پنجابی ہیرو؛ بھگت سنگھ ۔۔۔۔تحریر :نعیم قاسم

بھگت سنگھ کا تعلق لاہلپور کے ایک گاؤں کے جاٹ خاندان سے تھا بھگت سنگھ سوشلسٹ نظریات سے بے حد متاثر تھا محض 24 سال کی عمر میں برطانوی استعمار یت کے خلاف حریت پسندی کی عظیم تاریخ مرتب کرتے ہوئے اپنے جواں عمر ساتھیوں کے ساتھ پھانسی کے پھندے پر جھول گیا اور پنجاب کی تاریخ کا لافانی کردار بن گیا بھگت سنگھ پر ایک انگریز پولیس افسر مسٹر ساننڈرس کو قتل کرنے کا الزام تھاجو شاہد غلط فہمی میں ہو گیا تھا وگرنہ اصل ہدف سائمن نامی ایس ایس پی تھا جس نے جلیانوالہ باغ میں بے گناہ ہندوستانیوں کے قتل عام میں اہم کردار ادا کیا تھا بھگت سنگھ اور اس کے نوجوان انقلابی ساتھیوں نے برطانوی سامراج کے خلاف زبردست تحریک برپا کی اور اپنے مقاصد میں نمایاں کامیابی حاصل کی وہ اور ان کے ساتھی مزاحمت کا عظیم ترین استعارہ بن کر ابھرے اور دیس کی خاطر جان قربان کر کے تاریخ کے ایک درخشاں باب کو روشن کر دیا بھگت سنگھ نے کانگریس کے منافقانہ چہرے کو بھی ہندوستانیوں کے سامنے بے نقاب کیا اور پنجاب میں لوگ گاندھی جی کے اہنسا ئی ڈھونگ کو نا پسندیدگی سے دیکھنے لگے 31_1926 کے عرصے میں پنجاب کا سیاسی ماحول خاصہ تلخ رہا کیونکہ بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی جنگجوانہ انقلابی سیاست کے علمبردار بن چکے تھے بے شمار نوجوان بھگت سنگھ کے ہمنوا بن گئے اور رائے عامہ انقلابیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئ گرفتاری کے بعد بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں پر شاہی قلعہ میں وحشیانہ تشدد کیا گیا مگر ان کے حوصلے قائم رہے جس کی وجہ سے وہ قوم پرستوں کی نظر میں قومی ہیروز کا درجہ حاصل کر گئے بھگت سنگھ کے انقلابی بیانات کو قومی پریس میں زبردست اہمیت دی جاتی تھی گاندھی جی کی شخصیت کا سحر اس کے سامنے دھندلانے لگا بھگت سنگھ کی تصاویر اور مجسمے جا بجا دکھائی دینے لگے سامراجی حکومت پوری کوشش کے باوجود پنجاب میں انقلابی سرگرمیوں کا سد باب کرنے میں ناکام رہی بھگت سنگھ نے 5 جون 1929 کو جیل سے ایک بیان کیا اور اپنی مزاحمتی تحریک کے مندرجہ ذیل مقاصد بیان کیے ا_ہمارا عمل انفرادی طور پر کسی بھی شخص کے خلاف نہیں ہے ہمارا مقصد بین الاقوامی برادری کو ہندوستان کے عوام کی ذلت اور پسماندگی سے آگاہ کرنا ہے 2_یہ کاروائی سامراجی حکومت کے خلاف ایک احتجاجی وارننگ تھی 3_اسکا مقصد ان لوگوں کی طرف سے احتجاج تھا جن کا استحصال کیا جاتا ہے اور اپنے دکھ تکلیف اور بے بسی کے اظہار کے لیے ان کے پاس کوئی اور طریقہ نہیں ہے سوائے کہ وہ ظالم کے خلاف تلوار اٹھا ئیں 4_ہمارا مقصد بے حس اور بہرے لوگوں تک اپنی بات پہنچانا ہے 5 ہمارا مقصد یوٹپائی اہنسا کے دور کا خاتمہ کرنا تھاتاکہ حقیقی انقلاب کا سورج طلوع ہو سکے 6 ہمارا مقصد اس تاریخی سبق کی یاد دلانا ہے کہ شاہی حکم نامے اور ظلم و جبر انقلاب فرانس اور انقلاب روس کو نہیں روک سکی تو انگریزوں کا پبلک سیفٹی ایکٹ کس طرح ہندوستان کے عوام کی شمع آزادی کو روشن ہونے سے روک سکتی ہے
10 جولائی 1929 کو بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی قائد اعظم اس وقت کانگرس سے الگ ہو چکے تھے انہوں نے قانون ساز اسمبلی میں ایک تاریخ ساز تقریر کی “بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ جیل میں وہ سلوک روا نہیں رکھا گیا ہے جو یورپین قیدیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے خوراک اور دوسری سہولیات کا وہ معیار نہیں ہے جو سیاسی قیدیوں یا یورپین قیدیوں کے لیے فراہم کیا جاتا ہے میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو یورپین سمجھ کر مراعات دی جائیں تاہم واضح ہونا چاہیے کہ کہ انگریزی سرکار ان پر انصاف کے لیے مقدمہ چلا رہی ہے یا محض انہیں ظلم وستم کا نشانہ بنائے رکھنا چاہتی ہے کیا صحیح ہے کیا غلط مگر نوجوانوں میں تشدد کی جو لہر پیدا ہو چکی ہے ان اقدامات کی مذمت کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا آپ کتنی بار ہی کیوں نہ دھرائیں کہ نوجوان گمراہ ہو گئے ہیں مگر یہ تیس کڑوڑ کے قریب لوگ ہیں جو اس نظام حکومت کے خلاف ہیں اس نوعیت کے اقدامات دوسرے ملکوں میں بھی ہوتے ہیں جب لوگوں پر ظلم و ستم کی حد کر دی جائے تو وہ حب الوطن ہونے کے باوجود ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہنیں ریاست سنگین جرائم سمجھتی ہے لہذا حکومت ہوشمند ی کے ناخن لے (قائد کا یہ بیان آج ہمارے حالات کی بھی تصویر کشی کر رہا ہے کہ نوجوانوں کی سب سے بڑی جماعت کے خلاف ظلم وستم اور نا انصافی کی وجہ سے تشدد اور لاقانونیت دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے)
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف لاہور سازش کیس کی سماعت 9 ماہ چلی بعد میں وائسرائے لارذ ارون نے ایک آرڈیننس کے ذریعے سپیشل ٹربیونل بنا دیا ہے جس میں ملزمان، وکلاء اور گواہوں کی حاضری کی ضرورت نہ تھی اور اس کی سزا کے خلاف اپیل کرنے کا بھی حق نہیں تھا یہ تھا انگریز کا نام نہاد انصاف اور قانون آج بھی آئینی ترمیمی پیکج میں یہ تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی کہ جس شخص کی ملڑی ٹرائل میں سزا ہو وہ سول عدالتوں میں اپیل نہیں کرسکے گا تاکہ آج کے بھگت سنگھ کو بھی تخت دار پر انصاف اور عدل کا خون کر کے چڑھا دیا جائے اس نام نہاد ٹربیونل نے 4 ماہ کی سماعت کے بعد بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو پھانسی کی سز سنا دی اس فیصلے کے خلاف 17 فروری 1931 کو یوم بھگت سنگھ منایا گیا اور لاکھوں نوجوانوں نے احتجاجی جلوسوں میں شرکت کی مگر اس کے باوجود بھگت سنگھ اور اس کے حریت پسند ساتھیوں کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا بھگت سنگھ نے پھانسی سے پہلے پھانسی کے پھندے کو چوما اور اس لافانی حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے بہادری سے اپنی جان سپرد آفرین کر دی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خود اس لمحے کا انتظار کر رہا تھا بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی راکھ کے ساتھ لاکھوں لوگوں نے لاہور میں تین میل لمبا جلوس نکالا جس میں انقلاب زندہ باد اور بھگت سنگھ زندہ باد کے نعرے فضا میں بلند ہو رہے تھے
ع سکھ دیو، بھگت سنگھ، راج گرو
تھے شمع وطن کے پروانے
بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی موت کے 16 سال 4 ماہ اور 23 دن کے بعد ہندوستان سامراجی تسلط سے آزاد ہو گیا اور انگریز اس خطے کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلے گئے تاریخ کا سبق ہے کہ گورا صاحب کا جبر کا نظام قائم نہیں رہا تو براؤن صاحب کا کیسے رہ سکتا ہے کیونکہ سدا حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے