نئی بات : تحریر محمد اظہر حفیظ


ساری زندگی سیانوں کی سنتے رہے اور مانتے رہے۔ میرے ابا جی کہتے تھے صاحب بڑوں کو جواب نہیں دیتے چپ کرکے سنتے ہیں۔ بے ادبی ہوتی ہے۔ ساری زندگی ادب کے قرینے سیکھتے گزار دی۔ الحمدللہ ہمیں جو بھی بدتمیز اور بدتہذیب ملے ہم سے عمر میں بڑے ہی ملے۔ اور جو گھر سے لڑ کر آیا وہ آکر بابا ہم سے ٹکرا گیا۔ اللہ کی قسم کبھی کسی کو جواب نہیں دیا کیونکہ ڈر تھا اباجی ناراض نہ ہوجائیں۔ مجھے یاد ہے چوتھی جماعت میں۔ میں نے کچھ بزرگوں کو جواب دے دیا تھا میرے ابا جی کو شکایت ہوگئی انھوں نے مجھے حاضر کیا اور تفتیش شروع کی۔ صاحب آج تم نے جو چاچے تھڑے پر بیٹھے تھے ان کو جواب دیا۔ جی ابا جی۔ میری غلطی ہے پر اگر آپ میری بات سن لیں تو میں سزا کیلئے تیار ہوں۔ کہنے لگے بیان کرو۔ شکر الحمدللہ میرے اباجی کانوں کے کچے نہیں تھے۔ میں نے بیان کرنا شروع کیا ابا جی چار چاچے گاؤں کے تھڑے پر بیٹھے تھے اور میرے قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ میری برداشت سے باہر ہوتا جارہا تھا پر میں چپ چاپ سنتا رہا۔ وہ کہہ رہے تھے اگر پاکستان میں بناتا تو پنجاب مکمل لیتا پنجاب کے ٹکڑے نہ کرتا۔ دوسرا چاچا کہنے لگا اگر میرا بس چلتا تو میں کشمیر بھی مکمل لیتا۔ میں سن رہا تھا ۔ ایک چاچے کو نزلہ تھا وہ بار بار اپنی قمیض سے ناک صاف کررہا تھا۔ ناک صاف کرکے گویا ہوا۔ ہن تسی دیکھو میرا وس چلے تے میں حیدرآباد وی پورا لیندا۔ جناح صاحب سانو مروا دیتا۔ بس میرا صبر جواب دے گیا اور میں نے ان کی باتوں میں مداخلت کی اور کہا چاچا جی اگر تہاڈا بس چلے تے ایک رومال لے لینا پنجاب تے حیدرآباد بعد وچ لے لواں گے۔ چاچے مینوں گال کڈی تے میں اوتھوں گھر آگیا۔ صاحب تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے روتے ہوئے کہا اباجی میرے سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی۔ اباجی نے مجھے سینے سے لگا لیا اور خود بھی رونے لگ گئے کہنے لگے میرا صاحب پتر کدی غلط گل برداشت وی نہ کریں۔ میں تیرے نال کھڑا واں۔ الحمدللہ چون سال کا میں ہوگیا ہوں کبھی غلط بات برداشت نہیں کی اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سرخرو کیا۔ آج کل پھر کچھ عمر میں مجھ سے بڑے میرے نام کے ساتھ جھوٹ منسوب کررہے ہیں بلند آواز میں بات کررہے ہیں۔ میں اس لیے چپ ہوں کہ میرے ابا جی ناراض نہ ہو جائیں اور وہ اسکو میری کمزوری سمجھ رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ اباجی تو 2015 میں فوت ہوگئے تھے اب اگر میں انکو جواب دوں تو یہ شکایت کس کو کریں گے۔ لیکن جو بات میرے ایک دوست نے مجھے بتائی وہ نئی تھی کہنے لگے بھائی جان بدتمیز کو بھی جواب نہیں دیتے ۔ اب سمجھ یہ نہیں آرہی کہ مجھے بدتمیز بننا ہے یا جو سامنے بیٹھا غلط بات کررہا ہے اس کو بدتمیز سمجھنا ہے۔ یاد رکھنا مجھ سے غلط بات پیدائشی طور پر برداشت نہیں ہوتی ۔ اور اباجی میرے ساتھ ہیں انکا حکم تھا غلط بات کبھی برداشت بھی نہیں کرنی۔ آج رات کے اس پہر فیصلہ کیا ہے اباجی کی بات کی لاج رکھ لی جائے۔ تھوڑی سی جو زندگی رہ گئی ہے وہ بھی سچ بول کر گزار لی جائے۔ زندگی میں کوشش کی سب غلط کاموں سے بچا جائے۔ باقی میرا رب سب سے بہتر جانتا ہے۔ میں کون ہوں ۔