پارلیمان کو دْور سے سلام : تحریر نصرت جاوید


بلاول بھٹو زرداری ذاتی طورپر مجھے بہت عزیز ہیں۔ ان کی سیاست کو بطور صحافی زیر بحث لانے سے گریز کوترجیح دیتا ہوں۔ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو کی نشانی سمجھتے ہوئے جذباتی تعلقات ہی پر اکتفا کرنا چاہتا ہوں۔ منگل کی شب حامدمیر کے شو میں تفصیلی گفتگو کے بعد وہ مگر اے آر وائی کے وسیم بادامی کو بھی وضاحتیں دیتے سنائی دیئے۔ وضاحتیں کا لفظ میں نے سوچ بچار کے بعد لکھا ہے۔اسے لکھنے کے بعدبھی لیکن مصر رہوں گا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی کی وضاحتیں اب کسی کام نہیں آئیں گی۔ انگریزی محاورے والا ڈیمیج(Damage) ہوچکا ہے۔
گزرے ہفتے کے آخری دو دن آئین میں ترمیم کے نام پر جس بھونڈے انداز میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اراکین پارلیمان کو دونوں ایوانوں کی دیواروں میں کئی گھنٹوں تک تقریبا محبوس رکھا وہ کسی بھی صورت بھلایا نہیں جاسکے گا۔ خصوصا اس حقیقت کی روشنی میں کہ جس مقصد کے تحت اراکین پارلیمان کو مسلسل دو دنوں تک اسلام آباد میں رکھا گیا وہ بالآخر حاصل ہی نہیں ہوپایا۔
ہفتے اور اتوار کے دن پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس بلائے جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہوا کرتا ہے۔ انہیں چھٹی کے دنوں میں طلب کرنے کا واضح پیغام یہ ہوتا کہ حکومت کوئی اہم قانون عجلت میں منظور کروانا چاہ رہی ہے۔ اب کی بار جو اجلاس بلوائے گئے تھے ان کا مقصد تاہم کوئی نیا قانون متعارف کروانا نہیں تھا۔ بڑھک بلکہ یہ لگائی گئی کہ وطن عزیز کے نظام عدل کو سیدھی راہ پر چلانے کے لئے آئین میں انقلابی نوعیت کی ترامیم متعارف کروائی جائیں گی۔
پارلیمانی کارروائی کو 1985 سے مسلسل رپورٹ کرتا رہا ہوں۔ تقریبا دو سال قبل کمر اور آنکھ میں تکلیف کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں کا باقاعدگی سے مشاہدہ کرنے میں دشواری محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ پارلیمان بھی اب اپنے فرائض سے دست بردار ہوچکی ہے۔ اس کے اراکین یہاں حاضری لگانے آتے ہیں۔ مسلم لیگ (نون) اور اس کی اتحادی جماعتیں منتظر رہتی ہیں کہ حکومت جو بھی قانون سازی کرنا چاہتی ہے اسے جلد سے جلد ایوان میں لائے اور وہ مجوزہ قانون پر سنجیدہ غور میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اس کی حمایت میں ہاں کی آواز بلند کرنے کے بعد گھر لوٹ جائیں۔ حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کے برعکس تحریک انصاف کی حمایت سے دونوں ایوانوں میں آئے اراکین فقط قیدی نمبر804 کے ساتھ اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کرنے پارلیمان میں آتے ہیں۔ ان کی تصاویر لہرانے اور شورشرابہ مچانے کے بعد ایوان سے باہر آکر رپورٹرزکو انٹرویوز دیتے ہوئے قوم کو امید دلاتے ہیں کہ عمران خان جلد ہی اڈیالہ سے باہر آئیں گے اور اس کے بعد رقص میں سارا جنگل ہوگا۔ ایسے ماحول میں بخداجوانی کے دنوں والی توانائی بھی میسر ہوتی تو میں پارلیمان کو دور سے سلام ہی کو ترجیح دیتا۔
بہرحال گزرے ہفتے کے آخری دو دنوں میں طویل وقفے کے بعد پارلیمان ہاؤس جاتا رہا۔ بطور صحافی میں سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ دو تہائی اکثریت کی عدم موجودگی میں حکومت آئین میں عدالتی نظام کو لگام ڈالنے والی ترامیم کیسے متعارف کرواسکتی ہے۔ یہ بات عیاں تھی کہ مجوزہ ترامیم کی منظوری کے لئے حکومت کو تحریک انصاف کی صفوں میں سے لوٹے درکار تھے۔ ہماری سیاسی تاریخ وفاداریاں بدلنے والے موقع پرستوں کے ہاتھوں جمہوری نظام کی تباہی سے لدی پڑی ہے۔ 2024 میں لیکن لوٹوں کی حمایت کے حصول سے قبل حکومت کو سوبار سوچنالازمی تھا۔ چند ہی ماہ قبل پنجاب میں حمزہ شہباز شریف کی حکومت اس وجہ سے قائم نہیں رہ پائی تھی کیونکہ ان دنوں کے سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی تشریح کرتے ہوئے لوٹوں کی جانب سے دیئے ووٹوں کو نہ صرف کالعدم قرار دیا بلکہ اس کی وجہ سے وفاداریاں بدلنے والوں کی رکنیت بھی ختم کردی۔ مذکورہ فیصلے کے بعد چودھری پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی بن گئے اور غالبا فروری 2024 تک اسی عہدے پر براجمان رہتے اگر عمران خان انہیں قبل از وقت اسمبلی تحلیل کرنے کو مجبور نہ کرتے۔
حکومتی ترجمان پرویز الہی کو پنجاب کی وزارت اعلی پر بٹھانے میں مدد دینے والے فیصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے صحافیوں کو نہایت اعتماد سے یقین دلاتے رہے کہ جولائی 2024 میں سپریم کورٹ کے 8اکثریتی ججوں کی جانب سے آئے فیصلے کے باوجود تحریک انصاف کے تقریبا 41اراکین اب بھی اصولی اور قانونی طورپر آزاد ہیں۔ ان میں سے چند آئینی ترمیم کی حمایت میں کھڑے ہوگئے تو کام بن جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ توقع بھی باندھی گئی کہ تھوڑی لیت ولعل کے بعد مولانا فضل الرحمن بھی مجوزہ آئینی ترامیم کی حمایت کردیں گے۔
حکومتی اعتماد سے قطع نظر یہ بدنصیب فقط پیشہ صحافت کے کلیدی تقاضوں کی وجہ سے یہ جاننے کو بے چین رہا کہ آئین کی کونسی شقوں میں کیسی ترامیم متعارف ومنظور کرواتے ہوئے عدالت کو لگام ڈالنے کی کوشش ہوگی۔ اپنی عمر کی بدولت بنائے تعلقات نے مجھے پارلیمان میں تین ایسے وزرا تک رسائی دی جو بہت باخبر اور موجودہ حکومت کے تھمب (ستون) شمار ہوتے ہیں۔ ان سے تنہائی میں ہوئی مختصر ملاقاتوں میں علم ہوا کہ آئین میں جن ترامیم کا ارادہ ہے ان کا مسودہ اگر تیار ہوا بھی ہے تو ابھی تک ان کے حوالے نہیں ہوا۔
آئین میں ترمیم کوئی چھوٹی بات نہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ رعایا بھی زندگی اور موت کے دائرے کی اسیر ہے۔ آئین مگر ایک دائمی دستاویز ہے جو ریاست کی طویل المدت سمت طے کرتا ہے۔ اس کی چند شقوں میں اگر تبدیلی مقصود ہوتو حکومت کو اپنی تجاویز واضح انداز میں ایک مسودے کی صورت اراکین پارلیمان سے قبل عوام کے سامنے رکھنا چاہیے تھیں۔ وہ سامنے آجاتیں تو ریگولر اور سوشل میڈیا میں مجوزہ ترامیم کی حمایت یا مخالفت میں ایک بھرپور بحث کا آغاز ہوتا اور ہم فیصلہ کرپاتے کہ مجوزہ ترامیم درکار ہیں یا نہیں۔ قرونِ وسطی کے سلطانوں کی طرح مگر دورِ حاضر کے منتخب حکمرانوں نے ہم بدنصیبوں کو اس قابل ہی نہ سمجھا کہ ان ترامیم کو جان پائیں جن کے ذریعے حکومت عدالت کو سیدھی راہ پر چلانا چاہ رہی تھی۔ یہ بات سمجھنے کے بعد میں یہ وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں کہ افتخار چودھری کے چیف جسٹس کے منصب پر لوٹنے کے بعد سے ہماری عدلیہ کے چند ہیروں نے خود کو منتخب اداروں کے مقابلے میں قوم کی قسمت سنوارنے والے مسیحاؤں کی صورت پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ ان کیشوقِ مسیحائی کو لگام ڈالنا ضروری ہے۔ یہ لگام مگر عوام کو اعتماد میں لئے بغیر ڈالی نہیں جاسکتی۔
بہرحال آئینی ترامیم کا مسودہ عوام سے چھپائے رکھا گیا۔ رواں ہفتے کا آغاز ہوتے ہی مگر پیر کی صبح موبائل فونوں کے ذریعے 26صفحات کا مسودہ وسیع پیمانے پر مشتہر ہوا جو مجوزہ آئینی ترامیم پر مشتمل بتایا گیا۔ پیر کی صبح اس مسودہ کو دیکھتے ہی پہلا خیال مجھے یہ آیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جو ترامیم پیش ہونا ہیں وہ درحقیقت میرے ملک کو شمالی کوریا جیسے ملکوں میں موجود حقیقی جمہوریت سے روشناس کروانا چاہ رہی ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے میں بار باریہ سوچتا رہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے وارث ایسی ترامیم کی حمایت میں آنکھ بند کرکے انگوٹھے لگانے کو کیسے تیار ہوں گے۔ خدا کا شکر کہ مولانا فضل الرحمن کی کائیاں سیاست نے مجوزہ ترامیم کو پیش ہونے نہیں دیا۔ دوکان بند ہوجانے کے بعد وہاں ممکنہ طورپر بکنے والے سودے کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری اب مدافعانہ انداز میں وضاحتیں دے رہے ہیں جو کسی کام نہیں آئیں گی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت