بڑا ہونے میں دیر لگے گی : تحریر محمود شام


میرا پوتا کہہ رہا ہے۔’’ دادو میں ایک بڑا مکان بناؤں گا۔ مگر آپ تو اس وقت ہوں گے نہیں۔‘‘

میں پوچھتا ہوں۔’’ میں کیوں نہیں ہوں گا۔‘‘

وہ کہتا ہے۔’’ مجھے بڑا ہونے میں ابھی دیر لگے گی۔‘‘

……

نئی نسل میں عزم بھی ہے، وقت کا ادراک بھی، حقیقت پسندی بھی۔

ایک طبقہ مگر ایسا بھی ہے جہاں خواب دیکھنے سے پہلے پورے ہوجاتے ہیں۔ وہاں جائز ناجائز قانون سے ماورا بھی خوابوں کی تعبیر حاصل کرلی جاتی ہے۔ خوابوں کو یوں شرمندۂ تعبیر کرلینے سے معاشرے میں زبردست عدم توازن پیدا ہوتا رہا ہے۔ ایک طبقہ جو اکثریت میں ہے۔ اس کے خواب تو وقت پر بھی پورے نہیں ہوتے۔ دوسرا طبقہ ایسا ہے جس کے خواب جب جی چاہے پورے ہو سکتے ہیں۔ طاقت ور اس کے ساتھ ہیں، قانون بھی سر جھکائے راستے کی ہر رُکاوٹ دور کرنے پر آمادہ، یوں ہماری اکثریت قوموں کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے اور مٹھی بھر اشرافیہ وقت سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ دونوں صورتیں معمول کے مطابق نہیں ہیں۔

بڑا ہونے میں واقعی دیر لگتی ہے۔ قدرت کے اپنے اصول ہیں، جب قدرت کے اصول اور انسان کی کوشش ٹکرانے لگتے ہیں تو معاشرے ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں۔ ایک لحاظ سے تو میں بہت مطمئن ہوں کہ ہم پر دنیا کا ہر تجربہ ہو چکا ہے۔ ہر قسم کا طرز حکومت ہم نے دیکھ لیا ہے۔ مادر پدر آزادی بھی، سخت پابندیاں بھی، سفاک جمہوریت بھی، پُر خلوص فوجی حکمرانی بھی، افراتفری بھی، طوائف الملوکی بھی، منتخب بھی۔ آج کل چنتخب بھی۔ راتوں رات لکھ پتی ہونے والے بھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ غلط طریقے سے بڑے ہونے والے باقی سب کو چھوٹا کر دیتے ہیں اور جب چھوٹے بہت زیادہ ہو جائیں تو بڑے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ خوف اور خطرات بڑھ جائیں تو اپنی ذات کا تحفظ مقدم ہو جاتا ہے، قوم پیچھے رہ جاتی ہے۔ قوم پر قرضے چڑھتے رہتے ہیں۔

اس وقت پاکستان پر کتنے قرضے واجب الادا ہیں۔ میرے خیال میں ہر پاکستانی کی فکر یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے سر سے قرضوں کا بوجھ کب اترے گا اور کیسے اترے گا۔ قرضوں کی رقم اگر سرکار حتمی طور پر بتا دے تو بہتر ہو گا۔ گوگل کے مطابق 223ارب امریکی ڈالر غیر ملکی قرضے ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے در پر دستک دے رہے ہیں۔ وہاں سے دستک کا جواب بھی بڑے رد و کد کے بعد دیا جاتا ہے۔ قرضہ لینے کیلئے بھی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ کچھ خوشحال ملکوں سے ضمانت دلوانا ہوتی ہے یعنی پہلے ان کا مقروض ہونا پڑتا ہے اگر وہ قرضہ جاری کردیں تو عالمی مالیاتی ادارہ بھی قرضے کی قسط جاری کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کے اجرا میںبڑے فاصلے ہیں۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دوستی کا حق ادا کیا ہے۔ اب جو 7ارب ڈالر ملنے والے ہیں یہ بہت قیمتی قرضہ ہے۔ یہ ڈالر کہاں استعمال ہوں گے، یہ مسودہ بھی مجوزہ آئینی ترامیم کی طرح نایاب ہے۔خبر،آگہی، علم، واقفیت، ادراک، سارے الفاظ ہم معنی ہیں۔ مگر ان کے درجات الگ الگ ہیں۔ قرض لینے کیلئے جتنی شرائط ہیں۔ مختلف مراحل ہیں۔ خبر سے ادراک تک بھی اتنے ہی فاصلے ہیں۔ حبیب جالب کہہ گئے ہیں۔

عجب اپنا سفر ہے فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

ان فاصلوں کو کم کرنے کیلئے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ تقدیر کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ہماری مدد کو آنے والے ان تینوں ملکوں میں جمہوریت کا کوئی نظام نہیں حالانکہ آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے امریکہ نے دنیا میں جمہوریت کے استحکام کیلئے قائم کیے ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے، حالات حاضرہ پر گفتگو کا دن۔ میں تو دل کی گہرائی سے قائل ہوں کہ ہمارا مستقبل یہ اولادیں ہم سے زیادہ حالات کو سمجھتے ہیں۔ نیک و بد میں تمیز رکھتے ہیں۔ وہ حکمرانوں کے عزائم بھی اچھی طرح جان گئے ہیں اور یہ بھی احساس رکھتے ہیں کہ ہمارے حالات میں حقیقی تبدیلی کب آئے گی۔ ہماری معاشی مشکلات کتنی کووڈ 19 کی بدولت ہیں اور کتنی ہمارے جاگیر دارانہ، سرمایہ دارانہ نظام کے باعث، کتنی نام نہاد جمہوریت کے باوصف۔ پچھلے کالم میں ہم نے اداکاری کے پہلوؤں پر بات کی تھی۔ فلموں ڈراموں میں اجتماعی گیتوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ جمہوری نظام میں شعبوں کی، اختیارات کی تقسیم کی جاتی ہے۔ ہر منتخب وزیر اپنے اپنے شعبے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور وزیر اطلاعات وفاقی یا صوبائی حکومت کا ترجمان ہوتا ہے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ سب مل جل کر ایک ہی کورس میں گائیں۔ لیکن جب انجانے خوف لاحق ہوں تو اجتماعی راگ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ آج کل ٹیپ کا بند یہ ہے کہ آئینی ترامیم پر مشاورت کی جارہی ہے۔ نیا مسودہ جلد آجائے گا۔

اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ایسی سر زمین عطا کی ہے جس میں ہر نعمت موجود ہے۔ سمندری وسائل، دریا، سر سبز پہاڑ، زرخیز زمینیں، تیل گیس لیے ریگ زار۔ ایک روز خبر دی جاتی ہے کہ سمندر کی تہوں میں بے حساب ذخائر مل گئے ہیں۔ مسائل اور مصائب میں گھری قوم مشکل سے کچھ پُر امید ہوتی ہے مگر اس کے بعد اس سے ملحقہ کوئی خبر نہیں آتی ہے ریکوڈک کے بارے میں بھی خاموشی ہے۔ گندم کی قیمت خرید بر وقت مقرر نہ ہونے سے جو الجھنیں پیدا ہوئی تھیں۔ اگلی فصل کیلئے کیا ارادے ہیں، اس پر پارلیمنٹ میں کوئی بات نہیں ہورہی ہے، کوئی سوال نہیں پوچھا جا رہا ہے۔ 60فی صد آبادی نوجوان ہے، توانا ہے، بہت قیمتی اثاثہ۔ ہمارے نوجوان وہ سب کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جو امریکہ یورپ کے نوجوان کر سکتے ہیں۔ ہم کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں پر اُداس ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں تو ایسا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ اس کی عشرت رفتہ واپس لانے کیلئے بہت شور مچ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ 60 کی دہائی والی ہاکی واپس لے آئے۔

موجودہ چیف جسٹس۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دَور 17ستمبر2023سے شروع ہوا تھا۔ ان کا نوٹیفکیشن 23جون 2023کو جاری ہو گیا تھا۔ اس سے ایک عدالتی استحکام کا احساس ہوا تھا۔ اگلے چیف جسٹس کا دور رائج الوقت آئینی اصولوں کے مطابق 26اکتوبر 2024کو شروع ہونا ہے۔ اب ایک مہینہ چار دن رہ گئے ہیں۔ اب تک نوٹیفکیشن نہیں آیا ہے۔ البتہ بے شُمار آئینی ترامیم آ رہی ہیں۔ امریکی آئین میں اڑھائی سو سال میں 27ترامیم ہوئی ہیں۔ ہم 1973 کے آئین میں 26ویں ترمیم کرنے جارہے ہیں۔ اس آئین کو 1999-1977 میں سر دخانے میں ٹھنڈا بھی کرچکے ہیں۔ لیکن ہمارا اصل مقابلہ بھارت سے ہے۔ اس نے 1950میں منظور شدہ آئین میں اب تک 106 ترامیم کی ہیں۔ ابھی تو ہم بہت پیچھے ہیں، بڑا ہونے میں دیر لگے گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ