جہاں پاکستان 2017 کے بعد معاشی و اقتصادی،سیاسی و عدالتی گرداب میں بری طرح جھکڑا ھوا ھے آزاد جموں و کشمیر کا یہ خطہ جو پنتالیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل جس میں بیس لاکھ کے لگ بھگ افراد بیرون ملک اور پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم ھیں جن میں مہاجرین جموں وکشمیر 1947,65,71,89 و معہ بعد مقیم پاکستان شامل نہیں ھیں۔
آذاد کشمیر کا یہ خطہ 1947 سے 1961/62 تک وزارت امور کشمیر سے نامزدگیوں پھر بلدیاتی نمائندوں کے زریعے صدارتی انتخاب کے تحت اور پھر سٹیٹ کونسل انتخابات کے ذریعے انتظامی لحاظ سے چلایا جاتا رھا تاوقتیکہ 1970 اکتوبر میں پہلی بار براہ راست صدارتی انتخابات اور قانون ساز اسمبلی کے زریعے حکومت تشکیل دی گئ جو چار ساڑھے چار سال بعد پارلیمانی نظام حکومت میں تبدیل ھوئی جو تقریبآ دو سال تک چلی اور پھر پاکستان میں مارشل لا لگ گیا اور آزاد کشمیر میں بھی منتخب حکومت ختم ھوکر نامزد حکومت قائم ھوئی جو کم و بیش اپریل 1985 تک قائم رھی اور مئی 1985 میں منتخب جمہوری پارلیمانی حکومت قائم ھوئی جو اسوقت تک بلا تعطل معینہ مدت کے اندر انتخابات کے تحت چل رھی ھے ماسوائے 1991 میں راجہ ممتاز حسین راٹھور مرحوم کی جانب سے قبل از وقت اسمبلی توڑنے کے نتیجے میں اندر تین ماہ دوسرے انتخابات ھوئے تب سے یہ سلسلہ رواں ھے اس دوران وزرائے اعظم عدم اعتماد کے زریعے تبدیل و منتخب ھوتے رھے ایک وزیراعظم تنویر الیاس توئین عدالت کے فیصلے کی بھینٹ چڑھے اور موجودہ وزیراعظم آزاد کشمیر رمضان شریف میں رات کے آخری پہر غیر روایتی اور بقول سپریم کورٹ آزاد کشمیر متنازعہ انداز میں(جسکے بارے سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ھے کہ آیا یہ انتخاب وزیراعظم آئین کی دفعات کے مطابق ھے یا نہیں) 53 کے ایوان میں تاریخ میں پہلی بار 48 ووٹ لیکر منتخب ھوئے جسکی ماضی میں کوئی مثال موجود نہیں۔انوار الحق حکومت نہ صرف اپنے انتخاب میں بلکہ کابینہ کی تشکیل،وزرا کرام کے پورٹ فولیوز کی تقسیم ریاست میں اپنی کارگزاریوں اور مسائل پیدا کرنے کے حوالے سے بھی منفرد و یکتا رھی ھے جس باعث اسوقت آزاد جموں وکشمیر مالی و انتظامی نظریاتی و ترقیاتی لحاظ سے شدید انتشار و افتراق کا شکار چلا آ رھا ھے اور سمجھ نہیں آرھی کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ گورننس کے ان اہم مسائل کو دستاویز کرنا ضروری ہے جن کی ہم نے اجمالی و سرسری طور پر نشاندہی کی ھے اس کا مقصد ان خدشات کو بیان کرنا اور باہمی تعاون کے لیے ممکنہ حل تجویز کرنا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال تشویشناک ہے۔
روزانہ، ہم چھوٹے موٹے مسائل بشمول سبسڈی جسکے نتیجے میں پچاس ارب سے زاھد اس چھوٹے سے خطے میں خسارا درپیش ھے جس سے ترقیاتی کام ٹھپ ھو کر رہ گئے ھیں اور نومبر دسمبر تک مبادا ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی ممکن نہ ھو پائے
وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے انتہائی فراخدلی سے 23 ارب روپے کی اضافی گرانٹ بھی دی ھے اور پاکستان کے معاشی مشکلات کے باوجود ھر طرح کی ترقیاتی و دیگر فنڈز پر کوئی قدغن بھی نہیں لگائی لیکن آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی بے روزگاری، ایڈھاک و کنٹریکٹ ملازمین کی زبوں حالی و تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور سیاسی عمل میں عدم دلچسپی کے حوالے سے سڑکیں بلاک، دھرنے اور شٹر ڈاؤن دیکھتے ہیں۔ یہ مسائل اس سطح تک اس سے قبل کبھی آزاد کشمیر میں دیکھنے کو نہیں آئے۔
اسکی بظاھر وجوھات
1. حکومت کی نا اہلی، خاص طور پر موجودہ وزیر اعظم کی قیادت میں مسائل سے چشم پوشی زیادہ عرصہ مظفرآباد کے بجائے اسلام آباد میں قیام،انتظامی افسران و بیوروکریسی پر اسقدر عدم اعتماد کہ چپراسی تک کی تقرری کا اختیار وزیراعظم نے اپنے پاس رکھا ھوا ھے
2. ایم ایل اے/ کابینہ کی نااہلی، مین سڑکوں اور اسکول کالجوں، صحت کی عمارتوں اور انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال کے بجائے ذاتی فائدے کے لیے ترقیاتی فنڈز کا غلط اور غیر ضروری و من پسند تقسیم
3. احتساب کا فقدان اور غیر موثر گورننس۔
4. چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کے حل کے لئے جہاں لوگ، خاص طور پر نوجوان، احتجاج اور سڑکوں کی بندش کا سہارا لیتے ہیں۔جس سے پورا خطہ لا قانونیت کا شکار ھے۔
اس صورت حال پر عوام تو پریشان ھیں ھی “ذمہ دار حلقے” بھی انگشت بدنداں ھیں لیکن وہ بھی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق ھیں
وہ سمجھتے ھیں کہ سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا نہیں کر رھی لیکن سیاسی جماعتوں کے پاس جادو کی چھڑی ھے نہ الہ دین کا چراغ انکو تو باور کروایا جا چکا ھے کہ اپ اس حکومت کے حلیف ھیں اور حلیف جماعتوں کے لئے یہ وزیراعظم اور حکومت اس چھپکلی کے مصداق ھے کہ جو نگلیں تو موت اگلیں تو کوڑھ۔
ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، درج ذیل تجاویز پر عملدرآمد سے ممکن ھے کہ صورت حال میں کوئی بہتری ممکن ھو لیکن سیلاب جب آجائے تو بند باندھنا کیسے ممکن ھوسکتا ھے
– ادارہ جاتی اصلاحات: احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا۔
– موثر گورننس: معاشی منصوبہ بندی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، سماجی بہبود کو حل کرنے والی پالیسیوں کا نفاذ۔ ترقیاتی فنڈز چھوٹی اور غیر ضروری لنکس گھروں کے لئے 500/1000 فٹ سڑکوں کی پختگی پر ضائع کرنےکے بجائے بڑی اور مین لنکس روڈز کی بہتری کے لئے صرف کرنے
– تعلیم اداروں اور مراکز صحت و دیگر اداروں میں سٹاف کی کمی دور کرنے اور منیجمنٹ: جمہوری عمل کے بارے میں بیداری کو فروغ دینا، تعمیری مشغولیت کی حوصلہ افزائی کرنا۔
– نوجوانوں کو بااختیار بنانا: نوجوانوں کی سیاست اور فیصلہ سازی میں شرکت کے مواقع پیدا کرنا۔
ایک جامع نقطہ نظر کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اجتماعی ذمہ داری اور تعاون کی ضرورت کا ادراک:
1. حکومت
2. سیاسی جماعتیں
3. سول سوسائٹی
4. شہریوں میں ھم آہنگی و یکسانیت کے لئے اقدامات
1. اہم مسائل پر بات چیت کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک قومی ڈائیلاگ پلیٹ فارم قائم کریں۔
2. ادارہ جاتی صلاحیتوں کا ایک جامع جائزہ لیں اور اصلاحات کے لیے شعبوں کی نشاندہی کریں۔
3. جامع ترقی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے قومی اقتصادی ترقی کی حکمت عملی تیار کریں۔
4. شہری مصروفیت اور ووٹر کی تعلیم کو بڑھانے کے لیے اہدافی اقدامات شروع کریں۔
یہ ریاست ھمارے اکابر و اجداد نے آزاد کروائی اسکا تحفظ و اپنے اکابر کی تاریخی جدوجہد کا تحفظ عام آدمی کی بھی ذمہ داری ھے اور سب پڑھے لکھے اور نیم خواندہ لوگوں کی بھی ارباب حکومت انتظامیہ و ارباب علم و دانش کی بھی۔ اسکے لئے اقدامات بیٹھ کر تجویز کئے جاسکتے ھیں
بصورت دیگر نقصانات کا خدشہ ایسا ھے کہ یہ خطہ اسکا متحمل نہیں ھوسکتا یہ بھرپور توجہ چاھتا ھے اور فوری توجہ چاھتا ھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن جسوقت تک وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ وہ حکومت میں ھیں یا اپوزیشن میں وہ اپنا کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکتی اگر حکومت میں شامل ہیں تو “حکومتی فیوض و برکات” سے انہیں بھی مستفید کیا جائے تاکہ حلقوں میں ترقیاتی کاموں میں یکسانیت و حرکت نظر آئے اور اگر اپوزیشن میں ھیں تب حکومتی قبا اتار پھینکیں اسکے لئے جماعتی قیادت کو اپنی اپنی قیادتوں سے ملکر فیصلہ کرنا چاہیے مزید تاخیر کا وھی حشر ھوگا جو پاکستان میں ھوا ۔
نیم دروں نیم بیروں سے مسئلہ حل نہیں ھوگا اسی کمزوری کا فائدہ وزیراعظم اور حکومت اٹھا رھی ھے جس کا خمیازہ عوام شدت سے بھگت رھے ھیں جو انتشار و افتراق کی صورت میں نظر آرھا ھے باقی جو جماعت یا شخصیت سرمایے کی بنیاد پر فرمائشی ریلیاں نکال کر نمبر ٹانگ رھی ھیں اسکا بھی سرے سے کوئی فائدہ نہیں ھے زمینی حقائق سے لوگ آگاہ رھتے ھیں البتہ سیاسی جماعتوں کو عوام میں اپنے روابط بڑھانے اور اپنے اپنے نظریات و افکار کا پہرہ دینے اور ان میں “نظریاتی نقب زنی” سے اپنی اپنی جماعتوں و کارکنوں کو محفوظ رکھنے کے لئے موثر انداز میں کام کرنا ھوگا ورنہ آنے والے انتخابات جو زیادہ دور نہیں ھیں یہ نہ کہنا پڑے کہ
اب کیا ھوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔
ذمہ دران اور پاکستان میں قائم وفاقی حکومت کے سہاروں پر لگتا نہیں کسی کے کندوں پر اقتدار کا ھما بیٹھے۔