قارئین کی خاطر خواہ تعداد گلہ کررہی ہے کہ میں یہ طے کرنے سے گریز اختیار کرتا نظر آرہا ہوں کہ تحریک انصاف کا لاہور میں ہوا جلسہ کامیاب تھا یا نہیں۔ شکوہ ان کا بلاجواز نہیں۔ اس ضمن میں میری جانب سے اختیار کردہ اجتناب بھی لیکن بلاسبب نہیں۔
دماغ عموما ضرورت سے زیادہ منطقی انداز میں سوچتا ہے۔ اسی باعث تحریک انصاف کے لاہورمیں ہوئے جلسے پر غور کرتے ہوئے بنیادی سوال یہ اٹھاتا ہوں کہ اسے کامیاب ٹھہرانے کا معیار کیا ہے۔ اس حوالے سے غور کرتے ہوئے مصر رہوں گا کہ لاہور کے جلسے کے ذریعے تحریک انصاف کے بانی درحقیقت مزاحمتی تحریک کا آغاز چاہ رہے تھے۔ مذکورہ جلسے کے انعقاد سے ایک روز قبل عمران خان کی اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ وکلا کے ایک گروہ سے بھی ملے۔ ان ملاقاتوں کے دوران صاف لفظوں میں انہوں نے حامیوں،مداحین اور پیروکاروں کو یہ پیغام دیا کہ مارویا مرجاؤ والا مرحلہ آگیا ہے۔ تحریک انصاف کی مخالف قوتیں یہ طے کرچکی ہیں کہ سابق وزیر اعظم کو طویل عرصے تک جیل میں رکھا جائے گا۔ اس تناظر میں انہوں نے مصر کے سابق صدر مرسی کا ذکر بھی کیا جو اقتدار سے معزول کئے جانے کے بعد زنداں کے حوالے ہوئے اور وہاں سے زندہ واپس نہیں آئے تھے۔
مرسی کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ وہ اخوان المسلمین نامی تنظیم کے نمائندہ تھے۔ مصر میں اس تحریک کا آغاز گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں ہوا تھا۔ اس کے بانیان احیائے اسلام کے پرچارک تھے اور وسیع تر تناظر میں وہ کئی مسلم ممالک میں ابھری ایسی ہی کئی تحاریک سے نظریاتی اعتبار سے جڑے ہوئے بھی تھے۔ پاکستان کے مولانا مودودی اور ان کی بنائی جماعت اسلامی بھی مثال کے طورپر اخوان المسلمین کے ساتھ گہرے روابط کی حامل تھی۔ ان دنوں صہیونی جارحیت کا نشانہ بنی حماس کا بنیادی نظریہ بھی اخوان المسلمین کی سوچ سے مستعار لیا گیا ہے اور یہ سوچ اختیار کرتے ہوئے عرب دنیا کے بے شمار نوجوان 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں افغان جہاد میں حصہ لینے کے لئے میدانِ جنگ میں اترے تھے۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر فقط یہ بات لکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا کہ مصر کے سابق صدر مرسی ایک ایسی تنظیم کے نمائندہ تھے جس کی نظریاتی بنیادیں اور تنظیمی ڈھانچہ طویل برسوں کی جدوجہد پر مبنی تھا۔ مصر کی فوجی آمریت نے اسے بنیادی طورپر ایک خفیہ تنظیم کی صورت کام کرنے کو مجبور کیا۔ سیاسی جدوجہد کے علاوہ اخوان المسلمین خدمت خلق کے بے شمار منصوبوں کے ذریعے بھی معاشرے کے وسیع تر طبقات کے ساتھ اپنے روابط استوار وبرقرار رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔
اخوان المسلمین نے برسوں کی جدوجہد کے ذریعے مصر کے عوام میں حمایت وہمدردی کے جو جذبات پیدا کئے تھے اس کی بدولت عرب بہار کے فوری بعد ہوئے انتخاب میں اس کے نامزد کردہ مرسی اس ملک کے صدر بن گئے۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد مگر وہ اپنے حامیوں تک ہی محدود رہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ برسوں کی حکمرانی کے ذریعے مصر کی قوم پرست اور سیکولر قوتوں نے متوسط طبقات کی کثیر تعداد کو اپنا حامی بنالیا ہے۔ انہیں کچلنا ممکن نہیں۔ بہتر تھا کہ ان کے ساتھ مل کر ہی کوئی درمیانی راہ نکالتے ہوئے مصر میں قابل عمل جمہوری نظام متعارف کروایا جاتا جو دیرپا بھی ہوتا۔ اخوان المسلمین کا کٹرپن مگر اس کے زوال کا سبب ہوا۔ اس کی حکومت کے خلاف عرب بہار جیسی ہی ایک تحریک چلی جس نے ایک اور فوجی آمر کو مصر کا صدر بنادیا۔
تحریک انصاف اپنی سرشت میں اخوان المسلمین سے قطعی مختلف جماعت ہے۔ عمران خان کی کرشمہ ساز شخصیت کی بدولت اس نے نوجوانوں کی کثیر تعداد کو باریاں لینے والے سیاستدانوں کے خلاف متحرک کیا جو بنیادی طورپر قومی خزانے کو بے رحمی سے استعمال کرنے والے چور اور لٹیرے ٹھہرائے گئے تھے۔ اپنے بنیادی پیغام پر قائم رہتے ہوئے اگر تحریک انصاف جدوجہد میں مصروف رہتی تو بالآخر کسی انقلابی تحریک میں تبدیل ہوسکتی تھی۔ اکتوبر2011 کے بعد مگر بتدریج یہ جماعت ریاست کے دائمی اداروں کی سرپرستی میں روایتی سیاستدانوں کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرنا شروع ہوگئی۔ نظام کہنہ کے ساتھ سمجھوتے کے نتیجے میں جولائی 2018 میں ہوئے انتخابات کی بدولت عمران خان پاکستان کی وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوگئے۔ وزارت عظمی پر براجمان ہوجانے کے بعد وہ اپنی پالیسیاں تشکیل دینے کے لئے سیم پیج سے رجوع کرتے رہے۔ بالآخر اکتوبر2021 ہوگیا جس کے دوران سیم پیج والے ان کے رویے سے مایوس ہونا شروع ہوگئے۔
عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں فوجی بغاوت نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے فارغ کروایا گیا تھا۔ ان کی فراغت کے بعد جو حکومت آئی وہ درحقیقت ان کی متعارف کروائی معاشی پالیسیوں کا خمیازہ ہی بھگتتی رہی۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا جو عذاب نازل ہوا اس نے عوام کی کثیر تعداد کو ان کی جگہ آئے لوگوں سے ناراض اور کافی حد تک متنفر بنادیا ہے۔ ان کا غصہ اور نفرت عمران خان کو عوام میں مقبول تو بنارہی ہے۔ اس مقبولیت کو مگر کیش کروانے کی صلاحیت تحریک انصاف میں قطعا مفقود نظر آتی ہے۔
لاہور کا جلسہ ڈو اور ڈائی(مارو یا مرجاؤ) بنانے کے لئے لازمی تھا کہ مقامی انتظامیہ سے مذاکرات کرتے ہوئے تحریک انصاف قطعیت سے یہ پیغام دیتی کہ وہ مینارِ پاکستان تلے ہی اپنے جلسے کا انعقاد کرے گی۔ لاہور کی انتظامیہ نے مگر اس جماعت کے نمائندوں کو مذاکرات میں مصروف رکھا اور تحریک انصاف حفظ ماتقدم کے خیال سے لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرتے ہوئے جلسے کے انعقاد کو ترجیح دیتی نظر آئی۔ طویل مذاکرات کے بعد بالآخر جلسے کا نیا مقام طے ہوگیا۔ اس کے انعقادکے لئے مگر جن شرائط پر عملدرآمدکا وعدہ ہوا وہ کافی حد تک مضحکہ خیز تھیں۔ تین سے چھ ہمارے ہاں فلموں کے شوہوا کرتے تھے۔ کسی سیاسی جماعت کے جلسے کیلئے اس نوعیت کی ٹائم لائن سیٹ نہیں ہوتی۔
تحریک انصاف میری دانست میں اگر ہر صورت مینارِ پاکستان تلے اجتماع کے مطالبے پر ڈٹی رہتی تو انتظامیہ سے اجازت نہ ملنے کے باوجود بھی اس کے حامیوں کی ایک کثیر تعداد مینارِ پاکستان کے گرد پھیلے قدیم لاہور کے بارہ دروازوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقبال پارک کے گردونواح میں جمع ہوسکتی تھی۔ مارویا مرجاؤ والے پیغام کا بنیادی مقصد لاہور میں جلسے کا انعقادنہیں بلکہ اس شہر کے بیشتر مقامات پر پلس مقابلے کے مناظر دکھانا تھا جو بتدریج ملک کے ہر شہر میں پھیلی مزاحمتی تحریک اکسانے کا باعث ہوتے۔ اس تناظر میں جائزہ لوں تو یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنے حامیوں کی بھاری تعداد کو کاہنہ جیسے دور دراز اور جلسوں کے اعتبار سے اجنبی مقام پر جمع کرنے کے باوجود تحریک انصاف 21ستمبر کے جلسے کو کامیاب نہیں کرپائی ہے۔ اس جماعت کے مولا جٹ-علی امین گنڈاپور-بھی 21ستمبر کے روز روایتی اور سوشل میڈیا کو ایسے جی دار کلپ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو انہیں محمود غزنوی کی طرح سومنات کی ایک اور مہم میں مصروف دکھاتا۔ تحریک انصاف مگر پنجاب کے مختلف شہروں میں جلسے کے انعقادہی کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے اور اب اتوار کے روز میانوالی میں شولگانے کا ارادہ ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت