عدالتی بینگن اور عسکری آلو!! : تحریر سہیل وڑائچ


تضادستان کے سبزی خوروں میں آلو اور بینگن کا سالن بہت مقبول رہا ہے۔ 1954ء سے ہی عسکری آلو اور عدالتی بینگن مل کر بھنڈی توری حکومتیں باری باری رخصت کرتے رہے ۔اگر کوئی کریلا سیاست دان آیا تو اسے بھی ٹھکانے لگانے کیلئے آلو نے بینگن کو آگے لگایا اور کریلے کو حکومت سے نکال دیا ، جیل بھیج دیا یا پھر سرے سے اسے نااہل ہی کردیا۔ایک دفعہ تو بینگن نےپھانسی کے تختے پر ہی چڑھا دیا۔ سبزیوں کی اس دنیا میں آج کل انقلابی لہریں جنم لے چکی ہیں وہی بینگن جو کبھی خوف اور کبھی مفاد میں آلو کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا آج کل اپنے جامنی رنگ و روپ پر بہت نازاں ہے ،پہلے سرجھکا کر آلوکے ساتھ مکس ہو جاتا تھا آج کل اکیلا ہی اپنا رنگ دکھانا چاہتا ہے۔بینگن کو یہ خیال پیدا ہوگیا ہے کہ اس کا اپنا ذائقہ اور مقام اتنا بڑا اور مضبوط ہے کہ وہ آلو کے بغیر بھی ریاستی سالن میں بھونچال لا سکتا ہے۔

آج کل عسکری آلو اور بھجیا مخلوط حکومت میں گاڑھی چھن رہی ہے ،پارلیمانی کڑھی میں اُبال آیا ہو اہے اور وہ اپنی بالادستی کوعدالتی بینگن سے منوانے کے درپے ہے ،پارلیمانی کڑھی عدالتی بینگنوں کے ادارے میں ایسی تبدیلیوں کا ارادہ رکھتی ہے جس سے بینگن کے بھجیا حکومت الٹنے اور بیلٹ باکس دوبارہ سے کھولنے کے خواب کھوٹے ہو جائیں، عسکری آلو کی سوچ یہ ہے کہ طاقت تو اس کےپاس ہے قوت نافذہ کا بھی وہی مالک ہے، اس لئے اگرسارے بینگن اکٹھے بھی ہو جائیں تو ان کابھرتہ اخلاقی، قانونی اور آئینی طور پر تو اپنے حق میں یا حکومت اور عسکری ادارے کے خلاف فیصلہ کرسکتا ہے مگر وہ اسے نافذ العمل نہیںکرسکتے۔ اسی لئے عسکری آلو اب سرکش بینگنوں کو معاف کرنے کوتیار نہیں۔

سبزی فروش نے باوثوق ذرائع سے بتایا ہے کہ عسکری آلو، عدلیہ کے حوالے سے گومگو کا شکارہے، کبھی سوچتے ہیںکہ قاضی القضاہ کو ہی اگلے کئی سیزن کیلئے عدالتی زمینوں کی ٹھیکیداری عطا کردی جائے ،کبھی سوچتے ہیںکہ دورِ منصوری آنے دیا جائے مگر اس دو ر کے شروع ہونے سے پہلے کوئی نامہ و پیام کیاجائے، کچھ کامیابی بھی ہوئی مگر گزشتہ روز 8 ججوں نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی کی درخواست پرجو فیصلہ دیا اس سے عسکری آلو کو یہ واضح پیغام مل گیا کہ سرکش بینگن ان کی نہ بات ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی عسکری آلو سے کسی قسم کی مفاہمت یا رعایت کاقائل ہے،وہ شہرت کے گھوڑے پر ہی سواری پسند کریں گے ان آٹھ کا خیال ہے کہ وہ ملک میں ایک پرامن عدالتی انقلاب کے ذریعے معاشرے کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آلو اور بینگن کی اس لڑائی نے ملک میں واضح سیاسی تقسیم پیدا کردی ہے آلو کے ساتھ مخلوط حکومت ہے تو بینگن کے ساتھ پی ٹی آئی کھڑی ہے، آلو کی غذائی قدر بینگن سے کہیں زیادہ ہے اگر آلو اوربینگن مل جائیں تو یہ پارلیمانی کڑھی پربھاری پڑتے ہیں اور حکومتی بھجیا کو تو یہ کئی بار ڈھا چکے ہیں۔بینگن میں صرف 25 کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ آلو میں 77 کیلوریز ہیں دونوں میں فائبر ہے،دونوں اداروں میں جان ہے، ان کی لمبی تاریخ ہے۔ بینگن کو اپنے خوبصورت رنگ اور آئین میں اہم پوزیشن کی وجہ سے آئینی اور اخلاقی برتری حاصل ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ آلو کی طاقت بہت زیادہ ہے اور اب وہ بینگن سے ٹکرانے کوتیار بیٹھا ہے۔ آلو اور بینگن کی آپس کی لڑائی میں بھجیا حکومت کی لاٹری نکل آئی ہے۔ دوسری طرف مولی گاجر عوام کا نہ آلو کے مفادات سے کوئی واسطہ ہے اور نہ بینگن کی شہرت سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ مولی گاجر کو اپنی فکر لگی ہوئی ہے ۔ مولیوں اور گاجروں کا بجلی کے بل اور مہنگائی نے ناک میں دم کر رکھا ہے۔

پی ٹی آئی آج کل عسکری آلوکیلئے کڑوا کریلا بنی ہوئی ہے کبھی پیپلز پارٹی بھی کریلا ہوتی تھی آجکل شکر قندی ہے جبکہ نونی، آلو بھائی کے لئے اروی بن گئے ہیں آلو اور اروی کا سالن پکایا جائے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ آلو کونسا ہے اور اروی کونسی۔ شہباز شریف اور عسکری بھائی بالکل آج کل آلو اور اروی کی طرح مکس ہو کر ایک نیا ذائقہ دے رہے ہیں ان دونوں کا خیال ہے کہ یہ ترکاری اس قدر مزیدار ہے کہ معاشی پلیٹ خوبصورت سے خوبصورت تر اور بہتر سے بہتر ہوتی جائےگی۔ آلو بھائی کا ہاتھ آج کل بہت اٹھا ہوا ہے اور وہ ماضی کے کئی حساب برابر کرنا چاہتا ہے۔ نواز شریف کو گناہ گار قرار دینے والی جے آئی ٹی کے حوالے سے بھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئےہیں اور تو اور اس ٹیم کے ’’پاک صاف‘‘ اور ’’ایماندار‘‘ واجد ضیاءکے بارے میں بھی ایجنسیاں جانچ پڑتال کر رہی ہیں۔ ماضی میں آلو کے نام پر جس طرح بھنڈی توری اور بھجیا حکومتوں کو ختم کیا گیا اب شاید وقت آگیا ہے کہ ان سب چیزوں کا حساب ہو۔ میڈیا کی پابندیوں، مخالفوں کے احتساب اور سیاستدانوں کو جیل میںبند کرنے کا سبق عمران خان نے پڑھایا ،جنرل پاشا اس پراجیکٹ کے بانی تھے۔گراؤنڈ ورک انہوں نے کیا جنرل ظہیر نے اسے بڑھاوا دیا اور جنرل فیض حمید اور جنرل عاصم باجوہ نے عمران خان پراجیکٹ کیلئے مکمل راہ ہموار کی۔ کیا احتساب کی تلوار اس طرف کا رخ بھی اختیار کرے گی یا پھر یہ بڑے بڑے پرانے ’’آلو‘‘ مقدس گائیں ہی رہیں گے۔

اگر زرعی ملک تضادستان میں گندم، چاول اور مکئی کی معیشت کوبہتر کرنا ہے،پیاز، ٹماٹر ، کدو اور ٹینڈے سستے کرنے ہیں تو آلو اور بینگن کی لڑائیوں کو کم کرنا پڑے گا ،کریلے کوبھی اپنا کڑوا پن ختم کرنا ہوگا تاکہ وہ ریاست کیلئے چیلنج نہ بنے۔ دوسری طرف آلو کوبھی سمجھنا ہوگا کہ وقت بدل چکا، اب ہر سالن میں آلو کی مداخلت پسندیدہ نہیں رہی، آلو کیلئے آئینی بندوبست میں جو کردار اور مزہ طے کردیا گیا ہے اسی حدود میں رہے، بینگن نےبھی عدالتی تحرک کے نام پر کئی حکومتوں کو رخصت کیا ، کئی سیاستدانوں کے سر کاٹے، اب اس کا وقتِ امتحان ہے، دیکھئے کون سرخرو ہوتا ہے آلو یا بینگن؟۔

بشکریہ روزنامہ جنگ