دلِ خوش فہم کو امیدیں! … تحریر : سہیل وڑائچ


احمد فراز جیسے بڑے لوگ ہوں یا ہم جیسے حقیر، سب ہی امید پر زندہ رہتے ہیں، سیاسی اور معاشی منظر پر بحران در بحران اور ہر محاذ پر کشیدگی سے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں مگر رجائیت پسندوں کو بہت دور ٹمٹماتی ہوئی شمع بھی نظر آئے تو وہ انہیں مینارہ نور نظر آتی ہے۔ آئیے ایک رجائیت پسند، امید پرست اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والے کی حیثیت سے ان اندھیروں میں روشنیوں کو ڈھونڈیں اور آئیے گرد و پیش سے ملنے والے مثبت اشاروں کو جانیں۔

کوئی مانے نہ مانے، ہمارا کوئی دخل تھا یا نہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس سے بھارتی پالیسیوں کو شکست ہوئی ہے اور بالواسطہ ہی سہی پاکستان کو فائدہ ہوا ہے۔ 50سال بعد تاریخ نے کروٹ لی ہے اور دو قومی نظریے کا پھر سے غلغلہ بلند ہوا ہے۔ گزشتہ 50سال سے سقوط ڈھاکہ نے ریاستی بیانیہ پر جو مردنی طاری کر رکھی تھی اب اسے پھر سے تازہ ہوا مل گئی ہے، بنگلہ دیش کی تبدیلی خطے میں ہماری اہمیت کو اور اجاگر کر گئی ہے۔

بھارت کے الیکشن نتائج وہ دوسرا مثبت اشارہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوتوا اور مودی کے انتہا پسندانہ بیانیے کی پاکستانی مخالفت درست نکلی ہے، بھارت کے عوام نے مودی کی پالیسیوں کو بڑے پیمانے پر رد کر دیا ہے۔ بھارت سے غیر سرکاری مذاکرات کرنے والے ایک مہربان نے بتایا کہ الیکشن نتائج کے بعد سے بھارت کے جرنیلوں، افسروں اور دانشوروں کے رویے میں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے تھے، پاکستان سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے، کشمیر کے مسئلے کو نظر انداز کرنا چاہتے تھے۔ مودی کو الیکشن میں جو جھٹکا ملا ہے اس سے وہاں زمینی حقائق کا ادراک ہونا شروع ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ اب بھارت کا تکبر ٹوٹنا شروع ہو گیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ مذاکرات کا دروازہ کھلے گا۔

افغانستان سے ہمارے مسئلوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، افغانستان سے دہشت گرد مسلسل پاکستان میں آکر کارروائیاں کرتے ہیں اور افغانستان کی طالبان حکومت نہ انہیں منع کرتی ہے اور نہ روکنے پر آمادہ ہے بلکہ اگر سچ کہا جائے تو وہ یہ ہے کہ پاکستانی طالبان اور افغان طالبان بھائی بھائی ہیں۔ پاکستان نے ہر طرح کی کوششیں کر لی ہیں محبت، پیار کے پیغامات بھیجے، مسلسل بین الاقوامی حمایت کی مگر افغانستان کی طالبان حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔

ریاست پاکستان چاہے تو ایک ہی ہلے میں وہاں کی حکومت کو اڑا دے مگر ریاست پاکستان افغانستان سے لڑنا نہیں چاہتی، اب پردہ غیب سے افغان طالبان کیخلاف افغانستان کے اندر ہی ایک مخالف اتحاد بننا شروع ہو گیا ہے جس میں گلم جم ملیشیا کے سربراہ عبدالرشید دوستم، احمد شاہ مسعود کے ساتھی اور دوسرے لبرل گروپ شامل ہیں۔ آنے والے دنوں میں افغانستان کے اندر وہ کھچڑی پکنے والی ہے جس سے ریاستِ پاکستان پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں موثر کمی ہو گی، فی الحال ریاست نے طالبان مخالف اتحاد کی مدد کرنے کا فیصلہ نہیں کیا لیکن فرض کریں طالبان نے مجبور کر دیا تو پھر افغان حکومت بھی مستحکم نہیں رہ سکتی۔ افغان طالبان کو یاد رکھنا چاہئے کہ روس کے ساتھ جنگ ہو یا امریکہ کے ساتھ، پاکستانی ریاست اگر ان کو نہ بچاتی تو اب تک وہ مٹ گئے ہوتے، پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اپنے مفادات کو مجروح کر کے بھی افغان طالبان کو بچایا مگر انہیں اس کا احساس تک نہیں۔ پاکستان اور امریکہ میں ناراضی کی وجہ افغان طالبان کی پاکستانی حمایت تھی مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ایک فاش غلطی تھی، اب اس کا مداوا کرنا شروع کر دیا گیا ہے افغانستان کے بدلتے حالات بھی مستقبل کیلئے ایک مثبت اشارے میں بدلیں گے۔

ہماری سرحد ایران سے بھی ملتی ہے، ایران سے ہمارے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ بلوچستان کے اندر دہشت گردی کرنے والے ایران اور افغانستان کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو ایران ہی سے بلوچستان میں مداخلت کرواتا تھا۔ ان حالات کے باوجود پاکستان نے مغربی دنیا کے اس دباؤ کو ہمیشہ مسترد کیا ہے کہ پاکستان ایران کے خلاف معاندانہ پالیسی اپنائے یا ایران سے دشمنی کر کے مقابلے بازی پر آ جائے، جلد یا بدیر ایران کو بھی احساس ہو جائے گا کہ بھارت سے اسکی دوستی کی پینگیں خود اسے نقصان پہنچا رہی ہیں، ایک طرف تو بھارت اسرائیل کا اتحادی ہے اور دوسری طرف ایران کا، ایران کو یہ تضاد کیوں نظر نہیں آ رہا۔

چین سے ہماری مثالی دوستی ہے دفاعی تعاون زیادہ اور تجارتی شراکت داری بہت کم ہے سی پیک کے حوالے سے پہلے جیسی سرگرمی نظر نہیں آ رہی، چینی بھائیوں کو سیکورٹی کے حوالے سے تحفظات تھے شروع میں تو ریاست دفاعی لائن اختیار کرتی رہی لیکن اب واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ چینی افسروں پر حملے مغربی طاقتوں کے اشارے پر ہو رہے ہیں اور امریکہ اور چین کی جنگ ہماری سرزمین نہیں پر ہونی چاہئے۔ چین براہ راست افغانستان سے دہشت گردی کی شکایت پر آمادہ نہیں تھا جس سے کئی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں دہشت گردوں سے مذاکرات اور خود اپنی سیکورٹی کرنے کی دونوں خواہشوں کو بھی ریاست نے مسترد کر دیا ہے، اس لئے چین سے تعلقات اب محبت کے دائرے سے نکل کر حقائق کی نگری میں آ گئے ہیں، امید یہ کی جا رہی ہے کہ حقائق پر مبنی دوستی زیادہ فائدہ مند اور عملی ہو گی آنے والے دنوں میں چھوٹی موٹی غلط فہمیاں ختم ہو جائیں گی، اب زبانی جمع خرچ کم اور گوادر کو مکمل کرنے جیسے عملی کاموں پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کافی استحکام پیدا ہوا ہے ماضی کی تلخ باتوں کو بھلایا جا رہا ہے اور مستقبل میں پھر سے اکٹھے چلنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکہ کو مکمل اعتماد میں لیا گیا ہے اور وہاں سے دہشت گردوں کی پاکستان میں کارروائیوں پر امریکہ کو بھی تشویش ہے۔ برطانیہ سے تعلقات معمول کے مطابق ہیں تاہم پاکستان میں تعینات برطانوی سفیر کی سیاسی سرگرمیوں پر سفارتی حلقوں میں کافی تشویش پائی جاتی تھی اور وہ کہتے تھے کہ برطانوی سفیر کو تو آزادی ہے کہ وہ جسے چاہے پاکستان میں مل لے لیکن برطانیہ میں پاکستانی سفیر سے کوئی عہدیدار ملنے کو تیار نہیں۔ اس طرح کی سرگرمیاں برابری کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔

دل خوش فہم کو یہ امید بھی دلائی گئی ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے بعد خلیج سے سرمایہ کاری کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سسٹم چل پڑا ہے، تاہم عدالتی معاملات چلتے رہیں گے مگر اب کسی بڑے دھچکے کو رونما نہیں ہونے دیا جائے گا، یہ ہیں وہ تمام امیدیں جو اندھیروں میں روشنی کا پتہ دے رہی ہیں، کتنی امیدیں پوری ہونگی اور کتنی صرف آرزوئوں تک رہیں گی یہ تو خدا ہی جانتا ہے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی سہی، امید رہنی ضروری ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ