سنگجانی جلسہ: غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا : تحریر تنویر قیصر شاہد


9 ستمبر2024 کی صبح سوا سات بجے راقم اس مقام( سنگجانی) سے گزرا جہاں 8 ستمبر کی شام پی ٹی آئی کا جلسہ ہوا تھا۔ وہاں پھیلی بے انتہا غلاظت اور بے انتہا و بے تحاشہ بکھرا کوڑا دیکھ کر بے حد افسوس ہوا ۔ جی ٹی روڈ سے منسلک کی جانے والی اور نو تعمیر مارگلہ ایونیو کے ساتھ نہائت محنت سے تیار کی جانے والی خوبصورت گرین بیلٹ کو مکمل طور پر روند ڈالا گیا تھا۔

جلسہ گاہ کی طرف جانے کے لیے مارگلہ ایونیوکے دائیں بائیں لگائے گئے آہنی بیرئرز توڑ ڈالے گئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے گذشتہ شب اِس علاقے میں شائد کوئی گھمسان کا رن پڑا ہو۔کئی منٹ تک میں وہاں حیرت کی تصویر بنا کھڑا رہا ۔سوچتا رہا کہ نجانے اِس علاقے کی از سرِ نو استواری پر حکومت کو کتنا سرمایہ خرچ کرنا پڑے! یہ حکومتی سرمایہ ہمارے حکمرانوں کا ذاتی نہیں ہے بلکہ یہ ٹیکسوں کی شکل میں عوام کا خون نچوڑ کر اکٹھا کیاجاتا ہے ۔ اور اِس کا یہ مصرف؟

چھ دن گزرنے کے باوجوداسلام آباد کے مغربی مضافات میں واقع سنگجانیکے مقام پر ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے کے آفٹر شاکس ابھی تک جاری ہیں۔ حکومت نے پی ٹی آئی کے کئی اہم لیڈروں کو یہ الزام لگا کر گرفتار کر لیا ہے کہ آپ لوگوں نے سنگجانی جلسے کے لیے حکومت کے ساتھ کیے گئے وعدے اور معاہدے کی صریح خلاف ورزیاں کی ہیں۔ وعدے کے مطابق جلسہ ختم کرنے کے وقت کی بھی پاسداری نہیں کی گئی۔

اور یہ کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جلسہ گاہ جانے والے راستے ( 26نمبر چونگی)پر پولیس کے افسروں اور اہلکاروں پر مبینہ پتھراؤ کرکے کئی ایک کو شدید زخمی کر دیا۔ حکومت نے اِس تشدد کی جملہ ذمے داری بھی پی ٹی آئی قیادت پر عائد کر دی ہے۔پی ٹی آئی کے کئی منتخب ارکانِ اسمبلی کی گرفتاریوں سے سیاست و سماج میں جو نیا تناو پیدا ہو رہا ہے، کیا کسی کو اِس کا احساس اور خیال بھی ہے ؟ یہ گرفتاریاں اور حراستیں نئے طیش کو جنم دے رہی ہیں۔

یہ درست ہے کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا جناب علی امین گنڈا پور نے سنگجانی جلسے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ، شہباز حکومت، خاتون وزیر اعلی پنجاب، صحافیوں اور خاص طور پر خواتین صحافیوں کے خلاف قابلِ گرفت زبان استعمال کی ہے ۔

ہر کوئی اِس لہجے اور اسلوب کی مذمت کررہا ہے ۔ وزیر اطلاعات پنجاب، محترمہ عظمی بخاری، نے پریس کانفرنسیں کرکے بجا طور پر اپنی وزیر اعلی کا خوب دفاع بھی کیا ہے اور وزیر اعلی علی امین گنڈا پور کے کہے گئے الفاظ کا محاکمہ بھی ۔ پاکستانی اخبارات کے مدیروں کی مرکزی تنظیم CPNE نے بھی بیک زبان وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے مذکورہ بیان اور بے قابو زبان کی مذمت کی ہے۔ پریس کلبوں کی منتخب باڈیز کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی کے رپورٹروں نے بھی وزیر اعلی مذکور کے خلاف قابلِ ذکر احتجاجات کیے ہیں ۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود یہ مذمتیں جاری ہیں اور بجا طور پر جاری ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی نے مگر مبینہ طور پر علی امین گنڈا پور کے الفاظ کی بھرپور حمائت کی ہے۔ یہ سوال بھی مگر اپنی جگہ پر قائم ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے سنگجانی جلسے کے لیے کیے وعدے توڑے ہیں تو کیا حکومت نے پی ٹی آئی قیادت سے کیے گئے وعدے ایفا کیے ہیں؟

بانی پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے درخواست کرکے 22 اگست 2024 کا جلسہ ملتوی کروایا تھا ، اِس وعدے کے ساتھ کہ 8ستمبر کے جلسے کے لیے آزادی ہوگی۔ کیا حکومت اور 22اگست کا جلسہ ملتوی کرانے والوں نے مبینہ اور موعودہ آزاد جلسے کا عہد نبھایا؟ حقائق بتاتے ہیں کہ حکومت نے بھی غیر ضروری سخت حفاظتی انتظامات کیے۔ اسلام آباد اور سنگجانی کی طرف آنے والے راستے کنٹینروںکی آہنی دیواریں کھڑی کرکے مسدود کر دیے گئے۔ اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کے مبینہ ذرائع کے مطابق: 8ستمبر کواسلام آباد اور سنگجانی کے ارد گرد 40 مقامات پر کنٹینرز کھڑے کیے گئے۔ پنجاب پولیس اور پنجاب کانسٹیبلری کے 5ہزار اور ایف سی کے ایک ہزار اہلکار سنگجانی جلسے کے لیے تعینات کیے گئے۔ انھیں دوبار کھانا دیا گیا ۔ اِس تمام سرکاری بندوبست خرچ کا تخمینہ 5سے 8کروڑ روپے ہے۔

غربت و افلاس اور قرضوں کے مارے پاکستان ایسے ملک کی حکومت کو محض ایک جلسے کے حفاظتی اقدامات پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنا پڑی۔ یوں غریب عوام کے کروڑوں روپے یونہی ضایع ہو گئے ؟ اِسی کو اسراف کہتے ہیں۔ حکمرانوں اور جلسہ کرنے والوں کی ذاتی جیب پر تو ان کروڑوں روپے کا دباؤ اور بوجھ نہیں پڑا ۔ پی ٹی آئی کا جلسہ پی ٹی آئی قیادت اور پی ٹی آئی کے شرکت کنندگان کے بقول بڑا کامیاب اور بھرپور تھا۔ رکاوٹوں کے باوصف پی ٹی آئی کے کارکنان اور قیادت جوق در جوق آئے۔ کہا جاتا ہے کہ شرکت کنندگان کی تعداد 10ہزار سے کسی بھی طرح کم نہ تھی۔ پی ٹی آئی والے کہتے ہیں اگر دس ہزار لوگ بھی سنگجانی جلسے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ معمولی کامیابی نہیں ہے ۔اگرچہ نون لیگی وزرا سنگجانی جلسے کو جلسی کہہ رہے ہیں ۔

حکومتی پارٹی ، نون لیگ، کے سامنے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور اِس کا بانی سب سے مقبول لیڈر ہے تو وہ شدید اعصابی تناؤ میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ 8ستمبر کوسنگجانی کا جلسہ یہ پیغام دے گیا ہے کہ پی ٹی آئی جب بھی اور جہاں جلسہ کرے گی یہ جلسہ کامیاب ہی ہوگا۔یہ منظر پی پی پی اور نون لیگ، دونوں، کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔وزیراعلی خیبر پختونخوا نے للکارتے ہوئے (اور کسی قدر بد تہذیبی اور بیہودگی سے)اعلان کیا ہے کہ وہ سنگجانی جلسے کے بعد اب لاہور جلسہ کرنے آ رہے ہیں ۔

بانی پی ٹی آئی نے بھی للکارتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ حکومت اجازت دے یا نہ دے،21ستمبر کو لاہور کا جلسہ ضرور ہوگا۔ یہ جلسہ براہِ راست وزیر اعلی پنجاب، محترمہ مریم نواز، کے انتظامی اعصاب کا امتحان ہوگا۔ سوال مگر یہ بھی ہے کہ آیا8ستمبر کو سنگجانی جلسے کے(تلخ تجربے کے) بعد حکومت آیندہ پی ٹی آئی کو کسی بھی جگہ جلسہ کرنے کی اجازت دے گی؟ ایسے امکانات اب محدود اور مسدود نظر آ رہے ہیں ۔ مگر پی ٹی آئی کی قانونی اور سیاسی یلغار کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سامنے بند باندھنا نا ممکن سا نظر آتا ہے۔ جنھوں نے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو پالا پوسا تھا، اب وہ حیرت سے اِسے تک رہے ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں: سب جسے دیکھتے ہیں وحشت سے/ یہ مری آستیں سے نکلا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس