دو ماہ بیشتر بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے گیارہ مزدوروں کو دہشت گردوں نے ہلاک کر دیا اس سے پہلے بھی اس طرح کے سفاک کام ہوتے چلے آرہے ہیں ماضی میں کراچی میں بھی لسانی فسادات ہو چکے ہیں آندھی نفرت اور تعصب میں مبتلا انتہا پسندوں کے حلقوں میں ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے کہ اگر سانپ اور پنجابی ایک ساتھ دکھائی دیں تو سانپ کو چھوڑ کر پنچابی کو مار دیا جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ چھوٹے صوبوں کے عوام کے ساتھ جو ظلم و بربریت ہوئی ہے یا ہو رہی ہے اس کا ذمہ دار حکمران طبقہ ہے سول اور ملٹری بیورو کریسی میں پنجابیوں کی اکثریت ضرور ہےمگر اس کا قصور وار ایک غریب پنجابی مزدور تو نہیں ہے کہ اس کو بے گناہ شہید کر دیا جائے دوسرے صوبوں خصوصاً بلوچستان کے دانشوروں اور سیاست دانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے حقوق سلب ہونے پر بحثیت مجموعی پوری پنجابی قوم کو مورد الزام
ٹھہرائیں گے تو یہ دانش مندی نہیں ہو گی اس صورت میں ممکن ہے کہ ردعمل میں پنجابی قوم پرستی بھی کسی تحریک کی صورت میں جنم لے لے اور پنجاب کے لوگ بھی اپنے طبقاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومیت کے نام پر متشکل ہو جائیں تو کیسے ممکن ہے کہ چھوٹی قومیں پنچابی قوم کا مقابلہ کر سکیں
اس لیے چھوٹے صوبوں کے دانشوروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ قومیت پرستی کو پروان چڑھانے کی بجائے تمام پاکستانیوں کے کچلے ہوئے طبقوں سے اتحاد کریں چاہے وہ کسی بھی صوبے، رنگ، نسل، مذہب، قوم اور برادری سے کیوں نہ ہوں اسی صورت میں ایک طرف وہ پنجابی قوم پرستی کے جذبے کو ابھرنے سے روک پائیں گے اور دوسری طرف پنجاب کا حکمران استحصالی طبقہ اور طاقتور عناصر تنہا ہوں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو چھوٹے صوبوں کو طاقت اور اکثر یت کے بل بوتے پر بالا دستی قائم رکھنے کا حامی ہے اور اسی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا اور اس وقت سے چھوٹے صوبوں میں پنجاب کو گالی دینا فیشن سا بن گیا ہے حالانکہ وڈیرے، سرمایہ دار، کرپشن زدہ سیاست دان اور بیوروکریٹس، خان، سردار، وڈیرے اور لینڈ مافیا کے افراد تمام صوبوں میں موجود ہیں پنجاب میں حکمران طبقہ ترقیاتی بجٹ کا ستر فیصد انفراسٹرکچر پر لگا دیتا ہے اور تیس فیصد کرپشن کی نذر ہوتا ہے جبک دوسرے صوبوں میں نوے فیصد فنڈز کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اور ان صوبوں کے عوام کو یہ سردار اور وڈیرے بتاتے ہیں کہ وفاق پنجاب پر زیادہ خرچ کرتا ہے حالانکہ اب آٹھارویں ترمیم کے بعد تمام صوبوں کو آبادی کے تناسب سے مالی اور انتظامی اختیارات ہیں کہ وہ جیسے چاہیں اپنے صوبوں کے عوام کے حالات بہتر بنائیں پنجاب میں اربن کلاس کے پروفیشنل اور نوجوان کاروباری طبقے نے تعلیم اور ہنر سے اپنے معاشی حالات بہتر کیے ہیں اور سیاست میں بھی وہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے روایتی سیاست دانوں کی اجارہ داریوں کو بڑی حد تک توڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں یہی صورت خیبر پختون خواہ میں بھی ہے مگر اندرون سندھ اور بلوچستان ابھی بھی سیاست وڈیروں اور سرداروں کے چنگل میں ہے تاہم پنجاب کے 80 فیصد مظلوم لوگ محض روٹی کمانے کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں وہ دوسرے صوبوں میں مزدوری کے لیے جاتے ہیں تو مارے جاتے ہیں جبک پنجاب میں تمام صوبوں حتی کہ افغانی بھی بے خوف و خطر اپنی معاشی سرگرمیوں میں مشغول ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب اور پنجابی ظالم ہیں اس پر مذید ستم کہ پنجاب کے تعلیم یافتہ طبقے کے لیے پنجابی زبان بولنا اور اس کی ثقافت کو اپنانا باعث شرمندگی بنا دیا گیا ہے عرصہ دراز تک پی ٹی وی میں ایسے اناؤنسرز اور اینکرز کو قبول نہیں کیا جاتا تھا جو اردو خالص لکھنوی یا دہلوی لہجے میں نہ بولتا ہو پنجابی لب لہجے میں بات کرنے پر اہل زبان دلدار پرویز بھٹی اور نعیم بخاری پر شدید معترض رہے اور ہمارے جیسے پنجابی لب و لہجے میں اردو بولنے والے تو پی ٹی وی کے اردو سپینگ افسران کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے اب پرائیویٹ چینلز اور سوشل میڈیا پر موج ہے جیسے مرضی غلط سلط تلفظ اور لہجے میں بات کریں کوئی روک ٹوک نہیں ہے آج بھی چھوٹے صوبوں کا حکمران طبقہ اپنے صوبے کے تعلیم یافتہ افراد اور افسران کو وفاق میں اعلیٰ عہدوں پر متمکن کرواتے ہیں مگر پنجابی سیاست دان اقتدار اور طاقت حاصل کر کے تعلیم یافتہ پنجابیوں کے جائز کام بھی شاذونادر ہی کرتے ہیں چھوٹے صوبوں کے سیاست دان پنچابی سیاسی دانوں کو اسٹیبلشمنٹ کا ٹاؤٹ قرار دیتے ہیں ان کے مطابق پنجاب کی عدلیہ اور سیاست دان مارشل لاء میں جرنیلوں کا ساتھ دیتے ہیں مگر ایسا تو چھوٹے صوبوں کے سیاست دان بھی کرتے ہیں میاں نواز شریف اور عمران خان نے آنٹی اسٹیبلشمنٹ کردار ادا کر کے ثابت کیا کہ پنجاب بھی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف مزاحمتی کردار ادا کر تا ہے وہ الگ بات ہے کہ میاں نواز شریف کے چراغوں میں اب روشنی نہیں رہی ہے پنجاب کے تین چار وزرائے اعظموں کے علاوہ باقی سب کا تعلق چھوٹے صوبوں سے تھا اسی طرح زیادہ تر پاکستان کے صدور آرمی چیفس، سپیکرز اور چیرمین سینٹ کی اکثریت کے ڈومیسائل پنجاب سے نہ تھے آج قومی اسمبلی میں پنجاب کے ایم این ایز کی آبادی کے تناسب سے تعداد زیادہ ہے تو سینٹ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی برابر ہے چھوٹے صوبوں کے سینیڑز وہاں پر اپنے صوبوں کے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں اور ایسی قانون سازی نہ ہونے دیں جو ان کے صوبے کے عوام کے لیے درست نہیں ہے مگر ان سینٹرز کی اکثریت اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتی ہے تو اس میں پنجاب کا کیا قصور ہے پنجاب کی مٹھی بھر اشرافیہ نے 90 فیصد پنجابیوں کے ساتھ دشمنی کا رویہ اپنایا ہوا ہے انہیں زبان اور ثقافت اور تاریخی ہیروز سے محروم کر دیا ہے ہمارے میزائلوں کے نام ان غیر ملکی حملہ آوروں کے نام پر ہیں جہنوں نے پنجاب کو تہس نہس کیا پنچابی تاریخ کے ہیروز دلا بھٹی، بھگت سنگھ اور احمد خان کھرل کو سرکاری سطح پر کہیں پزیرائی نہیں ملتی ہے جہنوں نے غریب عوام کے حقوق کے لیے بادشاہوں کے غلاف علم بغاوت بلند کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان نے بطور صوبہ پاکستان میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی 1955 میں بلوچستان کی تمام ریاستوں اور صوبو کو بذریعہ طاقت ون یونٹ میں شامل کیا گیا ریاست قلات کی آزاد حیثیت ختم کر دی گئی 18 دسمبر 1958 کو فوج نے جھلاوان آپریشن کیا نواب نوروز کو قرآن پاک پر حلف دے کر پہاڑ وں سے نیچے بلایا گیا اور اس کے بیٹے کو پھانسی دے دی مگر یہ سب کچھ ایوب خان کے حکم پر ہوا جو پنجابی نہیں تھا اکبر بگتی کی شہادت مشرف کے دور میں ہوئی وہ بھی پنجابی نہیں تھا آج تمام صوبوں کے سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ پاکستان میں بسنے والے تمام قوموں کے جائز حقوق کے لیے قومی عہد نامہ تشکیل دیں فوج کس پنجابی یا پٹھان یا کسی خاص قوم کی نمائندہ نہیں ہوتی ہے اس میں کسی قسم کا مذہبی، لسانی اور علاقیت کی بنا پر ترقی نہیں ہوتی ہے ویسے اب تو پنجابیوں کے ساتھ تمام صوبوں کے لوگ فوج جوائن کر رہے ہیں اور ہر فوجی پاکستان کے دفاع کے لیے خدمات سرانجام دیتا ہے لہذا فوج محض پنجاب کی ہے یہ زیادتی اور محض پراپیگنڈا ہے کوٹہ سسٹم کی وجہ سے وفاقی ملازمتوں میں چھوٹے صوبوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پنجاب کے نوجوانوں پر ایج حاصل ہے جب تک ملک میں حقیقی جمہوری حکومت نہیں ہو گی تب تک قومیت پرستی کے نام پر دہشت گردی کو کنٹرول کرنا مشکل ہے آج نوجوانوں کی بڑی تعداد بیروزگاری کی وجہ سے سے ملک دشمن عناصر اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں استعمال ہو رہی ہے ایسے میں جھوٹے صوبوں کے دانشور اپنی
محرومیوں کا ذمہ دار پنجاب کے عوام کو ٹھہرا یں گے تو اس سے وہ اپنے جائز حقوق کبھی بھی ریاست سے نہیں لے پائیں گے اور پنجاب میں وہ اپنی بڑی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے
Load/Hide Comments