میں ابتر حکمرانی۔

وہ دن نہیں رہے کہ جب بہت ہی اعلیٰ آفاقی نظریوں پر حکومتیں چلتی تھیں۔ دائیں، بائیں، دائیں کے مرکز، بائیں کے دائیں۔ پہلے ملکی امراض کی تشخیص ان بیماریوں سے کی جاتی تھی۔ اب نظریات سے عاری، مطالعے سے گریز پا، طاقت سے حکومتی ایوانوں پر قبضہ کرنے والے حکمرانوں نے یہ سارے فلسفے بے محل کر دیے ہیں۔ اب فیصلہ سازی۔ کروڑوں انسانوں کی باگ ڈور ان زور آوروں کے ہاتھوں میں ہے۔ جو کتاب لکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں۔ مغل بادشاہوں کی طرح وہ بعض پڑھے لکھوں کو اپنے نورتنوں میں شامل کر لیتے ہیں۔ ان ارسطوؤں اور سقراطوں کا فریضہ ہوتا ہے کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ پر عملدرآمد کے ذریعے حاصل کردہ بھینس کے بارے میں آئینی، دینی اور سماجی طور پر ثابت کریں کہ بھینس اپنی مرضی سے لاٹھی کی طرف راغب ہوئی۔ اب لاٹھی کے سائے میں بہت خوش ہے اور یہ سارے مراحل آئینی حدود کے مطابق ہیں۔ جہاں کوئی تصادم ہے تو وہاں آئین کو بدلنا عین ملکی مفاد میں ہے۔ بھینس اصل مالک کو واپس کرنے سے ملک میں انتشار برپا ہو جائے گا۔ ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں، دوسری تنظیموں کی کانفرنسوں میں بھی انسانی زندگی کی آسانیوں میں یکسانیت پر نہیں بلکہ امیر ممالک کے پیش کردہ مقاصد اور اہداف کے حوالے سے مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ ایک سالانہ اجتماع ڈیووس میں ہوتا ہے۔ جس میں امیر ریاستیں غریب ریاستوں کے ساتھ ناشتے کرتی ہیں، غربت خریدتی ہیں، غریب ملکوں کے اہم حکمران اپنی تہی دامنی کی بولی لگاتے ہیں، غریب بندے غریب ہی رہتے ہیں۔ لیکن اگلے ڈیووس فورم میں تقریریں کر کے بتایا جاتا ہے کہ کئی فیصد اہداف حاصل کر لیے ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ کبھی کبھی کسی اتوار کو اپنی بہنوں بہنوئیوں کو بھی بلا لیں۔ دور کے اقارب کو بھی۔ کبھی کبھی اپنے دفاتر کے ساتھیوں کو ان کے اہلخانہ کے ساتھ۔ یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اب نظریاتی رہنمائی نہیں مل رہی ہے۔ ریاست کو اپنے شہریوں کے دکھوں کی کوئی پروا نہیں ہے۔ میڈیا، مرکزی ہو یا سوشل وہ بھی آپ کے سوالات کے جوابات نہیں دیتا۔ عدالت کی معزز شخصیات آپس میں بر سر پیکار ہیں۔ سلامتی کے ادارے بھی بہت مصروف ہیں۔ ایسے میں اگر شہری اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی ہفتے میں ایک بار نہ بیٹھیں تو سماجی تنہائی شدت اختیار کر جائے گی۔ خاندانی بندھن کو مضبوط کرنا آج کل کے غیر نظریاتی دَور میں بہت ضروری ہے۔ اسی طرح محلے داری جو انسانی تہذیب کی بنیاد ہے۔ اسکے انہدام پر مغرب میں بھی تشویش ہو رہی ہے۔

ہمارے دین اسلام میں تو یہ اجتماعیت اتنی لازمی ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز۔ ہفتے میں ایک بار زیادہ بڑی سطح پر جمعے کی نماز پھر عیدوں پر اس کے علاوہ بھی ہر مسلک نے سال میں کئی اجتماعات رکھے ہیں۔ تبلیغی جماعت کے ہفتہ وار، ماہانہ، شش ماہی اور سالانہ اجتماع۔ یہ قومیتیں ایک دوسرے کے سمجھنے کیلئے۔ اجنبی ہواؤں سے تہذیبی یلغار سے محفوظ رہنے کیلئے باہمی ملاقاتیں ناگزیر ہیں۔اپنے کئی دہائیوں کے مطالعے مشاہدے کی روشنی میں بہتر حکمرانی کیلئے میں یہ امور بنیادی سمجھتا ہوں۔ 1۔ ایسا سسٹم جس میں ہر شہری کی جان و مال محفوظ ہو۔ 2۔ اچھی غذا صاف ستھری کسی ملاوٹ کے بغیر، ہر شہری کی قوت خرید کے اندر۔ 3۔ ہر شہری کے روزگار کی ضمانت۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معدنی، قدرتی، انسانی وسائل پر انحصار۔ 5۔ نقل و حرکت کیلئے اچھی آرام دہ ٹرانسپورٹ۔ 6۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ،بری فوج، فضائیہ، بحریہ، ہمہ وقت بیدار۔ 7۔ شہروں میں سسٹم کے محافظ پولیس اور خفیہ ادارے۔ 8۔ ذیلی، اعلیٰ، عدالتوں میں سستے اور جلد انصاف کی فراہمی۔ 9۔ بازار میں اشیائے ضروریہ کی فراہمی اور قیمتوں پر کنٹرول۔ 10۔ ہر شہری کیلئے میٹرک تک لازمی تعلیم کی فراہمی۔ کیا پڑھایا جانا چاہئے۔ 11۔ انجینئرنگ، میڈیکل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی درسگاہیں۔ 12۔ معیاری علاج معالجے کی مفت فراہمی۔ 13۔ مقامی حکومتیں، صوبائی حکمرانی، مرکزی حکمرانی، پارلیمنٹ بالاتر، انتخابات کے قوانین عام شہریوں کیلئے معاون۔ 14۔ ریاستی ادارے اپنی اپنی حدود میں ذمہ داریاں ادا کریں۔ 15۔ یونیورسٹیاں اپنے اپنے علاقے میں موجود مسائل کا حل وہاں موجود وسائل کی روشنی میں تحقیق کے ذریعے بتاتی رہیں۔ 16۔ اپنے وسائل، اپنی ضروریات کے مطابق مینو فیکچرنگ۔ 17۔ اپنی ثقافت، اپنے تمدن اپنی تہذیب اور ادب کی میراث کا تحفظ۔

ہر شہری کو درج بالا سہولتیں بلا تفریق مذہب و مسلک اور زبان میسر ہوں۔ممکن ہے کچھ اہم امور سہو نذر ہو گئے ہوں۔ کسی معاشرے میں اگر حکمران ان اہداف کے حصول میں دن رات گزارتے ہوں اور ماتحت حکام سے ان کی پابندی کراتے ہوں تو وہاں محاذ آرائی اور دہشت گردی نہیں ہوتی۔ عام لوگ حکمرانوں، منصفوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں، ارکان اسمبلی کا بجا طور پر احترام کرتے ہیں۔ محبت عام ہوتی ہے۔ ملک کے ایک سے دوسرے سرے تک ایک سسٹم دکھائی دیتا ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کا احترام ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو لوگوں میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ ذمہ داروں کیلئے بد دعائیں لب پر ہوتی ہیں۔ اور جو ایسی بد نظمی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ مصلحت سے انکار کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتا رہتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ