آئینی ترامیم کے لیے ہفتہ اور اتوار کو طلب کیے گئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کیے رکھا۔ کوئی نتیجہ برآمد نہ ہونے پر سیاسی طور پر پہلے ہی سے دبکی ہوئی مسلم لیگ ن کی شدید سبکی ہوئی، نالائقی کی حد ہے کہ ہوم ورک مکمل نہ تھا اور گوشہ نشین میاں نواز شریف کو بھی اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کر لیا گیا۔ وہ اسلام آباد پہنچے اور اپنے لیے کوئی مصروفیت نہ پا کر بد مزہ ہو کر چپ چاپ واپس لاہور لوٹ گئے۔ معاملہ گنتی پوری کرنے کا تھا یا مولانا فضل الرحمن کو رضا مند کرنے کا، دونوں صورتوں میں وفاقی حکومت کے پاس واضح لائحہ عمل ہونا چاہیے تھا۔ مسودہ کس نے تیار کیا، کس کے پاس کب آیا؟ اس حوالے سے وزرا کے بیانات مضحکہ خیز ثابت ہوئے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ اپنا تماشا خود بنایا گیا۔ اس اعصاب شکن ماحول میں مولانا فضل الرحمن سب کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے رہنما ان کی اقامت گاہ کے چکر لگاتے رہے تو پی ٹی آئی والے بھی بار بار حاضری دیتے رہے۔ دوسری چھوٹی جماعتوں کے عہدیدار بھی وہیں گھومتے پائے گئے۔ واقفان حال کے مطابق اختلاف مسودے پر ہوا۔ کسی ایک فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریٹائر منٹ کی عمر کی حد میں اضافہ اختلافی نکتہ تھا لیکن اس کا حل ڈھونڈا جا سکتا تھا۔ پھر اچانک معلوم ہوا کہ فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کے حوالے سے کچھ ایسی شقیں بھی مجوزہ ترامیم میں شامل کر دی گئی ہیں جس کے نتیجے میں سکیورٹی اداروں پر تنقید کرنے والوں کا ٹرائل بھی وہیں ہو گا۔ کئی ممالک میں قانون یہی ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملے کرنے والے سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلتے ہیں لیکن تنقید یا تقریر کرنے پر کارروائی عام عدالتوں میں ہی ہوتی ہے۔ سنا تو یہاں تک گیا ہے کہ خود نواز شریف نے بھی اس پوائنٹ کا علم ہونے پر مخالفانہ رائے کا اظہار کیا۔ عام مشق ہے کہ جب آئینی ترامیم اور قانون سازی کرانا ہو تو ووٹنگ کے لیے ارکان کی گنتی پہلے ہی کر لی جاتی ہے۔ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں باقاعدہ حاضری لگائی جاتی ہے۔ ناشتے، ظہرانے، عشائیے رکھ کر ارکان کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس مرتبہ یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ وزیر اعظم شہباز شریف سے لے کر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ تک نے سارا معاملہ کسی اور پر چھوڑ رکھا تھا ورنہ صورتحال کا پیشگی ادراک کر کے مختلف جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا جا سکتا تھا اور اس طرح کی خفت سے بچنا مشکل نہیں تھا۔ ن لیگ کے ساتھ جو ہوا سو ہوا لیکن اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ججوں کو آئینی و قانونی دائرہ کار کے اندر لانے کا یہ عمل رک جائے گا تو احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی ججز بحالی تحریک پاکستانی عوام کے ساتھ ہونے والے بڑے دھوکوں میں سے ایک دھوکہ ثابت ہوئی۔ نظام انصاف تو خاک بہتر ہونا تھا الٹا ججوں نے اپنی اسٹیبلشمنٹ کھڑی کر لی۔ ان کی آڑ لے کر اکثر وکلا گروپ اور تنظیمیں بھی آپے سے باہر ہو گئیں۔ تازہ مثال ہی دیکھ لیں پارلیمنٹ میں آئینی ترامیم لانے کا علم ہونے پر پی ٹی آئی کو بحال کرنے کا فیصلہ دینے والے آٹھ ججوں نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرنے کے بجائے ہفتہ کی شام ایک وضاحت جاری کر کے اس عمل کو روکنے کی کوشش کی۔ ان ججوں کے بارے میں پہلے ہی گرما گرم تبصرے ہو رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی حدود سے باہر نکل کر آئین کو ری رائٹ کر ڈالا ہے۔ اب وضاحت جاری ہونے پر بھی تنازع ہے سپریم کورٹ کا عملہ وضاحتیں دے رہا ہے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں یہ کہاں سے آئی اور ویب سائٹ پر کیسے اپ لوڈ ہو گئی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ جج صاحبان نے وضاحت جاری کرنے سے پہلے مروجہ طریق کار کے مطابق فریقین کو نوٹس جاری نہیں کیے۔ اسی لیے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تبصرہ کیا کہ ایسے ججوں کو چاہیے کہ وہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت سیاسی جماعت کے طور پر اپنی رجسٹریشن کرا لیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا دست و بازو بن کر یا پھر خود اسٹیبلشمنٹ بن کر ہر طرح کی غیر آئینی و غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے باوجود کوئی جج جیل نہیں گیا۔ جرائم ثابت ہونے پر زیادہ دباو آ بھی جائے تو عہدے سے ہٹا کر گھروں میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ جج تو کیا ان کے بچے بھی ہر طرح کے احتساب سے بالا تر ہیں۔ ثاقب نثار کے بیٹے کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ملنے والا ریلیف اسکی صرف ایک جھلک ہے۔ ایسا نہیں کہ ججوں اور ان کی فیملیوں کو ملنے والی کھلی چھوٹ کے بارے میں اصل اسٹیبلشمنٹ میں تحفظات نہیں پائے جاتے تھے لیکن مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اس حوالے سے آنکھیں بند رکھی جاتی تھیں۔ اب ان کے اپنے مسائل کی وجہ سے یہ مکروہ اتحاد ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ریاست اور حکومت کا عزم بالکل واضح ہے کہ ججوں کی من مانیوں کا سلسلہ جاری رہا تو ملک نہیں چل سکتا۔ عدلیہ کا ایک مخصوص حصہ اور ان کے حامی وکلا گروپ جو چاہیں کر لیں عدالتی اصلاحات آ کر رہیں گی کیونکہ ایک ملک میں صرف ایک اسٹیبلشمنٹ ہی رہ سکتی ہے۔ نوشتہ دیوار ہے کہ جج راج آخری سانسیں لے رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات