یہ ’’جلسی‘‘ اور اس کا ردِعمل : تحریر کشور ناہید


ہفتے کی رات گیارہ بجے، میرے اسسٹنٹ کا مظفر آباد سے فون آیا کہ میں اسلام آباد کے لئے روانہ ہو گیا ہوں۔ وجہ پوچھی تو اس نے کہا ہمارے علاقے کے تھانیدار نے بتایا ہے کہ رات بارہ بجے کے بعد، اسلام آباد جانے والی گاڑیاں بند کر دی جائیں گی۔ مری اور اٹک سے بھی ایسے ہی فون آئے تو میں نے سوچا آخر کل کیا ہے۔ کیلنڈر دیکھا تو 8ستمبر تھی۔ اس دن کیا خاص بات تھی کہ نائن الیون تو امریکہ میں ہوا تھا۔ ٹی وی لگانا، خود کو برباد کرنے کے مترادف ہوتا کہ سوائے لغویات کے ہوتا کچھ نہیں، خبریں سننے کیلئے بی بی سی بھی کبھی کبھی کوئی خبر دیتا ہے۔ صبح ساڑھے چھ بجے، میرے گھر کام کرنے والے لڑکے کا فون آیا کہ سارے راستے بند ہیں۔ کنٹینر لگے ہوئے ہیں۔ پھر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ اخبار آیا تو اس میں وہی اس ہفتے کون سے فیشن ڈیزائن اچھے رہیں گے۔ ٹیلی فون اٹھایا تو وہ چل رہا تھا۔ خبروں میں ازراہ تفنن بتایا گیا کہ آج 4 بجے سے 7بجے تک پی۔ ٹی۔ آئی کو جلسےکیلئے وقت دیا گیا ہے۔ اسی کے استقبال کیلئے اسلام آباد آنے والے سب راستے بند ہیں۔ میں نے ایک ہوٹل کو کافی کا آرڈر دینےکیلئے فون کیا۔ وہاں بڑی دیر بعد کسی نے فون اٹھایا۔ میری آواز سنتے ہی کہا ’’میڈم آج سارے ہوٹل، ریسٹورنٹ بند رکھنے کا حکم آیا ہے۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ یہ ساری بندشیں لگانے کا حکم اس شخصیت کے دماغ میں آیا ہو گا جس نے پہلے پنجاب میں دن رات کام کرنے پہ مقتدر حلقوں سے داد پا کر پہلے کرکٹ کا بیٹ ہاتھ میں لیا، پھر انہیں حلقوں کے حکم پر رانا ثناء اللہ کو ہیچ کرتا ہو ا وزارت داخلہ کے منصب پر شیخ رشید کا مذاق بھی اڑا رہا تھا اور یہ بھی کہہ رہا تھا کہ کچے کے ڈاکو تو میرے ایکایس ایچ او کی مار ہیں۔ یہ سب تیاری دیکھ کر غالب کا مصرعہ، اس کے وجود کو مجسم کر رہا تھا۔ غالب نے لکھا تھا ’’قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں‘‘ یہ مصرعہ یاد آتے ہی میں پر سکون ہو کر اپنی کتاب کے پروف پڑھنے لگی اور فیصلہ کیا کہ چار بجے کہاں جلسہ شروع ہو گا۔ مجھے یاد ہے مولانا فضل الرحمان تو جلسہ ختم ہوتے وقت پہنچا کرتے تھے۔ سیاسی جلسوں کی روایت کے مطابق میں نے فیصلہ کیا کہ شام 7 بجے کافی پیتے ہوئے، ٹی وی لگا کے پتہ کروں گی کہ تماشہ کیا ہے۔ کنٹینروں کے درمیان گردن نکال کر بیرسٹر گوہر بار بار کہہ رہے تھے کہ باہر لوگوں کی بھیڑ ہے، عورتیں مرد، سب باہر کھڑے ہیں۔ سارا علاقہ کنٹینروں سے بند ہے۔ لوگ کیسے اندر آئیں اور ساتھ ہی کچھ پٹاخوں، آنسوگیس کی بات کوئی صحافی بتا رہا تھا۔ میں نے پھر ٹی وی بند کر دیا۔ نو بجے خبروں اور وہ بھی بی بی سی نے بتایا کہ جلسہ تو ابھی تک ہو رہا ہے۔ گوہر کے علاوہ پی ٹی آئی کے مولا جٹ نےتقریر میں وہ کچھ کہا کہ ایک طرف صحافی اگلے دن تک ناراض رہے اور پنجاب کی حکومتی خواتین کسی خاتون کانام لے کر بار بار ٹارزن پکار رہی تھیں۔ مجھ ناتواں کی سمجھ میں کچھ کچھ آیا۔

صبح کو اڑتی اڑتی خبر آئی کہ جلسہ تو نو بجے کے بعد بھی جاری رہا اورپی ٹی آئی سے بجلی اور ٹینکروں کا کروڑوں روپے کا بل، پولیس مانگ رہی تھی۔ چلیں یہ باہمی قرض وصولی کا چکر توہم بڑے بڑے ملکوں سے برسوں سے جاری رکھے ہوئےہیں۔ یہ لوگ کس کھیت کی مولی ہیں۔ مگر سب سے تشویش ناک خبر کہوں کہ واقعہ کہ محکمہ داخلہ کی ذہانت کو بھی چکر دے کر 8گھنٹے تک مولا جٹ غائب رہا اور جب منظر عام پر آیا تو اپنے دفتر میں میٹنگ کر رہا تھا۔ اور اسلام آباد میں تمام شادی گھر والے خرچے کا بل لیے کھڑے تھے کہ ہم نے تو ولیمہ تیار رکھا۔ آپ ہی نہ آسکے تو ہمارا بل کون دے گا۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کے کارندے کہہ رہے تھے کہ ’’بس ایک سال میں ان کی چیخیں نکل گئی ہیں‘‘۔ اور لطف اٹھانے کے لئے جو اس وقت پولیس کے ہاتھ آیا پکڑ لیا گیا کہ انہوں نے بھی اپنا روزنامچہ دکھانا تھا۔

اگلے دن شام کو ایک طرف صدر صاحب اور دوسری طرف وزیراعظم، دونوں الگ الگ اپنی پارٹیوں کے ممبران کو کس خوشی میں ظہرانہ دے رہے تھے اور ممبران بھی جوق در جوق آ رہے تھے۔ ہم سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ قاضی عیسیٰ نے تو کچھ ایسی بات نہیں کہی کہ ان دونوں پارٹیوں کو اپنی پڑ گئی۔ مہمانوں نے مینو کارڈ دیکھا، اس پر لکھا تھا ’’یہ معلومات کلاسیفائیڈ ہیں۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ چکنائی، انڈے، بڑے کا گوشت اور آئینی ترمیم کے استعمال سے پرہیز کیجیے۔ کھانے کے دوران مجھے بلاول میاں بھی بیٹھے، اکتائے ہوئے سے لگ رہے تھے۔ البتہ رحم تو مجھے آصفہ بیٹی پہ اس زبرستی کے کھانے پہ آرہا تھا۔ اسپیڈ ماسٹر (پی ۔ایم) پھر تقریر کر رہے تھے۔

میں نے اس جلسے کو اپنے حال پر اور کھانے والوں کو ہاضمے کی دعائیں دیتے ہوئےقلم کارخ بدل دیا کہ پچھلے ہفتے پھر شرعی قانون کے استعمال کے بہانے ایک بابا، اس کی بیٹی اور دو نوجوانوں کو اپنی امارت کے زعم میں کچل دینے والی خاتون کے لواحقین نے ساڑھے پانچ کروڑ میں خون بہا لیتے ہوئے سوچا کہانی ختم ہو گئی مگر ریمنڈ ڈیوس جیسے قصے ہوتے رہیں گے کہ پہلے بھی تو کروڑوں دے کر تین بچوں کے کچلنے والوں نے اپنی جان چھڑائی تھی۔ جناب چیف جسٹس صاحب اپنے زمانے میں قبلہ ایاز صاحب کو ساتھ بٹھا کر شریعت کی اس تفہیم کو مالدار لوگوں کے ہاتھوں مزید خون آلود ہونے سے بچا لیں کہ ابھی مجرم باہر نہیں آئی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ