سیاہ پوش کہانی‘‘ : تحریر سہیل وڑائچ’’


فلسفی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر نے ڈنمارک کے بارے میں کہا تھا SOMETHING IS ROTTEN IN THE STATE OF DENMARK تضادستان کی آج کی صورتحال بالکل وہی ہے تضادستان کے سیاہ پوشوں کو ملک و ملت کے آخری فیصلوں کا اختیار حاصل ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ گلی کے بچوں کی طرح لڑ رہے ہیں اپنے ہی سربراہ کے خلاف صف آرا ہیں اور سربراہ کو اپنے ہی ساتھیوں پر شدید غصہ ہے ۔وہ سیاہ پوش جن کے فیصلوں سے ملک نے چلنا تھا اور جلا پانی تھی وہ خود اپنے ہی فیصلے نہیں کر پا رہے۔ ڈنمارک کی طرح سیاہ پوش ایوان میں سازشیں عروج پر ہیں ،ایوان واضح طور پر تقسیم ہے اور ان قانون کے بلند ترین ستونوں اور دانش کے برجوں کو یہ توفیق تک نہیں کہ ساتھ والے کمروں میں بیٹھے ساتھیوں سے مکالمہ کر کے بحران کا حل نکالیں۔ ملک کو انا شہرت اور نام نہاد اصولوں کی سولی پر چڑھا کر یہ سیاہ پوش چوبداروں کی ہٹو بچو کی گونج میں ایک ہی ایوان میں گھومتے پھرتے ہیں کیا ان میں ایک بھی ایسا سربلند نہیں جو انہیں بتائے کہ آپ کی لڑائیوں نے پورے تضادستان کو ایک گہرے گڑھے میں دھکیل دیا ہے اب یا نام نہاد اصول بچیں گے یا پھر کنٹرول نہ ہونے والی طاقت؟ تضادستانی دونوں طرف سے خسارے میں رہیں گے تاریخ کل سیاہ پوشوں سے یہ سوال ضرور پوچھے گی کہ تضادستانیوں کو آپ نے اس گڑھے میں دھکا کیوں دیا تھا؟

تضادستان میں سیاہ پوشوں کا رتبہ جوائی یا داماد کا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ یہ گھر جوائی اور گھر داماد ہیں قیام سے لیکر آج تک کسی سیاہ پوش کا احتساب نہیں ہوا اگر کسی سیاہ پوش پر الزام ثابت بھی ہو جائے تو وہ مستعفی ہو کر گھر بیٹھ کر باعزت اور باثروت زندگی گزارتا ہے جبکہ جگادری سیاست دان، جرنیل اور جگے بیوروکریٹ تک سب جیلیں بھگتتے رہے ہیں۔ تضادستان میں ان سیاہ پوش گھر جوائیوں کو ہمیشہ سے بڑے لاڈ پیار سے پالا گیا سیاہ پوشوں کے حلقہ اشرافیہ میں داخل ہونے کا طریقہ آسان ترین ہے کوئی سیاہ پوش چیف آپ پر مہربان ہو تو آپ یک لخت ملک کے اہم ترین فیصلے کرنے والے حلقہ اشرافیہ میں داخل ہو جاتے ہیں ہر کسی کو آپ کو می لارڈ یعنی میرے آقا کہنا پڑتا ہے آپ چلتے ہیں تو چوبدار مغل شہنشاہوں کی طرح آپ کی آمد کا اعلان کرتےہیں ہٹو بچو کی صدائیں لگتی ہیں تاریخ بتاتی ہے کہ 70 سال کے طویل عرصے تک سیاہ پوش، خاکی پوش سے ملے ہوئے تھے اپنے مفاد کی خاطر تضادستان کے اندر ہونے والے ہر فیصلے پر صاد کہتے تھے عوام کے منتخب نمائندوں اور انکی اسمبلیوں پر تلواریں چلانے کو جائز قرار دیتے مگر سیاہ پوشوں کو اس پر بھی چین نہ آیا انہیں اختیار اور اقتدار کی چمک سے پیار ہوگیا۔شیکسپیئر کے کردار میکبتھ کی طرح جاہ طلبی کی خواہش نے سر اٹھانا شروع کر دیا چیف جسٹس افضل ظلہ کے دور میں اسکی ابتدائی علامات نظر آئیں مگر اس جاہ طلبی کا مکمل اظہار جسٹس افتخار چودھری دور میں کھل کر سامنے آ گیا اس کے بعد سے تو اب سیاہ پوش کھلے طور پر ملک کے ہر ادارے کو چیلنج کر رہے ہیں۔ کروڑوں کے منتخب وزرائے اعظم کو پانچ غیر منتخب جج ایک منٹ میں گھر بھیج دیتے ہیں اس دوران آئین اور قانون کی ایسی من مانی تشریحات کی گئیں کہ آئین بنانیوالے آئین ساز مجبور محض بن گئے سب سے سپریم پارلیمان کے بنائےگئے قوانین کو تشریح کے بہانے سرے سے ہی بدل کر اپنی مرضی کے معانی پہنائے گئے۔ تضادستان نے اپنے سیاہ پوش گھر دامادوں کی یہ سب چیرہ دستیاں بڑے صبر سے برداشت کیں کیونکہ اس وقت خاکی پوش بھی ان کے ساتھ تھے اس لئے کسی کی جرات ہی نہیں تھی کہ سیاہ پوشوں کی تجاوزات پر انگلی اٹھائے لیکن خدا کی کرنی یہ ہوئی ہے کہ اب خاکی پوش بھی سیاہ پوشوں کی جاہ طلبی سےتنگ آگئے ہیں اور اب دونوں میں ایک خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ سیاہ پوش کا مرتبہ تو یہ ہے کہ دانش کے استعمال سے صورتحال کا حل نکالے ایسے فیصلے دے کہ بحران ختم ہو مگر سیاہ پوش بھی اس ’’نام نہاد آخری لڑائی ‘‘یا انقلاب کا خواستگار نظر آتا ہے جو ملک کو ایسی گہرائیوں تک لیجائے گا جس سے واپسی بہت مشکل ہو گی۔کوئی سیاہ پوشوں سے پوچھے آپ ہر وقت سیاست میں تو مداخلت کرتے رہتے ہیں کبھی اپنے ادارے کے ماضی کے داغ مٹانے کی بھی کوشش کی؟ بھٹو کی پھانسی کو تو غلط قرار دے دیا مگر ان ججوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کیوں نہیں دیا جنہوں نے یہ غلط فیصلہ کیا تھا؟کم از کم ان ججوں کی تصویریں ہی سپریم کورٹ سے ہٹا دیں کیا کبھی افتخار چودھری کو بلا کر پوچھا گیا ہے کہ جناب آپ آئین سے ہٹ کر پورے ملک کو چلانے پر قادر کیسے ہو گئے تھے کیا کسی نے ثاقب نثار سےپوچھا ہے کہ وہ کس برتے پر ملک کے دورے کرکے احکامات دیتے پھرتے تھے کیا وہ وزیر اعظم تھے یا انہیں صدر کے اختیارات حاصل ہو گئے تھے کیا کسی نے جسٹس کھوسہ ، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز کو بلا کر پوچھا ہے کہ آپ نے نفرت اور مخالفت سے مغلوب ہو کر جو فیصلہ سنایا وہ آئین اور قانون سے سراسر متصادم تھا؟ اور کیا کسی نے جسٹس بندیال اور ان کے ساتھیوں سے پوچھا کہ آپ نے تو خود ہی عمران خان کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو غلط قرار دیاتھا پھر کیا ہوا کہ آپ شہباز حکومت کے پیچھے پڑ گئے ؟پہلے کسی کے دباؤ کےتحت عمران کو رخصت کیا اور وہ بھی رات کو عدالت کھلوا کر اور پھر آپ بدل گئے اور نئی آنے والی حکومت کو چین سے بیٹھنے نہ دیا؟یہ جاہ طلبی نہیں تو اور کیا تھی؟ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ سیاہ پوش کبھی اپنے بڑوں کا احتساب نہیں کریں گے کیونکہ اس سے انکی اپنی جاہ طلبی (AMBITIONS) کے احتساب کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

کوئی اسے اصول پسندی قرار دے، آئین پر عملداری کا معاملہ قرار دے کوئی اسے عوامی مینڈیٹ اور جمہوریت کا نام دے مگر حقیقت یہ ہے کہ عدالت اس وقت غصے میں ہے دونوں فریقوں میں شدید جنگ ہے۔مشہور فلسفی بنجمن فرینکلن نے کہا تھا وہ چیز جو غصے سے شروع ہوتی ہے اس کا انجام شرم پر ہوتا ہے ۔اسی طرح غصے میں دیئے جانے والے فیصلوں کے بارے میں نیل پرٹ نے کہا تھا ’’چیزوں کے بارے میں جلد فیصلہ کرنے اور جلدی غصے میں آ جانے سے چیزوں کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے ایسے میں جہالت، تعصب اور خوف اکٹھے چلتے ہیں ‘‘ حالیہ دنوں کے فیصلے غصے میں کئے گئے ہیں اس لئے ان کی دیرپا اہمیت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ تاریخ کے سنہرے میناروں کی بجائے کوڑے دانوں کی نذر ہونگے۔

آخر میں عرض ہے کہ اس فیصلہ کن جنگ کا نتیجہ چند ہی دنوں میں نکلنے والا ہے۔ فرض کریں سپریم کورٹ کے اکثریتی جج فتح یاب ہوتے ہیں تو اس کا مطلب الیکشن کمیشن کا خاتمہ، شہباز حکومت اور موجودہ پارلیمان پر سوالیہ نشان کیساتھ ساتھ معاملہ اداروں تک پہنچے گا۔ دوسری صورت میں عدلیہ کے اکثریتی ججوں کے فیصلے کو پارلیمان بے اثر بنا دے گی اور قوت نافذہ رکھنے والے ادارے یعنی حکومت اور مقتدرہ عدلیہ کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دینگے۔ ان دونوں صورتوں میں نقصان تضادستان کا ہوگا۔ 75سال میں ہم نے جو آئین بنایا ہے جو آئینی ادارے تشکیل دیئے ہیں ان کا کچھ نہ کچھ بھرم بھی قائم ہے دنیا بھی ہمارے اس بھرم پر یقین رکھتی ہے مگر اس لڑائی کے نتیجے میں یہ بھرم ٹوٹ جائے گا ۔مقتدرہ کمزور ہو یا عدلیہ، دونوں صورتوں میں ملک کا نقصان ہو گا۔ کاش دونوں طرف کے عالی دماغ کوئی راستہ نکالیں ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ