سیلاب متاثرین کے گھر ، خالد شیخ کا چیلنج … تحریر : مزمل سہروردی


ملک میں اس وقت ایک آئینی ترمیم کا شور موجود ہے۔ آئینی ترمیم کی تفصیلات بھی قوم کے سامنے آچکی ہیں۔ آئینی ترمیم کے ارد گرد گھومنے والی سیاست بھی ہمارے سامنے ہے۔ تا ہم میں آج آئینی ترمیم پر نہیں لکھنا چاہتا۔ ترامیم منظور ہو جائیں۔ پھر اس پر لکھ بھی لیں گے۔ ابھی کیا جلدی ہے۔ آج میں 2022کے سیلاب کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ آج شاید ہمیں 2022کا تاریخی سیلاب اس طرح یاد نہیں۔ ہمیں اس کی تباہی بھی یاد نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ 2022 کے سیلاب نے سندھ میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ لوگ سڑکوں پر بیٹھے تھے۔ گھروں کے گھر ہی نہیں گاؤں کے گاؤں بھی سیلاب میں بہہ گئے تھے۔

چند دن قبل اسلام آباد میں ایک تقریب میں میری ملاقات خالد شیخ صاحب سے ہوئی۔ خالد شیخ صاحب 2022کے سیلاب میں سندھ میں جن لوگوں کے گھر سیلاب میں بہہ گئے تھے ان کے گھر دوبارہ بنانے کے پروجیکٹ سندھ پیپلز ہاؤسنگ فار فلڈ ایفکٹیز کے سی ای او ہیں۔ اس پروجیکٹ کو SPHFکہتے ہیں۔ خالد شیخ نے مجھے بتایا کہ اب تک دو لاکھ گھر بن چکے ہیں۔ چھ لاکھ گھر تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ کل دس لاکھ لوگوں کو پیسے دیے جا رہے ہیں اور اکیس لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ ہے۔ جن کے پیسے خالد شیخ صاحب کے پاس موجود ہیں۔ میں یہ اعداد و شمار سن کر حیران ہوا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ گھر کاغذوں میں ہی بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا آپ کو چیلنج ہے۔ میں آپ کو ان تمام گاؤں کی فہرست نقشہ کے ساتھ دے دوں گا۔ آپ پورے سندھ میں جہاں جا کر چیک کرنا چاہیں، جا کر چیک کریں اگر گھر نہ ملے تو مجھ سے بات کریں۔ ایسے بات کرنا اچھی بات نہیں۔ خالد شیخ صاحب کا چیلنج کافی بہادرانہ تھا۔

خالد شیخ صاحب نے مجھے بتایا کہ 2022کے سیلاب کے بعد پاکستان نے عالمی سطح پر فنڈنگ اکٹھی کی تھی۔ مجھے بھی یاد آیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے عالمی سطح پر پاکستان کا موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کا بہت شور مچایا تھا اور پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں سے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے فنڈنگ بھی ملی تھی۔ خالد شیخ صاحب نے بتایا کہ تب ہی سندھ سے تمام سیلاب متاثرین کے گھر دوبارہ بنانے کا پروگرام پیش کیا تھا اور اس کو فنڈنگ ملی تھی۔ اب اسی فنڈنگ سے یہ گھر بن رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس حو الے سے تین سروے کیے گئے تھے۔ ایک مقامی انتظامیہ اور فوج نے کیا۔ دوبارہ پھر سروے کیا گیا۔ پھر این جی اوز نے بھی سروے کیا۔ ان سروے میں یہ اعداد وشمار سامنے آئے کہ کل اکیس لاکھ گھر سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور اب یہ اکیس لاکھ گھر بنانے شروع کر دیے گئے ہیں۔

متاثرین کو گھر بنانے کے لیے تین لاکھ روپے کی امداد دی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے 75ہزار روپے بنیادیں بنانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک لاکھ روپے چھت ڈالنے کے لیے دیے جاتے ہیں پھر ایک لاکھ گھر مکمل کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ اور آخر میں دروازوں اور کھڑکیوں کے لیے 25ہزار دیے جاتے ہیں۔ بہرحال خالد شیخ صاحب کی ٹیم نے مجھے فون کرنے شروع کر دیے کہ آپ سندھ آئیں اور خالد شیخ صاحب کے چیلنج کے مطابق اپنی مرضی کی جگہیں چیک کریں۔ میں چیلنج دیکر پھنس گیا تھا۔ لیکن میری رائے تھی کہ پاکستان میں کہاں کام ہوتے ہیں۔ اس لیے میں نے کہا میں جب خود گاؤں منتخب کروں گا۔ ان کی بتائی ہوئی جگہوں پر نہیں جاؤں گا تو یہ پکڑے جائیں گے۔ اس لیے میں کراچی پہنچ گیا۔ وہاں SPHFکے دفتر میں میری خالد شیخ صا حب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے پورے منصوبے پر مجھے ایک تفصیلی بریفنگ دی۔ یہ ان لوگوں کے گھر بنائے جا رہے ہیں جن کے گھر کچے تھے۔ اور کچے گھر سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔

میں نے چیلنج کے مطابق اپنی مرضی سے سندھ کے پانچ مختلف گاؤں منتخب کیے جہاں SPHFکے مطابق گھر بن گئے تھے۔ یہ تمام گاؤں میں نے اپنی مرضی سے منتخب کیے۔ ان کی ٹیم نے مجھے کوئی تجویز نہیں دی کہ آپ یہاں جائیں اور نہ جائیں۔ پہلا گاؤں سہون میں تھا۔ ہم اس گاؤں میں پہنچ گئے۔ خالد شیخ صاحب میرے ساتھ تھے۔ یہ کراچی سے چار گھنٹے کی مسافت تھی۔ جب ہم اس گاؤں میں پہنچے تو ہمیں دیکھ کر گاؤں کے لوگ اکٹھے ہو گئے۔ جیسے مجھے بتایا گیا تھا اس گاؤں میں سیلاب میں 253 گھر تباہ ہو گئے تھے۔ اس گاؤں میں 253گھر ہی تھے۔ سارے کچے گھر تھے۔ سارے گھر بہہ گئے تھے۔ اب 73گھر بن چکے ہیں۔باقی ابھی بننے ہیں۔ گاؤں پہنچنے کے بعد خالد شیخ صاحب اور ان کی ٹیم نے مجھے مسکراتے ہوئے کہا کہ 73گھر گن لیں۔ سب بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک بلوچ گاؤں ہے۔ ایک ایک کمرے کے 73گھر بنے ہوئے نظر آرہے تھے۔ گاؤں کے لوگ خود بتا رہے تھے کہ باقی گھر بھی بن جائیں گے۔ لوگوں کے کیس منظور ہو رہے ہیں۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ اس سال 2022سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ لیکن ہم لوگوں نے ان نئے پکے گھروں میں پناہ لے لی تھی۔لوگ نئے پکے گھر بنا کر کافی خوش تھے۔ یہ لوگ صدیوں سے کچے گھروں میں رہتے تھے۔ زندگی میں پہلی دفعہ انھیں پکا گھر ملا ہے۔ یہ پکا گھر ان کی زندگی میں ایک تبدلی لا رہا ہے۔

اس کے بعد میں نے لاڑکانہ کا ایک گاؤں منتخب کیا ہوا تھا۔ وہ بھی تین گھنٹے کے فاصلہ پر تھا۔ اس گاؤں تک تو سڑک بھی نہیں تھی۔ بہت مشکل سے ہم اس گاؤں پہنچے۔ جس گاؤں کو جانیوالی سڑک ابھی نہیں بنی ہے وہاں پکے گھر نظر آرہے تھے۔ بیس گھر بن چکے تھے۔ یہاں لوگوں نے کہا یہ ایک کمرے کا گھر ہے۔ ہمیں اب واش روم بھی بنا کر دیے جائیں۔ میں نے خالد شیخ صاحب کی طرف دیکھا۔ انھوں نے کہا پکے گھر ملنے کے بعد لوگ اب واش روم اور کچن مانگ رہے ہیں۔ا س اسکیم پر غور ہو رہا ہے کہ گاؤں میں مشترکہ واش روم بنائے جائیں۔ یہاں سے خالد شیخ واپس کراچی کی طرف روانہ ہو گئے اور میں رات لاڑکانہ رک گیا۔

اگلے دن میں نے خیر پور اورجامشورو میں ایک ایک گاؤں دیکھا۔ گھر موجود تھے اور جتنے بتائے گئے اتنے تعداد میں ہی موجود تھے۔ گھر واقعی بن رہے تھے۔ لوگ پکے گھر لے کر خوش تھے۔ میں نے سوال کیا کہ یہاں تو لوگ زمیندار کی زمین پر رہتے ہیں تو کیا یہ پکے گھر زمینداروں کی جگہ پر بنائے گئے ہیں۔ وہ پکے گھر بننے کے بعد ان کو نکال دیں۔ یہ پکے گھر تو زمیندار کی ملکیت ہو گئے۔ مجھے SPHFکے ذمے داران نے بتایا کہ زیادہ لوگ اپنی یا سرکاری زمین پر بیٹھے تھے۔ سرکاری زمین کی ملکیت دے دی گئی ہے۔ جہاں لوگ زمیندار کی زمین پر بیٹھے ہیں وہاں شرط ہے کہ زمیندار اول تو ملکیت ٹرانسفر کر دے ورنہ کم از کم دس سال کی لیز متاثرین کو لکھ کر دے کہ دس سال تک نہیں نکالے گا۔ پھر گھر بنانے کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں۔ میں نے کہا زمیندار ملکیت دے رہے ہیں تو مجھے بتایا گیا نہیں زمیندار دس سال کی لیز لکھ کر دے رہے ہیں۔ ملکیت نہیں دے رہے۔ بہرحال شاید ہمیں پنجاب اور بڑے شہروں میں بیٹھ کر اس تبدیلی کا اندازہ نہیں جو ان پکے گھروں سے سندھ میں آرہی ہے۔ جس کا پکا گھر بن جاتا ہے اس کی زندگی کتنی تبدیلی ہوجاتی ہے۔ یہ تبدیلی ان گھروں میں پہنچ کر ہی محسوس ہو سکتی ہے۔ سڑک نہیں ہے سیوریج نہیں ہے۔ لیکن پکا گھر ہے۔ تحفظ کا احساس ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس