عدالتی نظام میں اصلاحات کا عمل شروع ہو چکا۔ آج اگر کچھ مخصوص جج صاحبان یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ عدلیہ میں مداخلت کی جا رہی ہے تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس تمام بحران کو دعوت بھی انہی نے اپنے انوکھے فیصلوں کے ذریعے خود ہی دی ہے۔ پاکستان شروع ہی سے اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں آ گیا تھا۔ عدلیہ اور میڈیا اس کی معاونت کرتے تھے۔ اسی لیے ایک دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ تین ج جج، جنرل، جرنلسٹ پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ اب اسٹیبلشمنٹ، کارٹلز (بڑے سیٹھ) اور عدلیہ کی تکون سب پر حاوی ہے جبکہ اسکی معاونت سول حکومت، میڈیا، بیوروکریسی کرتے ہیں ۔ عام آدمی کا بھلا پہلے والے سسٹم میں تھا، نہ موجودہ نظام میں ہے۔ ملکی استحکام ایک ایسی چیز ہے جو حالات کو معمول پر رکھتی ہے اس طرح کاروبار زندگی چلتا رہتا ہے اور لوگوں کا گزارہ بھی ہوتا رہتا ہے لیکن جب کوئی ادارہ یا اسکے اہم عہدیدار ایسی خرابی پیدا کرنا شروع کر دیں جس سے نظام مملکت جامد ہوتا محسوس ہونے لگے تو مکمل تباہی سر پر آنے کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ ہر ممکن طریقے سے ایسی رکاوٹوں کو راستے سے ہٹانے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ عدلیہ کے بے لگام ہونے کا سلسلہ نیا نہیں۔ ماضی میں بھی کچھ واقعات پیش آئے لیکن چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے چلائی جانے والی تحریک نے نہ صرف ججوں کو آپے سے باہر کیا بلکہ وکلا بھی بے قابو ہو گئے۔ لاقانونیت کا یہ عالم تھا کہ ساہیوال میں مشعل بردار جلوس کے دوران وکلا کے اپنے ہاتھوں سے چلمیں گر گئیں جس سے چند ایک جھلس گئے۔ تمام حقائق کا علم ہونے کے باوجود اس واقعہ کا مقدمہ پولیس والوں کے خلاف بنا دیا گیا۔ کئی اہلکار جیل میں چلے گئے کئی اپنا کیرئیر خراب کرا بیٹھے مگر کوئی پوچھنے والا تھا، نہ انصاف فراہم کرنے والا۔ غیر قانونی کاموں میں ملوث ججوں کے متعلق تو یہ سوچنا بھی جرم ہے کہ انہیں کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے۔ پراجیکٹ عمران چونکہ 2011 میں ہی فل سپیڈ سے چلانا شروع کر دیا گیا تھا اس لیے جج بھرتی کرنے کا طریقہ کار جو افتخار چودھری نے ججوں کے ہاتھوں میں ہی دے دیا تھا اسے بھی خوب استعمال میں لایا گیا۔ ثاقب نثار نے چیف جسٹس بننے کے بعد افتخار چودھری والا سنیارٹی والا فارمولا بھی بدل ڈالا اور سندھ ہائی کورٹ سے ایک جونیئر جج جسٹس منیب کو سپریم کورٹ لے آئے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کے لیے سنیارٹی والا قانون لاگو رہا مگر اس کا انتہائی غلط استعمال کیا گیا۔ ثاقب نثار، کھوسہ، گلزار اور بندیال نے اگلے کئی سال کیلئے پوری فیلڈنگ سیٹ کر دی کہ ان کے ہم خیال جج ہی چیف جسٹس بنیں گے اور نئے ججوں کی بھرتیاں بھی وہی کریں گے۔ بندیال نے لاہور ہائی کورٹ سے ایک جونیئر جج کو سپریم کورٹ لا کر یقینی بنایا کہ جب وہ جج چیف جسٹس بنے تو بندیال کے وکیل بیٹے کے لیے ہائی کورٹ کا جج بننے کی راہ ہموار ہو جائے۔ مزید یہ کہ یہ سارے جج اور ان کے خاندان پی ٹی آئی کے ساتھ جڑ گئے اور فیض نیٹ ورک کا حصہ بن گئے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے لے کر نو مئی تک اسٹیبلشمنٹ کو ان ججوں کی جانب سے جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی جذبہ حریت یا انصاف کی علمبرداری کے لیے نہیں تھی بلکہ ذاتی مفاد اور طاقتور ملکی و غیر ملکی عناصر کی تھپکی کے سبب تھی۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے طویل کشمکش کے بعد عدالتی معاملات کو سدھارنے کا فیصلہ کیا تو ان ججوں نے آئین ری رائٹ کر کے اور قانون سے ماورا فیصلے دے کر خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ شاید ابھی اسی طرح سے مزید چلتا لیکن جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بعد نیٹ ورک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ ویسے بھی اب کسی کی مزاحمت کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا، تاثر یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ اسی لیے دیا گیا ہے تا کہ سب اپنی باریوں پر ہی چیف جسٹس بنیں اور پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا موقع نہ ملے۔ آٹھ ججوں کی جانب سے وارننگ کے انداز میں دئیے گئے اس فیصلے کو حکومت، پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن نے ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ہمارے جج صاحبان یوں تو بڑے دانشمند ہیں لیکن وہ اس زمینی حقیقت کا ادراک ہی نہیں کر سکے کہ اب فیض نیٹ ورک میں پہلے والا دم خم باقی نہیں رہا اس لیے اب وہ بھی ہارے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے غیر ملکی دباو مسترد کیا جا چکا ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے بانی کو سٹریٹ پاور کے ذریعے رہا کرانے کی کوششیں بھی دم توڑ رہی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ لاہور کے جلسے میں کتنے بندے تھے یہ واضح ہے کہ تمام شرکا پولیس کے اشاروں پر چلتے رہے اور اچھے بچے ہونے کا مظاہرہ کیا۔ مایوسی کا شکار عمران خان سوچ رہے ہیں کہ راولپنڈی میں جلسہ کر کے کوئی بڑا ہنگامہ کر کے اسٹیبلشمنٹ کو جھکا لیں گے تو محض خام خیالی ہے۔ آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی آمد کے بعد معاملات میں واضح تبدیلی آئے گی کیونکہ ان کے پاس مکمل معلومات بھی ہیں اور پوری تیاری بھی۔ کے پی کے کی گنڈا پور حکومت بیڈ گورننس اور امن و امان کی بدترین صورتحال کے سبب اپنی رٹ ہی نہیں بلکہ اقتدار میں رہنے کا جواز بھی کھو رہی ہے۔ اس حوالے سے بھی زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا۔ آئین میں ترامیم بھی ہوں گی، آئینی عدالت بھی بنے گی، ججوں کی بھرتی کا نیا طریق کار لا کر ایک عدالتی گروپ کی اجارہ داری توڑ دی جائے گی۔ فیض نیٹ ورک نے اگلے دس سال تک کے لیے عدالتوں میں جو فیلڈنگ لگائی وہ تتر بتر ہونے والی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات