عالم ایجاد میں صاحب ایجاد۔۔۔تحریرڈاکٹرسمیحہ راحیل قاضی


میں اس بہت ہی نورانی چہرے والے بزرگ کے قدموں کے بالکل پاس ہی بیٹھ کر بڑی محویت سے انہیں سن رہی تھی اور اپنے آغا جان کی نصیحت پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہی تھی جو انہوں نے مجھے پشاور سے لاہور اجتماع کے لئے رخصت کرتے ہوئے کی تھی کہ راحیل! جو کچھ بھی مقرربولے وہ تم لکھتی جانا اورآ کر مجھے بتانا۔ پرائمری سکول کی طالبہ ہونے کی وجہ سے اگر چہ مقررین کی باتوں کو بہت زیادہ سمجھ تونہ پارہی تھی مگر جب آخری دن اعلان ہوا کہ اس ہستی کا خطاب ہونے والا ہے جس کی تحریروں اور تقریروں سے ایک عالم مستفید ہو رہا ہے اور جس کی شہرت چہار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے تو مسرت اور خوشی کے وہ جذبات آج بھی مجھے یاد ہیں کہ میں اس عظیم ہستی کو آج دیکھوں گی اور سنوں گی اور یہ آخری خطاب تھا جوانہوں نے اسلامی جمعیت طالبات کے سالانہ اجتماع سے کیا تھا اور غالبا یہ 1976ء کی بات ہے۔

اجتماع کے بعد ہماری ناظمہ اعلی محترمہ بدر النساء ہم چند جمعیت کی طالبات کو اس ہستی کے گھر ان سے ملانے لےگئیں ۔ اماں جان نے ہمیں بڑے پیار سے بٹھایا اورکہا کہ وہ بھی آنے والے ہیں ۔ آپ ان کے کمرے میں ان کا انتظار کر لیں اور جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے جلال و جمال کی خصوصیات سے مزین ایک روشن آفتاب طلوع ہو گیاہے ۔ مجھے ابھی تک ان کی شخصیت کا وہ سحر محسوس ہوتا ہے۔

اسلامی جمعیت طالبات اور مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے وابستہ یہ پہلی یاد میری زندگی کا حسین سرمایہ ہے جس سے میں آج تک فیض حاصل کر رہی ہوں۔ ہمارے گھر میں مولا نا محترم کا ذکر بڑے احترام اور محبت سے ہوتا ہے۔ ہمارا پورا گھرانہ دیو بندی مکتبہ فکر سے وابستہ تھا اور دین وسیاست کو یکجا کرنے میں میرے بزرگوں کا بہت عمل دخل رہا ہے۔ ایسےمیں میرے ننھیال اور دھدیال دونوں ترجمان القرآن اور اسلامی جمعیت طلبہ کی وجہ سے مولانا محترم سے متعارف ہوئے۔

آغا جان کہتے ہیں کہ میں آٹھویں جماعت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوا اور مولانا مودودی ؒسے تعارف نصیب ہوا۔ وہ ہمیشہ ان کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتے ہیں کہ جس شخصیت کو میں ساری عمر آئیڈیلائز کرتا رہا جس کے خاطر زندہ باد کی نعرے لگاتا۔ آٹے کی لئی بنا کر ساری رات دیواروں پر پوسٹر لگا تا۔ الخدمت کے ٹرکوں کے ساتھ کارکن کے طور پرمصیبت زدہ علاقوں میں جاتا۔ اجتماع گاہ میں دریاں بچھا تا تھا۔ اس وقت کہیں ذہن کے

دور دراز گوشے میں یہ تصور نہ تھا کہ میں اُن کا جانشین بنوں گا اور یہ اتنی بڑی ذمہ داری میرے سپرد کی جائے گی۔

ہمارا روایتی دین دار گھرانہ جب مولانا مودودیؒ کی فکر رسا سے فیض یاب ہوا تو آغا جان نے ہماری تربیت میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور بچپن سے ہی ہمیں جمعیت سے وابستہ کر کے مولانا کا لٹریچر از برکرانے کی حد تک پڑھایاتفہیم القرآن کا مطالعہ ہمارے گھر کے روزانہ معمولات کا لازمی جزوہے۔ ایک دن میں نے کہا کہ آغا جان !

مولانا رحمتہ اللہ علیہ کی مغفرت کیلئے اور درجات کی بلندی کیلئے تفہیم القرآن ہی کافی ہے۔ آج کے جدید ذہن کے طالب علم پریہ ان کا سب سے بڑا احسان ہے ۔ انہوں نے جواب دیا کہ بے شک تفہیم القرآن ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن ان کا سب سے بڑا احسان امت پر اور اس قوم پر ” جماعت اسلامی ” ہے جو انہوں نے بالکل اس نہج پر بنانے کی کوشش ہے جو حضور نبی کریمﷺ کا طریقہ تھا اور اخلاص اور للہیت اور امت مسلمہ کے عروج کے شوق کے ساتھ انہوں نے یہ گروہ تیار کیا اور اللہ نے ان کے اخلاص کو اتنی برکت دی ہے کہ 75 افراد کا یہ چھوٹا سا قافلہ اب سیل رواں بن چکا ہے اور پوری دنیا میں تحریک اسلامی سےوابستہ مخلص کارکنوں کے وجود سے وہاں کے معاشروں میں اسلام کی خوشبو پھیل رہی ہے۔ دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں جماعت یا جمعیت کا کارکن استقبال کیلئے موجود ہوتا ہے۔ یہ سب مولا نا محترم کا فیضان ہے۔

آج اسلام دشمن قو تیں تحریک اسلامی کی جس بیداری سے لرزہ براندام ہیں۔ خواب خرگوش میں مست ڈوبی ہوئی قوم کو بیدار کرنے میں مولا نا محترم کا بڑا حصہ ہے۔ ان کے دیئے ہوئے لٹریچر اور ان کی منظم کی ہوئی

جماعت اسلامی کی بدولت معاشرے میں خیر پھیل رہا ہے اور بدی کے مقابلے میں نیکی منظم ہوئی ہے۔ ان کی قائم کی ہوئی تنظیم کا اعتراف آج ہر دوست اور دشمن کرتا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ ہماری قوم کی بڑی بد نصیبی ہے کہ اس نے مولا نا محترم کی قدر نہ کی ۔ ان جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کی بنائی ہوئی تنظیم ہماری قوت ہے اور ان کا دیا ہوا اعتماد ہمارا اثاثہ ہے۔ ان کی دی ہوئی فکر کی بدولت آج ہم جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکنے کے قابل ہوئے ہیں۔ آج کی اکیسویں صدی کی مسلمان عورت پر مولا نا محترم کا بڑااحسان ہے کہ انہوں نے عورت کا اپنے قابل قدر ماضی سے رشتہ جوڑا ہے۔ اپنی اقدار اور روایات پر فخر کرنا بھی سکھایا ہے اورانہیں جدید علوم سے آراستہ کرنے پر بھی زور دیا ہے اور انہیں جدید دور کے فتنوں سے آگاہ کر کے ان کےمد مقابل سارے ہتھیاروں سے لیس کر کے مقابلہ کرنے کی ہمت اور منصوبہ بندی کرنے کا شعور بھی دیا ہے۔

دور حاضر کے چیلنجز اور اس میں خواتین کے کردارکواہمیت دی اور یہ سبق دیاکہ مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیوں میں خواتین اسلام کی روشنی کی کرن بن جائیں اور قومی سلامتی اور امت مسلمہ کی سر بلندی کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔

حلقہ خواتین جماعتِ اسلامی  کے آغاز کو تلاش کرنے کیلئے اور اق گزشتہ کی چھان بین شروع کی ۔ جماعت کی رودادیں ، اجتماعات کی سرگزشتیں اور دیگر مواد کو تلاش کیا۔ آخر میں آپا حمیدہ مرحومہ کے ذکر خیر پر مشتمل ایک تاریخی اور معلومات سے بھر پور کتاب سے استفادہ کیا جس میں ہمارے مرشد و عظیم قائد مولانا مودودیؒ کی اہلیہ محترمہ اور ہماری پیاری “اماں جان “فرماتی ہیں کہ1945 ء میں الہ آباد انڈیا میں جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا اور ہماری بہت ہی پیاری آیا ام زبیر کے قلم کی تحریر ہے کہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کا کام با قاعد و فروری 1948 میں منظم ہوا اور مارچ 1948ء میں آیا حمیدہ بیگم کو اس کی پہلی سیکرٹری جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اس کتاب میں ایک اور معتبر گواہی جماعت اسلامی کو دنیا کی اسلامی تحریکوں کی صف میں متاز مقام پر پہنچا دینے والے ہمارےعظیم المرتبت قائدمحترم میاں طفیل محمد صاحب رح کی ہے ۔جنہوں نے  17 اپریل 1944ء کو جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام شروع کیا اور حلقہ خواتین کے کام کیلئے آپا جی حمیدہ بیگم سے مسلسل رابطہ رکھا رہا۔

روایتوں سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی کو ابتداء سے ہی حضور نبی کریمﷺ کی سنت کے اتباع میں میدان عمل میں صف آراء کیا اور خواتین میں دین کے کام کو برابر کی اہمیت دی کہ چونکہ اللہ اور اس کےرسولﷺ نے بھی صنفی برابری کے تصور کو بہت شد و مد کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ قرآن کریم اور حضورﷺ کی سنت مرد وعورت کو بحیثیت انسان ایک اکائی تصور کرتے ہیں اور اجر و پاداش میں بھی یکساں معاملہ ہونے کی خبر دیتے ہیں۔

مجھے 1982میں مولانا مودودیؒ کی بیگم (جنھیں ہمارے گھر میں  اماں جان محترمہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا،) کا ہمارے گھر تشریف لائی تھی  ۔آغاجان انکی گاڑی کا دروازہ کھول کر با ادب کھڑے تھے ،وہ اپنے کچھ مسائل ڈسکس کرنے تشریف لائے تھیں اور آغاجان پردے کے پیچھے سے بغور انکی بات سن کر انھیں تسلی دے رہے تھے کہ ہم آپ کے حکم کے مطابق سب کچھ کریں گے -پورا دن گزار کر بہت دعاوں کے ساتھ رخصت ہوئےتھیں -اپنی وفات سے کچھ دن قبل ہم اسماء آپا کے گھر ان کی عیادت کے لیئے گئے -تو وہ بولتی نہ تھیں مگر جب آپا نے انھیں امی کا بتایا کہ قاضی صاحب کی بیگم آپ سے ملنے آئی ہیں اور ان کے روئی کے گالوں جیسا نرم ہاتھ جب امی نے تھاما تو انکی آنکھ سے ایک آنسو انکے گال پر ڈھلکتا چلا گیا اور اسماء آپا نے کہا کہ انھوں نے آپ کو پہچان لیا ہے –

میاں طفیل محمدؒ  کا گھرتو ہمارے ہمسائے میں تھا -آغاجان انھیں میاں صاحب محترم کا طفیل قبیلہ کہتے تھے –انتہائی شرافت اور اخلاق کا مرقع قبیلہ اور اس میں زیادہ وصف میاں صاحب کی اہلیہ محترمہ ہماری جنت مکین خالہ جان کا تھا -زمین پر ایسے چلتی تھیں کہ کسی چیونٹی کو بھی تکلیف نہ ہو -اجتماع میں ایک کونے میں چپ کر کے بیٹھ جاتی تھیں –خودنمائی  اور شہرت سے کوسوں دور کسی اور ہی جہان کی باسی معلوم ہوتی تھیں -ہمیں انکی شفقت ہی شفقت یاد ہے -انتہائی نفیس اور صاف ستھرا ذوق انکے گھر ،انکی اولاد انکے اخلاق سب کچھ سے عیاں ہوتا تھا اور ہم نے انکی بہت محبتیں سمیٹیں -آخری وقت وہ اور امی اپنے ہمسائے میں ایک بیٹی کی شادی میں اسے رخصت کر کے آئیں -مغرب کی اذان ہو رہی تھی امی اپنے گھر آکر نماز پڑھنے کھڑی ہوئیں اور خالہ جان اپنے گھر اور دوران نماز سجدے میں اپنے رب سے ملاقات کے لیئے چل پڑیں -خوش بخت خالہ جان کی خوبصورت زندگی اور قابل رشک رخصتی -خالہ جان کے بعد اپنی امی کو اپنے جماعت کے کارکنان سے اتنی گہری محبت کرتے دیکھا کہ ہم جماعت میں قاضی حسین احمد کے ساتھ ساتھ بیگم قاضی کی محبتوں کا ثمر بھی سمیٹ رہے ہیں -تنظیم اور سمع وطاعت ہم نے اپنی امی سے سیکھی -جماعت پر تن من دھن وار دینا اور گرم وسرد حالات میں جماعت کی ڈھال بنے رہنا انھوں نے ہی سکھایا -جمیعت علمائے ہند کے اکابر علماء کے گھروں میں پرورش پانے کے باوجود مولانا مودودی رح کے لٹریچر کی ایسی اسیر اور تفہیم القرآن کی دلدادہ امی جماعت اسلامی کے تیسرے امیر کی بیوی نہیں بلکہ کارکن کے طور پر ابھی تک قابل احترام سمجھی جاتی ہیں۔

امی کے بعد امیر  محترم  سید منور حسن صاحب کی اہلیہ عائشہ باجی تو ہماری ہیرو اور ہماری آئیڈیل خاتون لیڈر ہیں جنھوں نے ہم زیرو کارکنان کو ہر طرح کا اعتماد بخشا اور چھوٹی عمر میں بڑے بڑے خواب ہماری آنکھوں میں سجا دئیے-اس وقت لگتا تھا سارا زمانہ ہمارے پاوں کی ٹھوکر پر ہے اور عائشہ باجی کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں تھا –

منورحسن  صاحبؒ کا میرے سسرمولانا عبد العزیزؒ کا ساتھ بھی بہت عقیدت واحترام کا تعلق تھا  -اس وجہ سے بھی وہ تعلق بڑھتا چلا گیا -عائشہ باجی نےقومی اسمبلی میں پانچ سال کا عرصہ ایک شفیق ماں کی طرح میری حفاظت کرتے ہوئے میری راہنمائی اور تربیت  کی -اسکے بعد سراج لالہ کی اہلیہ ماہتاب بھابھی نے واقعی ایک بہن اور امی کی بیٹی ہونے کا حق ادا کر دیا -دس سال انھوں نےامیر جماعت کے گھر  کو جماعت اسلامی کی خواتین کا میکہ بنائے رکھا -امی کو وہ گرم روٹی بنا کر بھجواتی رہیں ‘ہم انکے گھر بلا تکلف اپنی سہولت اور اپنی ضرورت کے مطابق کسی بھی وقت چلے جاتے اور اپنی بات سنا آتے-ماہتاب بھابھی کا دروازہ ہمیشہ انکے دل کی طرح کھلا ہی پایا –

آج جب ان خوبصورت یادوں کے تسلسل میں امیر جماعت محترم  حافظ نعیم الرحمن بھائی کی اہلیہ ڈاکٹر شمائلہ مجھ سے اور امی سے ملنے آئیں -وہ منصورہ میں آتے ساتھ ہی ہمیں یہ احساس دلانے آئیں کہ جماعت انھی روایات کی حامل ہے جس میں عورت کو ایک  خاندان کا تحفظ حاصل ہے -اس نے امی کو دیکھ کر کہا کہ میں نے رات کو خواب میں اپنی فوت شدہ امی کو دیکھا تھا مجھے لگا کہ میں اپنی  امی سے مل رہی ہوں -مجھے ایسے گلے سے لپٹ کر کہا کہ باجی مجھے آپ اپنی بڑی بہن ہی لگتی ہیں -مجھے لگا کہ ان شاءاللہ ہم اپنی جماعت اسلامی کو پاکستانی خواتین کے لیئے تحفظ سے بھرپور اور رشتوں سے معمور جماعت بنائیں گے جس میں ہر عورت کے لیئے اسکی دلچسپی کے مطابق کام ،اسکے لیئے محفوظ ماحول اور عزت واحترام ہوگا –

آج ڈاکٹر  شمائیلہ سے ملاقات نے یادوں کی یہ بارات سجا دی اور ان شاءاللہ ہم اپنے قائدین حافظ نعیم الرحمن اور ڈاکٹر حمیرا طارق کی قیادت میں جماعت اسلامی کو خواتین کے لیئے ایک مہربان جماعت کے طور پر پاکستان کی خواتین کے سامنے پیش کریں گے اور اپنے امیر محترم کی رہنمائی میں خواتین کو اس “حق دو عوام کو” تحریک کا حصہ بنائیں گے اور خواتین کے حقوق بھی لے کر دکھائیں گے ان شااللہ ۔ہوتا ہے جادہ پیما پھر کاررواں ہمارا