27.اکتوبر 2018 کی شام ، پنجاب یونیورسٹی کے ایس ٹی سی لان میں سابقین جمعیت بڑی تعداد میں جمع تھے۔سابق ناظمین اعلی، ناظمین جامعہ، یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدور اور گزشتہ 60 سالوں میں طلبہ کی بڑی بڑی مہمات کے سرخیل، ایک خیمے تلے جمع تھے۔ چمکتے اور مسکراتے چہروں نے کہکشاں کا روپ دھار لیا تھا۔آسمان جمعیت کے تاروں بھرے اس جھرمٹ میں سب سے منور ستارہ اور مرکز نگاہ سید منور حسن تھے۔
کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس خوبصورت محفل میں کیا کہوں۔۔ اچانک خیال آیا کہ میں اپنی یونین کے دور صدارت کا ایک واقعہ کیوں نہ سب سے شیئر کر دوں۔ چنانچہ جو واقعہ اُن سب کو سنایا وہ آپ کی نذربھی کررہا ہوں۔
“ یہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ فرید احمد پراچہ یونین کے صدر اور میں سکریٹری جنرل تھا۔فروری 1975 کی ایک رات دو بجے پولیس یونیورسٹی ہاسٹلوں میں داخل ہوئی اور طلبہ کے کمروں کی تلاشی شروع کر دی۔ صورت حال سے بے خبر ،بوکھلائے ہوئےطلبہ ، کمروں سے باہر نکلے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ پولیس اچانک رات گئے ہاسٹلوں میں کیوں اور کس کی اجازت سے آئی ہے۔
رفتہ رفتہ طلبہ کا اکٹھ ہونے لگا۔ کسی جانب سے آواز آئی وائس چانسلر سے جا کر پُوچھنا چاہئے۔
نئے سال کی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات ایک مہینے کی دوری پر تھے۔ ایسے میں یونیورسٹی میں پولیس کی مداخلت خشک لکڑیوں کو آگ دکھانے والی بات تھی۔ طلبہ کے گروہ (سُرخے اور سبزے سبھی) وائس چانسلر کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ میرے متوقع مخالف امیدوار غلام عباس بھی ، میں اور فرید پراچہ بھی ان طلبہ کے ہمراہ تھے۔ ہم سب جب وائس چانسلر شیخ امتیاز علی صاحب کی رہائش گاہ پہنچے تو طلبہ کا ایک گروپ وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر گملے اور مٹی کے ڈھیلے پھینک رہا تھا۔ اُدھر وائس چانسلر حالات و واقعات سے مکمل بے خبر اپنے بیڈ روم میں سو رہے تھے۔ کھڑکیوں کے ٹُوٹنے کی آواز سن کر اُٹھے اور حالات کا جائزہ لینے، بلا خوف، باہر نکلے۔ میں اور پراچہ صاحب بھی اُس وقت تک پہنچ چُکے تھے۔ کُچھ لڑکوں نے مٹی کے ڈھیلے وائس چانسلر کی طرف بھی پھینکے۔ ہم دونوں( فرید پراچہ اور میں) نے آگے بڑھ کر شیلڈ کا کام کیا اور شیخ امتیاز علی صاحب کو بچایا۔ وائس چانسلر نے ہمت کا مظاہرے کرتے ہوئے طلبہ کو مخاطب کیا اور کہا:”پولیس کی آمد کی نہ مجھ سے کسی نے اجازت لی ہے اور نہ مجھے کوئی اطلاع دی گئی۔ یہ سب کچھ تو میں آپ لوگوں ہی سے سن رہا ہوں۔”طلبہ آہستہ آہستہ واپس پلٹتے چلے گئے۔
ہاسٹل واپس جاتے ہوئے دل مضطرب تھا ۔ وی سی صاحب کی رہائش پر جو کچھ ہوا، گرچہ اس میں ہمارا کوئی حصہ نہ تھا، تاہم طلبہ کی رہنمائی کے دعوے دار ہونے کے ناطے ہماری کچھ ذمہ داری تو بنتی تھی۔
اگلے روز لیفٹ اور رائٹ کے دونوں انتخابی امید وار مع کچھ حامیوں کے گرفتار ہوگئے۔ کوٹ لکھپت جیل میں ایک ہفتہ گزرا۔ ایک رات اطلاع ملی، دونوں امیدواروں کی رہائی کا پروانہ آیا ہے، دونوں اپنا سامان لے کر ڈیوڑی میں آ جائیں۔ میں اور غلام عباس (میرے مخالف صدارتی امیدوار) رہائی کے لئے ڈیوڑی میں پہنچ گئے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ امتیاز علی صاحب اپنی گاڑی پر ہمیں لینے کے لئے بذات خود وہاں موجود تھے۔ غلام عباس کے دل کی کیفیت تو مجھے معلوم نہیں ، تاہم میرے لئے رہائی کے بعد وی سی صاحب کے ہمراہ ہاسٹل واپسی کا یہ سفر آسان نہ تھا۔
الیکشن مکمل ہوئے، جمیعت جیت گئی اور میں نے سٹوڈنٹس یونین کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
یونین کا یہ سال بہت بھرپور گزرا۔ طلبہ مسائل کے حل کے حوالے سے بھی اور ادبی و ہم نصابی سرگرمیوں کے پس منظر میں بھی۔ نئے سال کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو ایک بار پھر جمعیت انتخابات جیت گئی اور مسعود کھوکھر صدر منتخب ہوگئے۔ تقریب حلف برداری کے موقع پر مجھے ،رخصت ہونے والے صدر کی حیثیت سے، خطاب کرنا اور حسب معمول گزرے ہوئے سال کے کارناموں کا تذکرہ کرنا تھا، جس کا میں نے بساط بھر ذکر کیا۔ ساتھ ہی ساتھ میں اپنے دل کا وہ بوجھ بھی ہلکا کرنا چاہتا تھا جو سال بھر سے مجھے ذہنی طور پر پریشان کئے ہوئے تھا۔
اپنے گذشتہ کاموں کے تذکرے کے بعد میں نے پروفیسر شیخ امتیاز علی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “ جہاں میں نے سال بھر کے اپنے اچھے کاموں کا کریڈٹ لیا ہے وہاں میں اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ سال آپ کے گھر طلبہ نے جو توڑ پھوڑ کی، اگرچہ اُس کارروائی کا میں ذاتی طور پر حصہ نہ تھا مگر اُن طلبہ کے ساتھ موجود ضرور تھا، میں اپنی اس غلطی کو قبول بھی کرتا ہوں اور یونیورسٹی سے رخصت ہونے سے پہلے جلسہ عام میں آپ سے معافی کا خواہستگار بھی ہوں”۔
سٹیج پر بیٹھے وائس چانسلر اور ہال میں موجود کئی سارے ٹیچرز اور طلبہ کی آنکھیں میں آنسو تیرنے لگے۔ تقریب سے پہلے میرے کئی دوستوں کی رائے تھی کہ اگر میں نے اپنی کوتاہی تسلیم کرتے ہوئے وی سی صاحب سے معافی مانگی تو یہ مستقبل میں جمعیت کے لئے شرمندگی و پشیمانی کا باعث ہو گا۔ مگر اپنے استاد محترم سے معذرت کے میرے الفاظ نے طلبہ و اساتذہ کے دل پہ گہرا اثر ڈالا اور جمعیت کا اور میرا قد بلند کردیا۔
یونیورسٹی سے فراغت کے بعد میں بیرون ملک چلا گیا۔ تین سال بعد واپس لوٹا تو کسی کام سے مجھے لاہور انٹرمیڈیٹ بورڈ جانا پڑا۔ اتفاق سے ہمارے زمانے کے سٹوڈنٹس ایڈوائزر پروفیسر خواجہ غلام صادق اب بورڈ کے چیئرمین بن چکے تھے۔ میں نے ملاقات کے لئے اُنہیں چٹ لکھ بھیجی۔خواجہ صاحب اُس وقت بورڈ کی ایک میٹنگ چیئر کر رہے تھے۔ میرے نام کی چٹ دیکھی تو فوراً باہر آئے۔ میرا ہاتھ تھام کر مجھے اپنے ہمراہ میٹنگ میں لے گئے اور شراکاء کو مخاطب کرکے کہا: “آپ کو پتہ ہے میں ضروری میٹنگ چیئر کر رہا تھا، مگر اُٹھ کراس لئے باہر گیا ہوں کہ میں اس شحص کو آپ سب سے متعارف کروا سکوں۔ یہ پنجاب یونیورسٹی کا سابق صدر عبدالشکور ہے۔ اس نے طلبہ کی سالانہ تقریب میں کھلے عام اپنی ایک غلطی پر ندامت کا اظہار کیا تھا۔ تب سے میرے دل میں اس کی قدر بہت بڑھ گئی ہے اور میں اس اہم میٹنگ کو چھوڑ کر اسے خوش آمدید کہنے باہر نکلا ہوں۔
سالوں بعد اس واقعے کے اثرات اور تذکرے سے اس بار میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ لوگ اکڑ فوں میں عزت تلاش کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے انکسار اور غلطی کے اعتراف میں عزت کو پوشیدہ رکھا ہے”۔-